(1) گزشتہ آیت میں جب اللہ نے وقوع قیامت کا تذکرہ فرمایا،تو اب اس آیت میں ایسی رہنمائی دی جارہی ہے، جسے اختیار کر کے انسان آخرت کی سعادتوں سے ہمکنار ہو سکے۔ اس آیت میں دعا سے اکثر مفسرین نے عبادت مراد لی ہے۔ یعنی صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔ جیسا کہ حدیث میں بھی دعا کو عبادت بلکہ عبادت کامﻐﺰ قرار دیا گیا ہے۔ الدُّعَاءُ هُوَ الْعِبَادَةُ اور الدَّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَةِ (مسند أحمد 4/271 مشكاة الدعوات) علاوہ ازیں اس کے بعد يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي کے الفاظ سے بھی واضح ہے کہ مراد عبادت ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ دعا سے مراد دعا ہی ہے یعنی اللہ سے جلب نفع اور دفع ضرر کا سوال کرنا، کیونکہ دعا کے شرعی اورحقیقی معنی مطلب کرنے کے ہیں، دوسرےمفہوم میں اس کا استعمال مجازی ہے علاوہ ازیں دعا بھی اپنے حقیقی معنی کی اعتبار سے اور حدیث مذکور کی رو سے بھی عبادت ہی ہے، کیونکہ مافوق الاسباب طریقے سےکسی سے کوئی چیز مانگنا اور اس سے سوال کرنا، یہ اس کی عبادت ہی ہے۔ (فتح القدیر) مطلب دونوں صورتوں میں ایک ہی ہے کہ اللہ کے سوا کسی اور کو طلب حاجات اور مدد کے لیے پکارنا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ اس طرح مافو ق الاسباب طریقے سے کسی کو حاجت روائی کے لیے پکارنا اس کی عبادت ہے اور عبادت اللہ کے سوا کسی کی جائز نہیں۔
(2) یہ اللہ کی عبادت سے انکار و اعراض یا اس میں دوسروں کو بھی شریک کرنے والوں کا انجام ہے۔
(1) یعنی رات کو تاریک بنایا، تاکہ کاروبار زندگی معطل ہو جائیں اور لوگ امن و سکون سے سو سکیں۔
(2) یعنی روشن بنایا تاکہ معاشی محنت اور تگ و دو میں تکلیف نہ ہو۔
(3) اللہ کی نعمتوں کا، اور نہ ان کا اعتراف ہی کرتے ہیں۔ یا تو کفر وجحود کی وجہ سے، جیساکہ کافروں کا شیوہ ہے۔ یا منعم کے واجبات شکر سے اہمال و غفلت کی وجہ سے جیسا کہ جاہلوں کا شعار ہے۔
(1) یعنی پھر تم اس کی عبادت سے کیوں بدکتےہو اور اس کی توحید سے کیوں پھرتے اور اینٹھتے ہو۔
(1) آگے نعمتوں کی کچھ قسمیں بیان کی جارہی ہیں تاکہ اللہ کی قدرت کاملہ بھی واضح ہو جائے اور اس کا بلاشرکت غیرے معبود ہونا بھی۔
(2) جس میں تم رہتے ہو، چلتے پھرتے، کاروبار کرتے اور زندگی گزارتے ہو، پھر بالآخر موت سے ہمکنار ہو کر قیامت تک کے لیے اسی میں آسودۂ خواب رہتے ہو۔
(3) یعنی قائم اور ثابت رہنے والی چھت۔ اگر اس کے گرنے کا اندیشہ رہتا توکوئی شخص آرام کی نیند سو سکتا تھا نہ کسی کے لیے کاروبار حیات کرنا ممکن ہوتا۔
(4) جتنے بھی روئے زمین پر حیوانات ہیں، ان سب میں (تم) انسانوں کو سب سے زیادہ خوش شکل اور متناسب الأعضا بنایا ہے۔
(5) یعنی اقسام و انواع کے کھانے تمہارے لیے مہیا کیے، جو لذیذ بھی ہیں اور قوت بخش بھی۔
(1) یعنی جب سب کچھ کرنے والا اور دینے والا وہی ہے۔ دوسرا کوئی، بنانے میں شریک ہے نہ اختیارات میں۔ تو پھر عبادت کامﺴتﺤﻖ بھی صرف ایک اللہ ہی ہے، دوسرا کوئی اس میں شریک نہیں ہو سکتا۔ استمداد واستغاثہ بھی اسی سے کرو کہ و ہی سب کی فریادیں اور التجائیں سننے پر قادر ہے۔ دوسرا کوئی بھی مافوق الاسباب طریقے سے کسی کی بات سننے پر قادر ہی نہیں ہے، جب یہ بات ہے تو دوسرے مشکل کشائی اور حاجت روائی کس طرح کرسکتے ہیں؟
(1) چاہے وہ پتھر کی مورتیاں ہوں، انبیاء علہیم السلام اور صلحاء ہوں اور قبروں میں مدفون اشخاص ہوں . مدد کے لیے کسی کو مت پکارو، ان کے ناموں کی نذر نیاز مت دو، ان کےوردنہ کرو، ان سے خوف مت کھاؤ اور ان سے امیدیں وابستہ نہ کرو۔ کیونکہ یہ سب عبادت کی قسمیں ہیں جو صرف ایک اللہ کا حق ہے۔
(2) یہ وہی عقلی اور نقلی دلائل ہیں جن سے اللہ کی توحید یعنی اللہ کے واحد الہٰ اور رب ہونے کا اثبات ہوتا ہے، جو قرآن میں جا بجا ذکر کیے گئے ہیں اسلام کے معنی ہیں اطاعت و انقیاد کے لیے جھک جانا، سر اطاعت خم کر دینا۔ یعنی اللہ کے احکام کے سامنے جھک جاؤں، ان سے سرتابی نہ کروں۔ آگے پھر توحید کے کچھ دلائل بیان کیے جارہے ہیں۔