அல்குர்ஆன் மொழிபெயர்ப்பு - உருது மொழிபெயர்ப்பு - முஹம்மது ஜுனாக்கரி

பக்க எண்:close

external-link copy
32 : 9

یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِـُٔوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَیَاْبَی اللّٰهُ اِلَّاۤ اَنْ یُّتِمَّ نُوْرَهٗ وَلَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ ۟

وه چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منھ سے بجھا دیں اور اللہ تعالیٰ انکاری ہے مگر اسی بات کا کہ اپنا نور پورا کرے گو کافر نا خوش رہیں۔(1) info

(1) یعنی اللہ نے رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کو جو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے، یہود و نصاریٰ اور مشرکین چاہتے ہیں کہ اپنے جدال و افترا سے اس کو مٹا دیں۔ ان کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص سورج کی شعاعوں کو یا چاند کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھا دے پس! جس طرح یہ ناممکن ہے اسی طرح جو دین حق اللہ نے اپنے رسول کو دے کر بھیجا ہے اس کا مٹانا بھی ناممکن ہے۔ وہ تمام دینوں پر غالب آ کر رہے گا، جیسا کہ اگلے جملے میں اللہ نے فرمایا، کافر کے لغوی معنی ہیں چھپانے والا اسی لئے رات کو بھی 'کافر' کہا جاتا ہے کہ وہ تمام چیزوں کو اپنے اندھیروں میں چھپا لیتی ہے کاشت کار کو بھی 'کافر' کہتے ہیں کیونکہ وہ غلے کے دانوں کو زمین میں چھپا دیتا ہے۔ گویا کافر بھی اللہ کے نور کو چھپانا چاہتے ہیں یا اپنے دلوں میں کفر و نفاق اور مسلمانوں اور اسلام کے خلاف بغض و عناد چھپائے ہوئے ہیں۔ اس لئے انہیں کافر کہا جاتا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
33 : 9

هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَی الدِّیْنِ كُلِّهٖ ۙ— وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ ۟

اسی نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا ہے کہ اسے اور تمام مذہبوں پر غالب کر دے(1) اگر چہ مشرک برا مانیں info

(1) دلائل و براہین کے لحاظ سے تو یہ غلبہ ہر وقت حاصل ہے۔ تاہم مسلمانوں نے دین پر عمل کیا تو انہیں دنیاوی غلبہ بھی حاصل ہوا۔ اور اب بھی مسلمان اگر اپنے دین کے عامل بن جائیں تو ان کا غلبہ یقینی ہے، اس لئے کہ اللہ کا وعدہ ہے کہ حزب اللہ غالب و فاتح ہوگا۔ شرط یہی ہے کہ مسلمان حزب اللہ بن جائیں۔

التفاسير:

external-link copy
34 : 9

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَیَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَیَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ؕ— وَالَّذِیْنَ یَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ۙ— فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ ۟ۙ

اے ایمان والو! اکثر علما اور عابد، لوگوں کا مال ناحق کھا جاتے ہیں اور اللہ کی راه سے روک دیتے ہیں(1) اور جو لوگ سونے چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں اور اللہ کی راه میں خرچ نہیں کرتے، انہیں دردناک عذاب کی خبر پہنچا دیجئے۔(2) info

(1) أَحْبَارٌ حِبْرٌ کی جمع ہے یہ ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو بات کو خوبصورت طریقہ سے پیش کرنے کا طریقہ رکھتا ہو خوبصورت اور منقش کپڑے کو ثَوْبٌ مُحَبَّرٌ کہا جاتا ہے مراد علماء یہود ہیں، رہبان راہب کی جمع ہے جو رہبنہ سے مشتق ہے۔ اس سے مراد علماء نصاریٰ ہیں بعض کے نزدیک یہ صوفیائے نصاریٰ ہیں۔ یہ دونوں ایک تو کلام اللہ میں تحریف و تغیر کر کے لوگوں کی خواہشات کے مطابق مسئلے بتاتے اور یوں لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں، دوسرے اس طرح لوگوں سے مال اینٹھتے، جو ان کے لئے باطل اور حرام تھا۔ بدقسمتی سے بہت سے علماء مسلمین کا بھی یہی حال ہے اور یوں نبی (صلى الله عليه وسلم) کی پیش گوئی کا مصداق ہیں جس میں آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا تھا، لَتَتَّبِعُنَّ سنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ (صحيح بخاري كتاب الاعتصام میں نبی صلى الله عليه وسلم کا یہ فرمان باب کا عنوان ہے) ”تم پچھلی امتوں کے طور طریقوں کی ضرور پیروی کرو گے“۔
(2) حضرت عبد اللہ بن عمر بفرماتے ہیں کہ یہ زکٰوۃ کے حکم سے پہلے کا حکم ہے۔ زکٰوۃ کا حکم نازل ہونے کے بعد زکٰوۃ کو اللہ تعالٰی نے مال کی طہارت کا ذریعہ بنا دیا ہے اس لئے علماء فرماتے ہیں کہ جس مال سے زکٰو ۃ ادا کر دی جائے وہ خزانہ نہیں ہے اور جس مال کی زکٰو ۃ ادا نہ کی جائے، وہ کنز (خزانہ) ہے، جس پر یہ قرآنی وعید ہے۔ چنانچہ صحیح حدیث میں ہے کہ ' جو شخص اپنے مال کی زکٰو ۃ ادا نہیں کرتا قیامت والے دن اس کے مال کو آگ کی تختیاں بنا دیا جائے گا، جس سے اس کے دونوں پہلوؤں کو، پیشانی کو اور کمر کو داغا جائے گا۔ یہ دن پچاس ہزار سال کا ہوگا اور لوگوں کے فیصلے ہو جانے تک اس کا یہی حال رہے گا اس کے بعد جنت یا جہنم میں اسے لے جایا جائے گا (صحيح مسلم- كتاب الزكاة ، باب إثم مانع الزكاة) یہ بگڑے ہوئے علماء اور صوفیا کے بعد بگڑے ہوئے اہل سرمایہ ہیں تینوں طبقے عوام کے بگاڑ میں سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں۔ اللَّهُمَّ! احْفَظْنَا مِنْهُمْ

التفاسير:

external-link copy
35 : 9

یَّوْمَ یُحْمٰی عَلَیْهَا فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوٰی بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوْبُهُمْ وَظُهُوْرُهُمْ ؕ— هٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ فَذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُوْنَ ۟

جس دن اس خزانے کو آتش دوزخ میں تپایا جائے گا پھر اس سے ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی (ان سے کہا جائے گا) یہ ہے جسے تم نے اپنے لئے خزانہ بنا کر رکھا تھا۔ پس اپنے خزانوں کا مزه چکھو۔ info
التفاسير:

external-link copy
36 : 9

اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْهَاۤ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ؕ— ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ ۙ۬— فَلَا تَظْلِمُوْا فِیْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ ۫— وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِیْنَ كَآفَّةً كَمَا یُقَاتِلُوْنَكُمْ كَآفَّةً ؕ— وَاعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ ۟

مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں باره کی ہے، اسی دن سے جب سے آسمان وزمین کو اس نے پیدا کیا ہے اس میں سے چار حرمت وادب کے ہیں(1) ۔ یہی درست دین ہے(2)، تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ﻇلم نہ کرو(3) اور تم تمام مشرکوں سے جہاد کرو جیسے کہ وه تم سب سے لڑتے ہیں(4) اور جان رکھو کہ اللہ تعالی متقیوں کے ساتھ ہے۔ info

(1) فی کتاب اللہ سے مراد لوح محفوظ یعنی تقدیر الٰہی ہے۔ یعنی ابتداء آفرینش سے ہی اللہ تعالٰی نے بارہ مہینے مقرر فرمائے ہیں، جن میں چار حرمت والے ہیں جن میں قتال و جدال کی بالخصوص ممانعت ہے۔ اسی بات کو نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) نے ایسے بیان فرمایا ہے کہ ”زمانہ گھوم گھما کر پھر اسی حالت پر آگیا ہے جس حالت پر اس وقت تھا جب اللہ نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق فرمائی۔ سال بارہ مہینوں کا ہے، جن میں چار حرمت والے ہیں، تین پے درپے ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم اور چوتھا رجب جو جمادی الاخری اور شعبان کے درمیان ہے“۔ (صحيح بخاري، كتاب التفسير ، سورة توبة وصحيح مسلم ، كتاب القسامة ، باب تغليظ تحريم الدماء) زمانہ اسی حالت پر آگیا ہے کا مطلب، مشرکین عرب مہینوں میں جو تاخیر و تقدیم کرتے تھے جس کی تفصیل آگے آرہی ہے اس کا خاتمہ ہے۔
(2) یعنی ان مہینوں کا اسی ترتیب سے ہونا جو اللہ نے رکھی ہے اور جن میں چار حرمت والے ہیں۔ اور یہی حساب صحیح اور عدد مکمل ہے۔
(3) یعنی حرمت والے مہینوں میں قتال کر کے ان کی حرمت پامال کر کے اور اللہ کی نافرمانی کا ارتکاب کر کے۔
(4) لیکن حرمت والے مہینے گزرنے کے بعد الا یہ کہ وہ لڑنے پر مجبور کر دیں، پھر حرمت والے مہینوں میں بھی تمہارے لئے لڑنا جائز ہوگا۔

التفاسير: