(1) یعنی توبہ کرتے ہیں۔
(2) یہ اس کی وسعت رحمت ہی ہے کہ دنیا میں صالح وفاسق اور مومن وکافر دونوں ہی اس کی رحمت سے فیض یاب ہورہے ہیں۔ حدیث میں آتا ہے ”اللہ تعالیٰ کی رحمت کے 100 حصے ہیں۔ یہ اس کی رحمت کا ایک حصہ ہے کہ جس سے مخلوق ایک دوسرے پر رحم کرتی اور وحشی جانور اپنے بچوں پر شفقت کرتے ہیں اور اس نے اپنی رحمت کے 99 حصے اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔“ (صحيح مسلم، نمبر2108 وابن ماجه ، نمبر4293)
(1) یہ آیت بھی اس امر کی وضاحت کے لیے نص قطعی کی حیثیت رکھتی ہے کہ رسالت محمدیہ پر ایمان لائے بغیر نجات اخروی ممکن نہیں اور ایمان وہی معبتر ہے جس کی تفصیلات محمد رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) نے بیان فرمائی ہیں۔ اس آیت سے بھی تصور (وحدت ادیان) کی جڑ کٹ جاتی ہے۔
(2) معروف، وہ ہے جسے شریعت نے اچھا اور منکر، وہ ہے جسے شریعت نے برا قرار دیا ہے ۔
(3) یہ بوجھ اور طوق وہ ہیں جو پچھلی شریعت میں تھے، مثلاً نفس کے بدلے نفس کا قتل ضروری تھا، (دیت یا معافی نہیں تھی) یا جس کپڑے کو نجاست لگ جاتی، اس کا قطع کرنا ضروری تھا، شریعت اسلامیہ نے اسے صرف دھونے کا حکم دیا ۔ جس طرح قصاص میں دیت اور معافی کی بھی اجازت دی ۔ وغیرہ اور آپ (صلى الله عليه وسلم) نے بھی فرمایا ہے کہ ”مجھے آسان دین حنیفی کے ساتھ بھیجا گیا ہے“۔ ( مسند أحمد جلد 5۔ ص 266جلد ۔ ٦،ص116،233) لیکن افسوس! اس امت نے اپنے طور پر رسوم ورواج کے بہت سے بوجھ اپنے اوپر لاد لیے ہیں اور جاہلیت کے طوق زیب گلو کر لیے ہیں، جن سے شادی اور مرگ دونوں عذاب بن گئے ہیں ۔ هَدَاهَا اللهُ تَعَالَى ۔
(4) ان آخری الفاظ سے بھی یہی بات واضح ہوتی ہے کہ کامیاب وہی لوگ ہوں گے جو حضرت محمد رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) پر ایمان لانے والے اور ان کی پیروی کرنے والے ہوں گے۔ جو رسالت محمدیہ پر ایمان نہیں لائیں گے، وہ کامیاب نہیں، خاسر اور ناکام ہوں گے ۔ علاوہ ازیں کامیابی سے مراد بھی آخرت کی کامیابی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ کوئی قوم رسالت محمدیہ پر ایمان نہ رکھتی ہو اور اسے دنیاوی خوش حالی وفراوانی حاصل ہو۔ جس طرح اس وقت مغربی اور یورپی اور دیگر بعض قوموں کا حال ہے کہ وہ عیسائی یا یہودی یا کافر ومشرک ہونے کے باوجود مادی ترقی اور خوش حالی میں ممتاز ہیں۔ لیکن ان کی یہ ترقی عارضی وبطور امتحان واستدراج ہے۔ یہ ان کی اخروی کامیابی کی ضمانت یا علامت نہیں۔ اسی طرح سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ المائدہ کی آیت 15میں نور سے مراد قرآن مجید ہی ہے ۔ (جیسا وہاں بھی وضاحت کی گئی تھی) کیوں کہ جو نور آپ کے ساتھ نازل کیا گیا ہے، وہ قرآن مجید ہی ہے اس لیے اس (نور) سے خود نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کی ذات مراد نہیں ہے ۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ آپ کی صفات میں ایک صفت نور بھی ہے۔ جس سے کفروشرک کی تاریکیاں دور ہوئیں۔ لیکن آپ کے نوری صفت ہونے سے آپ کا نُورٌ مِنْ نُورِ اللهِ ہونا ثابت نہیں ہوسکتا، جس طرح اہل بدعت یہ ثابت کرتے ہیں۔ (مزید دیکھئے سورۂ المائدۂ آیت 15 کا حاشیہ)
(1) یہ آیت بھی رسالت محمدیہ کی عالم گیر رسالت کے اثبات میں بالکل واضح ہے ۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کو حکم دیا کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) کہہ دیجئے کہ اے کائنات کے انسانو! میں سب کی طرف اللہ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔ یوں آپ (صلى الله عليه وسلم) پوری بنی نوع انسان کے نجات دہندہ اور رسول ہیں۔ اب نجات اور ہدایت نہ عیسائیت میں ہے نہ یہودیت میں، نہ کسی اور مذہب میں۔ نجات اور ہدایت اگر ہے تو صرف اسلام کے اپنانے اور اسے ہی اختیار کرنے میں ہے۔ اس آیت میں اور اس سے پہلی آیت میں بھی آپ (صلى الله عليه وسلم) کو النبی الاّمی کہا گیا ہے ۔ یہ آپ کی ایک خاص صفت ہے۔ امّی کے معنی ہیں ان پڑھ۔ یعنی آپ نے کسی استاد کے سامنے زانوئے تلمذت (شاگردی) نہیں کیے، کسی سے کسی قسم کی تعلیم حاصل نہیں کی۔ لیکن اس کے باوجود آپ (صلى الله عليه وسلم) نے جو قرآن کریم پیش کیا، اس کے اعجاز وبلاغت کے سامنے دنیا بھر کے فصحا وبلغا عاجز آگئے اور آپ نے جو تعلیمات پیش کیں، ان کی صداقت وحقانیت کی ایک دنیا معترف ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ آپ واقعی اللہ کے سچے رسول ہیں ورنہ ایک امی نہ ایسا قرآن پیش کرسکتا ہے اور نہ ایسی تعلیمات بیان کرسکتا ہے جو عدل وانصاف کا بہترین نمونہ اور انسانیت کی فلاح وکامرانی کے لیے ناگزیر ہیں، انہیں اپنائے بغیر دنیا حقیقی امن وسکون اور راحت وعافیت سے ہمکنار نہیں ہوسکتی۔