పవిత్ర ఖురాన్ యొక్క భావార్థాల అనువాదం - ఉర్దూ అనువాదం - ముహమ్మద్ జూనాగడి

పేజీ నెంబరు:close

external-link copy
71 : 5

وَحَسِبُوْۤا اَلَّا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ فَعَمُوْا وَصَمُّوْا ثُمَّ تَابَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ ثُمَّ عَمُوْا وَصَمُّوْا كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ ؕ— وَاللّٰهُ بَصِیْرٌ بِمَا یَعْمَلُوْنَ ۟

اور سمجھ بیٹھے کہ کوئی پکڑ نہ ہوگی، پس اندھے بہرے بن بیٹھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کی، اس کے بعد بھی ان میں سے اکثر اندھے بہرے ہوگئے(1) ۔ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو بخوبی دیکھنے واﻻ ہے۔ info

(1) یعنی سمجھے یہ تھے کہ کوئی سزا مترتب نہ ہوگی۔ لیکن مذکورہ اصول الٰہی کے مطابق یہ سزا مترتب ہوئی کہ یہ حق کے دیکھنے سے مزید اندھے اور حق کے سننے سے مزید بہرے ہوگئے اور توبہ کے بعد پھر یہی عمل انہوں نے دہرایا ہے تو اس کی وہی سزا بھی دوبارہ مترتب ہوئی۔

التفاسير:

external-link copy
72 : 5

لَقَدْ كَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ ؕ— وَقَالَ الْمَسِیْحُ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اعْبُدُوا اللّٰهَ رَبِّیْ وَرَبَّكُمْ ؕ— اِنَّهٗ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ الْجَنَّةَ وَمَاْوٰىهُ النَّارُ ؕ— وَمَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ ۟

بے شک وه لوگ کافر ہوگئے جن کا قول ہے کہ مسیح ابن مریم ہی اللہ ہے(1) حاﻻنکہ خود مسیح نے ان سے کہا تھا کہ اے بنی اسرائیل! اللہ ہی کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا سب کا رب ہے(2)، یقین مانو کہ جو شخص اللہ کے ساتھ شریک کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کر دی ہے، اس کا ٹھکانہ جہنم ہی ہے اور گنہگاروں کی مدد کرنے واﻻ کوئی نہیں ہوگا۔(3) info

(1) یہی مضمون آیت نمبر 17 میں بھی گزر چکا ہے۔ یہاں اہل کتاب کی گمراہیوں کے ذکر میں اس کا پھر ذکر فرمایا۔ اس میں ان کے اس فرقے کے کفر کا اظہار ہے جو حضرت مسیح (عليه السلام) کے عین اللہ ہونے کا قائل ہے۔
(2) چنانچہ حضرت عیسیٰ (عليه السلام) یعنی مسیح ابن مریم علیہما السلام نے عالم شیرخوارگی میں (اللہ تعالیٰ کے حکم سے جب کہ بچے اس عمر میں قوت گویائی نہیں رکھتے) سب سے پہلے اپنی زبان سے اپنی عبودیت ہی کا اظہار فرمایا: «إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا» (سورة مريم: 30) ”میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں، مجھے اس نے کتاب بھی عطا کی ہے“۔) حضرت مسیح (عليه السلام) نے یہ نہیں کہا، میں اللہ ہوں یا اللہ کا بیٹا ہوں۔ صرف یہ کہا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں۔ اور عمر کہولت میں بھی انہوں نے یہی دعوت دی «إِنَّ اللَّهَ رَبِّي وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ هَذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ» ( آل عمران: 51) یہ وہی الفاظ ہیں جو ماں کی گود میں بھی کہے تھے (ملاحظہ ہو سورۂ مریم: 36) اور جب قیامت کے قریب ان کا آسمان سے نزول ہوگا، جس کی خبر صحیح احادیث میں دی گئی ہے اور جس پر اہل سنت کا اجماع ہے، تب بھی وہ نبی (صلى الله عليه وسلم) کی تعلیمات کے مطابق لوگوں کو اللہ کی توحید اور اس کی اطاعت کی طرف ہی بلائیں گے، نہ کہ اپنی عبادت کی طرف۔
(3) حضرت مسیح (عليه السلام) نے اپنی بندگی اور رسالت کا اظہار اللہ کے حکم اور مشیت سے اس وقت بھی فرمایا تھا جب وہ ماں کی گود میں یعنی شیرخوارگی کی حالت میں تھے۔ پھر سن کہولت میں یہ اعلان فرمایا۔ اور ساتھ ہی شرک کی شناعت وقباحت بھی بیان فرما دی کہ مشرک پر جنت حرام ہے اور اس کا کوئی مددگار بھی نہیں ہوگا جو اسے جہنم سے نکال لائے، جیسا کہ مشرکین سمجھتے ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
73 : 5

لَقَدْ كَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ ثَالِثُ ثَلٰثَةٍ ۘ— وَمَا مِنْ اِلٰهٍ اِلَّاۤ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ ؕ— وَاِنْ لَّمْ یَنْتَهُوْا عَمَّا یَقُوْلُوْنَ لَیَمَسَّنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ۟

وه لوگ بھی قطعاً کافر ہوگئے جنہوں نے کہا، اللہ تین میں کا تیسرا ہے(1) ، دراصل سوا اللہ تعالیٰ کے کوئی معبود نہیں۔ اگر یہ لوگ اپنے اس قول سے باز نہ رہے تو ان میں سے جو کفر پر رہیں گے، انہیں المناک عذاب ضرور پہنچے گا۔ info

(1) یہ عیسائیوں کے دوسرے فرقے کا ذکر ہے جو تین خداؤں کا قائل ہے، جن کو وہ ”أَقَانِيمُ ثَلاثَةٌ“ کہتے ہیں۔ ان کی تعبیر وتشریح میں اگرچہ خود ان کے مابین اختلاف ہے۔ تاہم صحیح بات یہی ہے کہ اللہ کے ساتھ، انہوں نے حضرت عیسیٰ (عليه السلام) اور ان کی والدہ حضرت مریم علیہا السلام کو بھی الہیٰ (معبود) قرار دے لیا ہے، جیسا کہ قرآن نے صراحت کی ہے، اللہ تعالیٰ قیامت والے دن حضرت عیسی(عليه السلام) سے پوچھے گا۔ «أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ» (المائدۃ: 116) ”کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو، اللہ کے سوا، معبود بنا لینا ؟“۔ اس سے معلوم ہوا کہ عیسیٰ اور مریم علیہما السلام، ان دونوں کو عیساؤں نے الٰہ بنایا، اور اللہ تیسرا الٰہ ہوا، جو ”ثَالِثُ ثَلاثَةٍ“ (تین میں کا تیسرا کہلایا) پہلے عقیدے کی طرح اللہ تعالیٰ نے اسے بھی کفر سے تعبیر فرمایا۔

التفاسير:

external-link copy
74 : 5

اَفَلَا یَتُوْبُوْنَ اِلَی اللّٰهِ وَیَسْتَغْفِرُوْنَهٗ ؕ— وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ۟

یہ لوگ کیوں اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں جھکتے اور کیوں استغفار نہیں کرتے؟ اللہ تعالیٰ تو بہت ہی بخشنے واﻻ اور بڑا ہی مہربان ہے۔ info
التفاسير:

external-link copy
75 : 5

مَا الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ اِلَّا رَسُوْلٌ ۚ— قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ؕ— وَاُمُّهٗ صِدِّیْقَةٌ ؕ— كَانَا یَاْكُلٰنِ الطَّعَامَ ؕ— اُنْظُرْ كَیْفَ نُبَیِّنُ لَهُمُ الْاٰیٰتِ ثُمَّ انْظُرْ اَنّٰی یُؤْفَكُوْنَ ۟

مسیح ابن مریم سوا پیغمبر ہونے کے اور کچھ بھی نہیں، اس سے پہلے بھی بہت سے پیغمبر ہوچکے ہیں ان کی والده ایک راست باز عورت تھیں(1) دونوں ماں بیٹے کھانا کھایا کرتے تھے(2)، آپ دیکھیے کہ کس طرح ہم ان کے سامنے دلیلیں رکھتے ہیں پھر غور کیجیئے کہ کس طرح وه پھرے جاتے ہیں۔ info

(1) ”صِدِّيقَةٌ“ کے معنی مومنہ اور ولیہ کے ہیں یعنی وہ بھی حضرت مسیح (عليه السلام) پر ایمان لانے والوں اور ان کی تصدیق کرنے والوں میں سے تھیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ ”نَبِيَّةٌ“ (پیغمبر) نہیں تھیں۔ جیسا کہ بعض لوگوں کو وہم ہوا ہے اور انہوں نے حضرت مریم علیہا السلام سمیت، حضرت سارہ (ام اسحاق عليه السلام) اور حضرت موسیٰ (عليه السلام) کی والدہ کونَبِيَّةٌ قرار دیا ہے۔ استدلال اس بات سے کیا ہے کہ اول الذکر دونوں سے فرشتوں نے آکر گفتگو کی اور حضرت ام موسیٰ کو خود اللہ تعالیٰ نے وحی کی۔ یہ گفتگو اور وحی نبوت کی دلیل ہے۔ لیکن جمہور علماء کے نزدیک یہ دلیل ایسی نہیں جو قرآن کی نص صریح کا مقابلہ کر سکے۔ قرآن نے صراحت کی ہے کہ ہم نے جتنے رسول بھی بھیجے، وہ مرد تھے۔ (سورۂ یوسف: 109)
(2) یہ حضرت مسیح (عليه السلام) اور حضرت مریم علیہا السلام دونوں کی الوہیت (الٰہ ہونے) کی نفی اور بشریت کی دلیل ہے۔ کیونکہ کھانا پینا، یہ انسانی حوائج وضروریات میں سے ہے۔ جو الٰہ ہو، وہ تو ان چیزوں سے ماورا بلکہ وراء الوراء ہوتا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
76 : 5

قُلْ اَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا ؕ— وَاللّٰهُ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ۟

آپ کہہ دیجیئے کہ کیا تم اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہو جو نہ تمہارے کسی نقصان کے مالک ہیں نہ کسی نفع کے، اللہ ہی خوب سننے اور پوری طرح جاننے واﻻ ہے۔(1) info

(1) یہ مشرکوں کی کم عقلی کی وضاحت کی جا رہی ہے کہ ایسوں کو انہوں نے معبود بنا رکھا ہے جو کسی کو نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان، بلکہ نفع نقصان پہنچانا تو کجا، وہ تو کسی کی بات سننے اور کسی کا حال جاننے کی ہی قدرت نہیں رکھتے۔ یہ قدرت صرف اللہ ہی کے اندر ہے۔ اس لئے حاجت روا مشکل کشا بھی صرف وہی ہے۔

التفاسير:

external-link copy
77 : 5

قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِكُمْ غَیْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوْۤا اَهْوَآءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ وَاَضَلُّوْا كَثِیْرًا وَّضَلُّوْا عَنْ سَوَآءِ السَّبِیْلِ ۟۠

کہہ دیجیئے اے اہل کتاب! اپنے دین میں ناحق غلو اور زیادتی نہ کرو(1) اور ان لوگوں کی نفسانی خواہشوں کی پیروی نہ کرو جو پہلے سے بہک چکے ہیں اور بہتوں کو بہکا بھی چکے(2) ہیں اور سیدھی راه سے ہٹ گئے ہیں۔ info

(1) یعنی اتباع حق میں حد سے تجاوز نہ کرو اور جن کی تعظیم کا حکم دیا گیا ہے، اس میں مبالغہ کرکے انہیں منصب نبوت سے اٹھا کر مقام الوہیت پر فائز مت کرو، جیسے حضرت مسیح (عليه السلام) کے معاملے میں تم نے کیا۔ غلو ہر دور میں شرک اور گمراہی کا سب سے بڑا ذریعہ رہا ہے۔ انسان کو جس سے عقیدت ومحبت ہوتی ہے، وہ اس کی شان میں خوب مبالغہ کرتا ہے۔ وہ امام اور دینی قائد ہے تو اس کو پیغمبر کی طرح معصوم سمجھنا اور پیغمبر کو خدائی صفات سے متصف ماننا عام بات ہے، بدقسمتی سے مسلمان بھی اس غلو سے محفوظ نہیں رہ سکے۔ ا نہوں نے بعض ائمہ کی شان میں بھی غلو کیا اور ان کی رائے اور قول، حتیٰ کہ ان کی طرف منسوب فتویٰ اور فقہ کو بھی حدیث رسول (صلى الله عليه وسلم) کے مقابلے میں ترجیح دے دی۔
(2) یعنی اپنے سے پہلے لوگوں کے پیچھے مت لگو، جو ایک نبی کو الٰہ بنا کر خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا۔

التفاسير: