அல்குர்ஆன் மொழிபெயர்ப்பு - உருது மொழிபெயர்ப்பு - முஹம்மது ஜுனாக்கரி

توبہ

external-link copy
1 : 9

بَرَآءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖۤ اِلَی الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَ ۟ؕ

اللہ اوراس کے رسول کی جانب سے بیزاری کا اعلان ہے(1) ۔ ان مشرکوں کے بارے میں جن سے تم نے عہد وپیمان کیا تھا۔ info

(1) فتح مکہ کے بعد 9 ہجری میں رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) نے حضرت ابو بکر صدیق (رضي الله عنه)، حضرت علی (رضي الله عنه) اور دیگر صحابہ کو قرآن کریم کی یہ آیت اور یہ احکام دے کر بھیجا تاکہ وہ مکے میں ان کا عام اعلان کردیں۔ انہوں نے آپ (صلى الله عليه وسلم) کے فرمان کے مطابق اعلان کر دیا کہ کوئی شخص بیت اللہ کا عریاں طواف نہیں کرے گا، بلکہ آئندہ سال سے کسی مشرک کو بیت اللہ کے حج کی ہی اجازت نہیں ہوگی (صحيح بخاري كتاب الصلاة، باب ما يستر من العورة، مسلم كتاب الحج باب لا يحج البيت مشرك)

التفاسير:

external-link copy
2 : 9

فَسِیْحُوْا فِی الْاَرْضِ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّاعْلَمُوْۤا اَنَّكُمْ غَیْرُ مُعْجِزِی اللّٰهِ ۙ— وَاَنَّ اللّٰهَ مُخْزِی الْكٰفِرِیْنَ ۟

پس (اے مشرکو!) تم ملک میں چار مہینے تک تو چل پھر لو(1) ، جان لو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو، اور یہ (بھی یاد رہے) کہ اللہ کافروں کو رسوا کرنے واﻻ ہے۔(2) info

(1) یہ اعلان براءت ان مشرکین کے لئے تھا جن سے غیرمؤقت معاہدہ تھا یا چار مہینے سے کم تھا یا چار مہینوں سے زیادہ ایک خاص مدت تک تھا لیکن ان کی طرف سے عہد کی پاسداری کا اہتمام نہیں تھا۔ ان سب کو چار مہینے مکہ میں رہنے کی اجازت دی گئی۔ اس کا مطلب یہ تھا اس مدت کے اندر اگر وہ اسلام قبول کرلیں تو انہیں یہاں رہنے کی اجازت ہوگی۔ بصورت دیگر ان کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ چار مہینے کے بعد جزیرہ، عرب سے نکل جائیں، اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی بھی اختیار نہیں کریں گے تو حربی کافر شمار ہونگے، جن سے لڑنا مسلمانوں کے لئے ضروری ہوگا تاکہ جزیرہ عرب کفر و شرک کی تاریکیوں سے صاف ہو جائے۔
(2) یعنی یہ مہلت اس لئے نہیں دی جا رہی ہے کہ فی الحال تمہارے خلاف کاروائی ممکن نہیں ہے بلکہ اس سے مقصد صرف تمہاری بھلائی اور خیر خواہی ہے تاکہ جو توبہ کر کے مسلمان ہونا چاہے، وہ مسلمان ہو جائے، ورنہ یاد رکھو کہ تمہاری بابت اللہ کی جو تقدیر و مشیت ہے، اسے ٹال نہیں سکتے اور اللہ کی طرف سے مسلط ذلت و رسوائی سے تم بچ نہیں سکتے۔

التفاسير:

external-link copy
3 : 9

وَاَذَانٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖۤ اِلَی النَّاسِ یَوْمَ الْحَجِّ الْاَكْبَرِ اَنَّ اللّٰهَ بَرِیْٓءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَ ۙ۬— وَرَسُوْلُهٗ ؕ— فَاِنْ تُبْتُمْ فَهُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ ۚ— وَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوْۤا اَنَّكُمْ غَیْرُ مُعْجِزِی اللّٰهِ ؕ— وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ ۟ۙ

اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے لوگوں کو بڑے حج کے دن(1) صاف اطلاع ہے کہ اللہ مشرکوں سے بیزار ہے، اور اس کا رسول بھی، اگر اب بھی تم توبہ کر لو تو تمہارے حق میں بہتر ہے، اور اگر تم روگردانی کرو تو جان لو کہ تم اللہ کو ہرا نہیں سکتے۔ اور کافروں کو دکھ اور مار کی خبر پہنچا دیجئے۔ info

(1) صحیحین (بخاری و مسلم) اور دیگر صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ یوم حج اکبر سے مراد یوم النحر (10 ذوالحجہ) کا دن ہے۔ (ترمذي نمبر: 957، بخاري نمبر: 4655، مسلم نمبر:982)، اسی دن منیٰ میں اعلان براءت سنایا گیا۔ 10 ذوالحجہ کو حج اکبر کا دن اسی لئے کہا گیا کہ اس دن حج کے سب سے زیادہ اور اہم مناسک ادا کئے جاتے ہیں، اور عوام عمرے کو حج اصغر کہا کرتے تھے۔ اس لئے عمرے سے ممتاز کرنے کے لئے حج کو حج اکبر کہا گیا، عوام میں جو یہ مشہور ہے کہ جو حج جمعہ والے دن آئے، وہ حج اکبر ہے، یہ بے اصل بات ہے۔

التفاسير:

external-link copy
4 : 9

اِلَّا الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَ ثُمَّ لَمْ یَنْقُصُوْكُمْ شَیْـًٔا وَّلَمْ یُظَاهِرُوْا عَلَیْكُمْ اَحَدًا فَاَتِمُّوْۤا اِلَیْهِمْ عَهْدَهُمْ اِلٰی مُدَّتِهِمْ ؕ— اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ ۟

بجز ان مشرکوں کے جن سے تمہارا معاہده ہو چکا ہے اور انہوں نے تمہیں ذرا سا بھی نقصان نہیں پہنچایا نہ کسی کی تمہارے خلاف مدد کی ہے تو تم بھی ان کے معاہدے کی مدت ان کے ساتھ پوری کرو(1) ، اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کو دوست رکھتا ہے۔ info

(1) یہ مشرکین کی چوتھی قسم ہے ان سے جتنی مدت کا معاہدہ تھا، اس مدت تک انہیں رہنے کی اجازت دی گئی، کیونکہ انہوں نے معاہدے کی پاسداری کی اور اس کے خلاف کوئی حرکت نہیں کی، اس لئے مسلمانوں کے لئے بھی اس کی پاسداری کو ضروری قرار دیا گیا۔

التفاسير:

external-link copy
5 : 9

فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْهُمْ وَخُذُوْهُمْ وَاحْصُرُوْهُمْ وَاقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ— فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَهُمْ ؕ— اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ۟

پھر حرمت والے مہینوں(1) کے گزرتے ہی مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو(2) انہیں گرفتار کرو(3)، ان کا محاصره کرلو اور ان کی تاک میں ہر گھاٹی میں جا بیٹھو(4)، ہاں اگر وه توبہ کرلیں اور نماز کے پابند ہو جائیں اور زکوٰة ادا کرنے لگیں توتم ان کی راہیں چھوڑ دو(5)۔ یقیناً اللہ تعالیٰ بخشنے واﻻ مہربان ہے۔ info

(1) ان حرمت والے مہینوں سے مراد کیا ہے؟ اس میں اختلاف ہے۔ ایک رائے تو یہ ہے اس سے مراد وہی چار مہینے ہیں جو حرمت والے ہیں۔ یعنی رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم۔ اور اعلان براءت 10 ذوالحجہ کو کیا گیا۔ اس اعتبار سے گویا یہ اعلان کے بعد پچاس دن کی مہلت انہیں دی گئی، کیونکہ حرمت والے مہینوں کے گزرنے کے بعد مشرکین کو پکڑنے اور قتل کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ لیکن امام ابن کثیر نے کہا کہ یہاں أَشْهُرٌ حُرُمٌ سے مراد حرمت والے مہینے نہیں بلکہ 10 ذوالحجہ سے لے کر 10ربیع الثانی تک کے چار مہینے مراد ہیں۔ انہیں أَشْهُرٌ حُرُمٌ اس لیے کہا گیا ہے کہ اعلان براءت کی روسے ان چارمہینوں میں ان مشرکین سے لڑنے اور انکے خلاف کسی اقدام کی اجازت نہیں تھی۔ اعلان براءت کی رو سے یہ تاویل مناسب معلوم ہوتی ہے (واللہ اعلم بالصواب)۔
(2) بعض مفسرین نے اس حکم کو عام رکھا یعنی حل یا حرم میں، جہاں بھی پاؤ قتل کرو۔ اور بعض مفسرین نے «وَلا تُقَاتِلُوهُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّى يُقَاتِلُوكُمْ فِيهِ فَإِنْ قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ» ( البقرة ۔191) ”مسجد حرام کے پاس مت لڑو! یہاں تک کہ وہ خود تم سے لڑیں، اگر وہ لڑیں تو پھر تمہیں بھی ان سے لڑنے کی اجازت ہے“۔ اس آیت سے تخصیص کی ہے اور صرف حدود حرم سے باہر حل میں قتل کرنے کی اجازت دی ہے۔ (ابن کثیر)
(3) یعنی انہیں قیدی بنا لویا قتل کر دو۔
(4) یعنی اس بات پر اکتفا کرو کہ وہ تمہیں کہیں ملیں تو تم کاروائی کرو، بلکہ جہاں جہاں ان کے حصار، قلعے اور پناہ گاہیں ہیں وہاں وہاں ان کی گھات میں رہو، حتٰی کہ تمہاری اجازت کے بغیر ان کے لئے نقل و حرکت ممکن نہ رہے۔
(5) یعنی کوئی کاروائی ان کے خلاف نہ کی جائے، کیونکہ وہ مسلمان ہوگئے ہیں۔ گویا قبول اسلام کے بعد اقامت صلٰوۃ اور ادائے زکوۃ کا اہتمام ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص ان میں سے کسی ایک کا بھی ترک کرتا ہے تو وہ مسلمان نہیں سمجھا جائے گا۔ جس طرح حضرت ابو بکر صدیق (رضي الله عنه) نے مانعین زکوۃ کے خلاف اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے جہاد کیا اور فرمایا: «والله لأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلاة وَالزَّكَاةِ» (متفق عليه ، بحواله مشكاة كتاب الزكاة، فصل ثالث) ”اللہ کی قسم میں ان لوگوں سے ضرور لڑوں گا جو نماز اور زکوۃ کے درمیان فرق کریں گے“۔ یعنی نماز تو پڑھیں لیکن زکوۃ ادا کرنے سے گریز کریں۔

التفاسير:

external-link copy
6 : 9

وَاِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَ اسْتَجَارَكَ فَاَجِرْهُ حَتّٰی یَسْمَعَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ اَبْلِغْهُ مَاْمَنَهٗ ؕ— ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَعْلَمُوْنَ ۟۠

اگر مشرکوں میں سے کوئی تجھ سے پناه طلب کرے تو تو اسے پناه دے دے یہاں تک کہ وه کلام اللہ سن لے پھر اسے اپنی جائے امن تک پہنچا دے(1) ۔ یہ اس لئے کہ یہ لوگ بے علم ہیں۔(2) info

(1) اس آیت میں مذکورہ حربی کافروں کے بارے میں ایک رخصت دی گئی ہے کہ اگر کوئی کافر پناہ طلب کرے تو اسے پناہ دے دو، یعنی اسے اپنی حفظ و امان میں رکھو تاکہ کوئی مسلمان اسے قتل نہ کر سکے اور تاکہ اسے اللہ کی باتیں سننے اور اسلام کے سمجھنے کا موقعہ ملے، ممکن ہے اس طرح اسے توبہ اور قبول اسلام کی توفیق مل جائے۔ لیکن اگر وہ کلام اللہ سننے کے باوجود مسلمان نہیں ہوتا تو اسے اس کی جائے امن تک پہنچا دو، مطلب یہ ہے کہ اپنی امان کی پاسداری آخر تک کرنی ہے، جب تک وہ اپنے مستقر تک بخیریت واپس نہیں پہنچ جاتا، اس کی جان کی حفاظت تمہاری ذمہ داری ہے۔
(2) یعنی پناہ کے طلبگاروں کو پناہ کی رخصت اس لئے دی گئی ہے کہ یہ بےعلم لوگ ہیں، ممکن ہے اللہ اور رسول کی باتیں ان کے علم میں آئیں اور مسلمانوں کا اخلاق و کردار وہ دیکھیں تو اسلام کی حقانیت و صداقت کے وہ قائل ہوجائیں۔ اور اسلام قبول کر کے آخرت کے عذاب سے بچ جائیں۔ جس طرح صلح حدیبیہ کے بعد بہت سے کافر امان طلب کر کے مدینہ آتے جاتے رہے تو انہیں مسلمانوں کے اخلاق و کردار کے مشاہدے سے اسلام کے سمجھنے میں بڑی مدد ملی اور بہت سے لوگ مسلمان ہوگئے۔

التفاسير: