(1) لیکن اس کے باوجود بنی اسرائیل نے بد ترین بزدلی، سوء ادبی اور تمرد وسرکشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ ”تو اور تیرا رب جا کر لڑے“۔ اس کے برعکس جب جنگ بدر کے موقع پر رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا تو انہوں نے قلت تعداد و قلت وسائل کے باوجود جہاد میں حصہ لینے کے لئے بھرپور عزم کا اظہار کیا اور یہ بھی کہا کہ ”یا رسول اللہ! ہم آپ کو اس طرح نہیں کہیں گے جس طرح قوم موسیٰ نے موسیٰ (عليه السلام) کو کہا تھا۔“ (صحيح بخاري، كتاب المغازي والتفسير)
(1) اس میں نافرمان قوم کے مقابلے میں اپنی بےبسی کا اظہار بھی ہے اور براءت کا اعلان بھی۔
(1) یہ میدان تیہ کہلاتا ہے، جس میں چالیس سال یہ قوم اپنی نافرمانی اور جہاد سے اعراض کی وجہ سے سرگرداں رہی۔ اس میدان میں اس کے باوجود ان پر من وسلویٰ کا نزول ہوا، جس سے اکتا کر انہوں نے اپنے پیغمبر سے کہا کہ روز روز ایک ہی کھانا کھا کر ہمارا جی بھر گیا ہے۔ اپنے رب سے دعا کر کہ وہ مختلف قسم کی سبزیاں اور دالیں ہمارے لئے پیدا فرمائے۔ یہیں ان پر بادلوں کا سایہ ہوا، پتھر پر حضرت موسیٰ (عليه السلام) کی لاٹھی مارنے سے بارہ قبیلوں کے لئے بارہ چشمے جاری ہوئے، اور اس طرح کے دیگر انعامات ہوتے رہے۔ چالیس سال بعد پھر ایسے حالات پیدا کئے گئے کہ یہ بیت المقدس کے اندر داخل ہوئے۔
(2) پیغمبر، دعوت وتبلیغ کے باوجود جب دیکھتا ہے کہ میری قوم سیدھا راستہ اختیار کرنے کے لئے تیار نہیں، جس میں اس کے لئے دین ودنیا کی سعادتیں اور بھلائیاں ہیں تو فطری طور پر اس کو سخت افسوس اور دلی قلق ہوتا ہے۔ یہی نبی (صلى الله عليه وسلم) کا بھی حال ہوتا تھا، جس کا ذکر قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے متعدد جگہ فرمایا ہے۔ لیکن آیت میں حضرت موسیٰ (عليه السلام) سے خطاب کرکے کہا جا رہا ہے کہ جب تو نے فریضۂ تبلیغ ادا کردیا اور پیغام الٰہی لوگوں تک پہنچا دیا اور اپنی قوم کو ایک عظیم الشان کامیابی کے نقطۂ آغاز پر لاکھڑا کیا۔ لیکن اب وہ اپنی دون ہمتی اور بددماغی کے سبب تیری بات ماننے کو تیار نہیں تو، تو اپنے فرض سے سبک دوش ہو گیا اور اب تجھے ان کے بارے میں غمگین ہونے کی ضرورت نہیں۔ ایسے موقع پر غمگینی تو ایک فطری چیز ہے۔ لیکن مراد اس تسلی سے یہ ہے کہ تبلیغ ودعوت کے بعد اب تم عند اللہ بری الذمہ ہو۔
(1) آدم (عليه السلام) کے ان دو بیٹوں کے نام ہابیل اور قابیل تھے۔
(2) یہ نذر یا قربانی کس لئے پیش کی گئی؟ اس کے بارے میں کوئی صحیح روایت نہیں۔ البتہ مشہور یہ ہے کہ ابتدا میں حضرت آدم وحوا کے ملاپ سے بیک وقت لڑکا اور لڑکی پیدا ہوتی۔ دوسرے حمل سے پھر لڑکا لڑکی ہوتی، ایک حمل کے بہن بھائی کا نکاح دوسرے حمل کے بہن بھائی سے کردیا جاتا۔ ہابیل کے ساتھ پیدا ہونے والی بہن بدصورت تھی، جب کہ قابیل کے ساتھ پیدا ہونے والی بہن خوبصورت تھی۔ اس وقت کے اصول کے مطابق ہابیل کا نکاح قابیل کی بہن کے ساتھ اور قابیل کا نکاح ہابیل کی بہن کے ساتھ ہونا تھا۔ لیکن قابیل چاہتا تھا کہ وہ ہابیل کے بہن کی بجائے اپنی ہی بہن کے ساتھ جو خوبصورت تھی، نکاح کرے۔ حضرت آدم (عليه السلام) نے اسے سمجھایا، لیکن وہ نہ سمجھا، بالآخر حضرت آدم (عليه السلام) نے دونوں کو بارگاہ الٰہی میں قربانیاں پیش کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ جس کی قربانی قبول ہو جائے گی قابیل کی بہن کا نکاح اس کے ساتھ کردیا جائے گا۔ ہابیل کی قربانی قبول ہوگئی، یعنی آسمان سے آگ آئی اور اسے کھا گئی جو اس کے قبول ہونے کی دلیل تھی۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ ویسے ہی دونوں بھائیوں نے اپنے اپنے طور پر اللہ کی بارگاہ میں نذر پیش کی، ہابیل نے ایک عمدہ دنبہ کی قربانی اور قابیل نے گندم کی بالی قربانی میں پیش کی، ہابیل کی قربانی قبول ہونے پر قابیل حسد کا شکار ہوگیا۔
(1) میرے گناہ کا مطلب، قتل کا وہ گناہ ہے جو مجھے اس وقت ہوتا جب میں تجھے قتل کرتا۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ قاتل اورمقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ صحابہ کرام نے پوچھا قاتل کا جہنم میں جانا تو سمجھ میں آتا ہے، مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا، اس لئے کہ وہ بھی اپنے ساتھی کو قتل کرنے کا حریص تھا۔ (صحيح بخاري ومسلم كتاب الفتن)
(1) چنانچہ حدیث میں آتا ہے ”لا تُقْتَلُ نَفْسٌ ظُلْمًا إلا كَانَ عَلَى ابْنِ آدَمَ الأَوَّلِ كِفْلٌ مِنْ دَمِهَا؛ لأَنَّهُ كَانَ أَوَّلَ مَنْ سَنَّ الْقَتْلَ“ (صحيح بخاري، كتاب الأنبياء ومسلم، كتاب القسامة) ”جو قتل بھی ظلماً ہوتا ہے، (قاتل کے ساتھ) اس کے خون ناحق کا بوجھ آدم کے اس پہلے بیٹے پر بھی ہوتا ہے کیونکہ یہ پہلا شخص ہے جس نے قتل کا کام کیا۔“ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ ”ظاہر بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ قابیل کو ہابیل کے قتل ناحق کی سزا دنیا میں ہی فوری طور پر دے دی گئی تھی“۔ حدیث میں آتا ہے نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا ”مَا مِنْ ذَنْبٍ أَجْدَرُ أَنْ يُعَجِّلَ اللهُ عُقُوبَتَهُ فِي الدُّنْيَا مَعَ مَا يَدِّخِرُ لِصَاحِبِهِ فِي الآخِرَةِ؛ مِنَ الْبَغْيِ وَقَطِيعَةِ الرَّحِمِ“ (أبو داود، كتاب الأدب- ابن ماجه، كتاب الزهد ومسند أحمد 5/ 36-38) ”بغی (ظلم و زیادتی) اور قطع رحمی یہ دونوں گناہ اس بات کے زیادہ لائق ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے مرتکبین کو دنیا میں ہی جلد سزا دے دے، تاہم آخرت کی سزا اس کے علاوہ اس کے لئے ذخیرہ ہوگی“ جو انہیں وہاں بھگتنی ہوگی اور قابیل میں یہ دونوں گناہ جمع ہوگئے تھے۔ فَإِنَّا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (ابن کثیر)