ශුද්ධවූ අල් කුර්ආන් අර්ථ කථනය - උර්දු පරිවර්තනය - මුහම්මද් ජුනාකර්හි

පිටු අංක:close

external-link copy
15 : 29

فَاَنْجَیْنٰهُ وَاَصْحٰبَ السَّفِیْنَةِ وَجَعَلْنٰهَاۤ اٰیَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ ۟

پھر ہم نے انہیں اور کشتی والوں کو نجات دی اور اس واقعہ کو ہم نے تمام جہان کے لیے عبرت کا نشان بنا دیا. info
التفاسير:

external-link copy
16 : 29

وَاِبْرٰهِیْمَ اِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاتَّقُوْهُ ؕ— ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ۟

اور ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی اپنی قوم سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اوراس سے ڈرتے رہو، اگر تم میں دانائی ہے تو یہی تمہارے لیے بہتر ہے. info
التفاسير:

external-link copy
17 : 29

اِنَّمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْثَانًا وَّتَخْلُقُوْنَ اِفْكًا ؕ— اِنَّ الَّذِیْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَا یَمْلِكُوْنَ لَكُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوْا عِنْدَ اللّٰهِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوْهُ وَاشْكُرُوْا لَهٗ ؕ— اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ ۟

تم تو اللہ تعالیٰ کے سوا بتوں کی پوجا پاٹ کر رہے ہو اور جھوٹی باتیں دل سے گھڑ لیتے ہو(1) ۔ سنو! جن جنکی تم اللہ تعالیٰ کے سوا پوجا پاٹ کر رہے ہو وه تو تمہاری روزی کے مالک نہیں پس تمہیں چاہئے کہ تم اللہ تعالیٰ ہی سے روزیاں طلب کرو اور اسی کی عبادت کرو اور اسی کی شکر گزاری(2) کرو اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے.(3) info

(1) أَوْثَانٌ وَثَنٌ کی جمع ہے۔ جس طرح أَصْنَامٌ، صَنَمٌ کی جمع ہے۔ دونوں کے معنی بت کے ہیں۔ بعض کہتے ہیں صنم ، سونے، چاندی، پیتل اور پتھر کی مورت کو اور وثن مورت کو بھی اور چونے کے پتھر وغیرہ کے بنے ہوئے آستانوں کو بھی کہتے ہیں۔ تَخْلُقُونَ إِفْكًا کے معنی ہیں تُكَذِّبُونَ كَذِبًا ، جیسا کہ متن کے ترجمہ سے واضح ہے۔ دوسرے معنی ہیں تَعْمَلُونَهَا وَتَنْحِتُونَهَا لِلإِفْكِ ، جھوٹے مقصد کے لیے انہیں بناتے اور گھڑتے ہو۔ مفہوم کے اعتبار سے دونوں ہی معنی صحیح ہیں۔ یعنی اللہ کو چھوڑ کر تم جن بتوں کی عبادت کرتے ہو، وہ تو پتھر کے بنے ہوئے ہیں جو سن سکتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں، نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ نفع۔ اپنے دل سے ہی تم نے انہیں گھڑ لیا ہے کوئی دلیل تو ان کی صداقت کی تمہارے پاس نہیں ہے۔ یا یہ بت تو وہ ہیں جنہیں تم خود اپنے ہاتھوں سے تراشتے اور گھڑتے ہو اور جب ان کی ایک خاص شکل وصورت بن جاتی ہے تو تم سمجھتے ہو کہ اب ان میں خدائی اختیارات آگئے ہیں اور ان سے تم امیدیں وابستہ کرکے انہیں حاجت روا اور مشکل کشا باور کر لیتے ہو۔
(2) یعنی جب یہ بت تمہاری روزی کے اسباب ووسائل میں سے کسی بھی چیز کے مالک نہیں ہیں، نہ بارش برسا سکتے ہیں، نہ زمین میں درخت اگا سکتے ہیں اور نہ سورج کی حرارت پہنچا سکتے ہیں اور نہ تمہیں وہ صلاحیتیں دے سکتے ہیں، جنہیں بروئے کار لاکر تم قدرت کی ان چیزوں سے فیض یاب ہوتے ہو، تو پھر تم روزی اللہ ہی سے طلب کرو، اسی کی عبادت اور اسی کی شکر گزاری کرو۔
(3) یعنی مرکر اور پھر دوبارہ زندہ ہوکر جب اسی کی طرف لوٹنا ہے، اسی کی بارگاہ میں پیش ہونا ہے تو پھر اس کا در چھوڑ کر دوسروں کے در پر اپنی جبین نیاز کیوں جھکاتے ہو؟ اس کے بجائے دوسروں کی عبادت کیوں کرتے؟ اور دوسروں کو حاجت روا اور مشکل کشا کیوں سمجھتے ہو؟

التفاسير:

external-link copy
18 : 29

وَاِنْ تُكَذِّبُوْا فَقَدْ كَذَّبَ اُمَمٌ مِّنْ قَبْلِكُمْ ؕ— وَمَا عَلَی الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ ۟

اور اگر تم جھٹلاؤ تو تم سے پہلے کی امتوں نے بھی جھٹلایا ہے(1) ، رسول کے ذمہ تو صرف صاف طور پر پہنچا دینا ہی ہے.(2) info

(1) یہ حضرت ابراہیم (عليه السلام) کا قول بھی ہوسکتا ہے، جو انہوں نے اپنی قوم سے کہا۔ یا اللہ تعالیٰ کا قول ہے جس میں اہل مکہ سے خطاب ہے اور اس میں نبی (صلى الله عليه وسلم) کو تسلی دی جارہی ہے کہ کفار مکہ اگر آپ کو جھٹلا رہے ہیں، تو اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ پیغمبروں کے ساتھ یہی ہوتا آیا ہے۔ پہلی امتیں بھی رسولوں کو جھٹلاتی اور اس کا نتیجہ بھی وہ ہلاکت وتباہی کی صورت میں بھگتتی رہی ہیں۔
(2) اس لیے آپ بھی تبلیغ کا کام کرتے رہیے۔ اس سے کوئی راہ یاب ہوتا ہے یا نہیں؟ اس کے ذمے دار آپ نہیں ہیں، نہ آپ سے اس کی بابت پوچھا ہی جائے گا، کیونکہ ہدایت دینا نہ دینا یہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے، جو اپنی سنت کے مطابق، جس میں ہدایت کی طلب صادق دیکھتا ہے، اس کو ہدایت سے نواز دیتا ہے۔ دوسروں کو ضلالت کی تاریکیوں میں بھٹکتا ہوا چھوڑ دیتا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
19 : 29

اَوَلَمْ یَرَوْا كَیْفَ یُبْدِئُ اللّٰهُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ ؕ— اِنَّ ذٰلِكَ عَلَی اللّٰهِ یَسِیْرٌ ۟

کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ مخلوق کی ابتدا کس طرح اللہ نے کی پھر اللہ اس کا اعاده کرے گا(1) ، یہ تو اللہ تعالیٰ پر بہت ہی آسان ہے.(2) info

(1) توحید ورسالت کے اثبات کے بعد، یہاں سے معاد (آخرت) کا اثبات کیا جارہا ہے جس کا کفار انکار کرتے تھے۔ فرمایا پہلی مرتبہ پیدا کرنے والا بھی وہی ہے جب تمہارا سرے سے وجود ہی نہیں تھا، پھر تم دیکھنے سننے اور سمجھنے والے بن گئے اور پھر جب مرکر تم مٹی میں مل جاؤ گے، بظاہر تمہارا نام ونشان تک نہیں رہے گا، اللہ تعالیٰ تمہیں دوبارہ زندہ فرمائے گا۔
(2) یعنی یہ بات چاہے تمہیں کتنی ہی مشکل لگے، اللہ کے لیے بالکل آسان ہے۔

التفاسير:

external-link copy
20 : 29

قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَیْفَ بَدَاَ الْخَلْقَ ثُمَّ اللّٰهُ یُنْشِئُ النَّشْاَةَ الْاٰخِرَةَ ؕ— اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ۟ۚ

کہہ دیجئے! کہ زمین میں چل پھر کر دیکھو تو سہی(1) کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ابتداءً پیدائش کی۔ پھر اللہ تعالیٰ ہی دوسری نئی پیدائش کرے گا، اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے. info

(1) یعنی آفاق میں پھیلی ہوئی اللہ کی نشانیاں دیکھو زمین پر غور کرو، کس طرح اسے بچھایا، اس میں پہاڑ ، وادیاں، نہریں اور سمندر بنائے، اسی سے انواع واقسام کی روزیاں اور پھل پیدا کیے۔ کیا یہ سب چیزیں اس بات پر دلالت نہیں کرتیں کہ انہیں بنایا گیا ہے اور ان کا کوئی بنانے والا ہے؟

التفاسير:

external-link copy
21 : 29

یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ وَیَرْحَمُ مَنْ یَّشَآءُ ۚ— وَاِلَیْهِ تُقْلَبُوْنَ ۟

جسے چاہے عذاب کرے جس پر چاہے رحم کرے، سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے.(1) info

(1) یعنی وہی اصل حاکم اور متصرف ہے، اس سے کوئی پوچھ نہیں سکتا۔ تاہم اس کا عذاب یا رحمت، یوں ہی الل ٹپ نہیں ہوگی، بلکہ ان اصولوں کے مطابق ہوگی جو اسنے اس کے لیے طے کر رکھے ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
22 : 29

وَمَاۤ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَآءِ ؗ— وَمَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِیْرٍ ۟۠

تم نہ تو زمین میں اللہ تعالیٰ کو عاجز کرسکتے ہو نہ آسمان میں، اللہ تعالیٰ کے سوا تمہارا کوئی والی ہے نہ مددگار. info
التفاسير:

external-link copy
23 : 29

وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَلِقَآىِٕهٖۤ اُولٰٓىِٕكَ یَىِٕسُوْا مِنْ رَّحْمَتِیْ وَاُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ۟

جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیتوں اور اس کی ملاقات کو بھلاتے ہیں وه میری رحمت سے ناامید ہو جائیں(1) اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے. info

(1) اللہ تعالیٰ کی رحمت، دنیا میں عام ہے جس سے کافر اور مومن، منافق اور مخلص اور نیک اور بد سب یکساں طور پر مستفیض ہو رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو دنیا کے وسائل، آسائشیں اور مال ودولت عطا کر رہا ہے یہ رحمت الٰہی کی وہ وسعت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر فرمایا «وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ» (الأعراف: 156) ”میری رحمت نے ہر چیز کو گھیر لیا ہے“۔ لیکن آخرت چونکہ دارالجزا ہے، انسان نے دنیا کی کھیتی میں جو کچھ بویا ہوگا، اسی کی فصل اسے وہاں کاٹنی ہوگی، جیسے عمل کیے ہوں گے، اسی کی جزا اسے وہاں ملے گی۔ اللہ کی بارگاہ میں بےلاگ فیصلے ہوں گے۔ دنیا کی طرح اگر آخرت میں بھی نیک وبد کے ساتھ یکساں سلوک ہو اور مومن وکافر دونوں ہی رحمت الٰہی کے مستحق قرار پائیں تو اس سے ایک تو اللہ تعالیٰ کی صفت عدل پر حرف آتا ہے، دوسرے قیامت کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ قیامت کا دن تو اللہ نے رکھا ہی اس لیے ہے کہ وہاں نیکوں کو ان کی نیکیوں کے صلے میں جنت اور بدوں کو ان کی بدیوں کی جزا میں جہنم دی جائے۔ اس لیے قیامت والے دن اللہ تعالیٰ کی رحمت صرف اہل ایمان کے لیے خاص ہوگی۔ جسے یہاں بھی بیان کیا گیا ہے کہ جو لوگ آخرت اور معاد کے ہی منکر ہوں گے وہ میری رحمت سے ناامید ہوں گے یعنی ان کے حصے میں رحمت الٰہی نہیں آئے گی۔ سورۂ اعراف میں ان کو ان الفاظ سے بیان کیا گیا ہے۔ «فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُمْ بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ» (الأعراف: 156) ”میں یہ رحمت (آخرت میں) ان لوگوں کے لیے لکھوں گا جو متقی، زکوٰۃ ادا کرنے والے اور ہماری آیتوں پر ایمان رکھنے والے ہوں گے“۔

التفاسير: