(1) یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب حضرت موسیٰ (عليه السلام) ان کے پاس تورات لائے اور اس کے احکام ان کو سنائے۔ تو انہوں نے پھر حسب عادت ان پر عمل کرنے سے انکار واعراض کیا، جس پر اللہ تعالیٰ نے ان پر پہاڑ کو بلند کر دیا کہ تم پر گرا کر تمہیں کچل دیا جائے گا، جس سے ڈرتے ہوئے انہوں نے تورات پر عمل کرنے کا عہد کیا۔ بعض کہتے ہیں کہ رفع جبل کا یہ واقعہ ان کے مطالبے پر پیش آیا، جب انہوں نے کہا کہ ہم تورات پر عمل اس وقت کریں گے جب اللہ تعالیٰ پہاڑ کو ہمارے اوپر بلند کرکے دکھائے۔ لیکن پہلی بات زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے واللهُ أَعْلَمُ ۔ یہاں مطلق پہاڑ کا ذکر ہے۔ لیکن اس سے قبل سورہ بقرہ آیت 63 اور آیت 93 میں دو جگہ اس واقعہ کا ذکر آیا ہے، وہاں اس کا نام صراحت کے ساتھ کوہ طور بتلایا گیا ہے۔
(1) یہ عَهْدِ أَلَسْتُ کہلاتا ہے جو أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ سے بنی ہوئی ترکیب ہے ۔ یہ عہد حضرت آدم (عليه السلام) کی تخلیق کے بعد ان کی پشت سے ہونے والی تمام اولاد سے لیا گیا۔ اس کی تفصیل ایک صحیح حدیث میں اس طرح آتی ہے کہ ”عرفہ والے دن نعمان جگہ میں اللہ تعالیٰ نے اصلاب آدم سے عہد (میثاق) لیا۔ پس آدم کی پشت سے ان کی ہونے والی تمام اولاد کو نکالا اور اس کو اپنے سامنے پھیلا دیا اور ان سے پوچھا، (کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟) سب نے کہا ” بَلَى، شَهِدْنَا“ (کیوں نہیں۔ ہم سب رب ہونے کی گواہی دیتے ہیں) (مسند أحمد ۔ جلد 1ص 272، والحاكم ۔ جلد ،2 ص 544، وصححه ووافقه الذهبي) امام شوکانی اس حدیث کی بابت لکھتے ہیں ”وَإِسْنَادُهُ لا مَطْعَنَ فِيهِ“ (فتح القدیر) (اس کی سند میں کوئی طعن نہیں) نیز امام شوکانی فرماتے ہیں ”یہ عالم ذر کہلاتا ہے اس کی یہی تفسیر صحیح اور حق ہے جس سے عدول اور کسی اور مفہوم کی طرف جانا صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ مرفوع حدیث اور آثار صحابہ سے ثابت ہے اور اسے مجاز پر بھی محمول کرنا جائز نہیں ہے“۔ بہرحال اللہ کی ربوبیت کی یہ گواہی ہر انسان کی فطرت میں ودیعت ہے۔ اسی مفہوم کو رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) نے اس طرح بیان فرمایا ہے کہ ”ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پس اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں ۔ جس طرح جانور کابچہ صحیح سالم پیدا ہوتا ہے، اس کا ناک، کان کٹا نہیں ہوتا“۔ (صحيح بخاري- كتاب الجنائز ومسلم، كتاب القدر) اور صحیح مسلم کی روایت ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ”میں نے اپنے بندوں کو حنیف (اللہ کی طرف یکسوئی سے متوجہ ہونے والا) پیدا کیا ہے۔ پس شیطان ان کو ان کے دین (فطری) سے گمراہ کر دیتا ہے“۔ الحدیث (صحيح مسلم- كتاب الجنة) یہ فطرت یا دین فطرت، یہی رب کی توحید اور اس کی نازل کردہ شریعت ہے جو اب اسلام کی صورت میں محفوظ اور موجود ہے۔
(1) یعنی ہم نے یہ اخذ عہد اور اپنی ربوبیت کی گواہی اس لیے لی تاکہ تم یہ عذر پیش نہ کرسکو کہ ہم تو غافل تھے یا ہمارے باپ دادا شرک کرتے آئے تھے، یہ عذر قیامت والے دن بارگاہ الٰہی میں مسموع نہیں ہوں گے۔
(1) مفسرین نے اسے کسی ایک متعین شخص سے متعلق قرار دیا ہے جسے کتاب الٰہی کا علم حاصل تھا لیکن پھر وہ دنیا اور شیطان کے پیچھے لگ کر گمراہ ہوگیا ۔ تاہم اس کی تعیین میں کوئی مستند بات مروی بھی نہیں۔ اس لیے اس تکلیف کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ عام ہے اور ایسے افراد ہر امت اور ہر دور میں ہوتے رہے ہیں، جو بھی اس صفت کا حامل ہوگا، وہ اس کا مصداق قرار پائے گا۔
(1) ”لَهَثٌ“ کہتے ہیں تھکاوٹ یا پیاس وغیرہ کی وجہ سے زبان کے باہر نکالے کو۔ کتے کی یہ عادت ہے کہ تم اسے ڈانٹو ڈپٹو یا اس کے حال پر چھوڑ دو، دونوں حالتوں میں وہ بھونکنے سے باز نہیں آتا، اسی طرح اس کی یہ عادت بھی ہے کہ وہ شکم سیر ہویا بھوکا، تندرست ہو یا بیمار، تھکا ماندہ ہو یا توانا، ہر حال میں زبان باہر نکالنے ہانپتا رہتا ہے۔ یہی حال ایسے شخص کا ہے، اسے وعظ کرو یا نہ کرو، اس کا حال ایک ہی رہے گا اور دنیا کے مال ومتاع کے لیے اس کی رال ٹپکتی رہے گی۔
(2) اور اس قسم کے لوگوں سے عبرت حاصل کرکے، گمراہی سے بچیں اور حق کو اپنائیں۔
(1) مثلاً تمیز ہے ۔ اصل عبارت یوں ہوگی سَاءَ مَثَلا! مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا۔
(1) یہ اس کے قانون مشیت کا بیان ہے جس کی وضاحت پہلے دو تین مرتبہ کی جاچکی ہے۔