Ibisobanuro bya qoran ntagatifu - Ibisobanuro bya Qur'an Ntagatifu mu rurimi rw'igihurudu - Muhammad Jonakri.

نازعات

external-link copy
1 : 79

وَالنّٰزِعٰتِ غَرْقًا ۟ۙ

ڈوب کر سختی سے کھینچنے والوں کی قسم!(1) info

(1) نَزْعٌ کے معنی، سختی سے کھینچنا، غَرْقًا ڈوب کر۔ یہ جان نکالنے والے فرشتوں کی صفت ہے فرشتے کافروں کی جان، نہایت سختی سے نکالتے ہیں اور جسم کے اندر ڈوب کر۔

التفاسير:

external-link copy
2 : 79

وَّالنّٰشِطٰتِ نَشْطًا ۟ۙ

بند کھول کر چھڑا دینے والوں کی قسم!(1) info

(1) نَشْطٌ کے معنی، گرہ کھول دینا، یعنی مومن کی جان فرشتے بہ سہولت نکالتے ہیں، جیسے کسی چیز کی گرہ کھول دی جائے۔

التفاسير:

external-link copy
3 : 79

وَّالسّٰبِحٰتِ سَبْحًا ۟ۙ

اور تیرنے پھرنے والوں کی قسم!(1) info

(1) سَبْحٌ کے معنی، تیرنا، فرشتے روح نکالنے کے لئے انسان کے بدن میں اس طرح تیرتے پھرتے ہیں جیسے غواص سمندر سےموتی نکالنے کے لئے سمندر کی گہرائیوں میں تیرتا ہے۔ یا مطلب ہے کہ نہایت تیزی سے اللہ کا حکم لے کر آسمان سے اترتے ہیں۔ کیونکہ تیز رو گھوڑے کو بھی سابح کہتے ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
4 : 79

فَالسّٰبِقٰتِ سَبْقًا ۟ۙ

پھر دوڑ کر آگے بڑھنے والوں کی قسم!(1) info

(1) یہ فرشتے اللہ کی وحی، انبیا تک، دوڑ کر پہنچاتے ہیں تاکہ شیطان کو اس کی کوئی سن گن نہ ملے۔ یا مومنوں کی روحیں جنت کی طرف لے جانے میں نہایت سرعت سے کام لیتے ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
5 : 79

فَالْمُدَبِّرٰتِ اَمْرًا ۟ۘ

پھر کام کی تدبیر کرنے والوں کی قسم!(1) info

(1) یعنی اللہ تعالیٰ جو کام ان کے سپرد کرتا ہے، وہ اس کی تدبیر کرتے ہیں اصل مدبر تو اللہ تعالیٰ ہی ہے لیکن جب اللہ تعالیٰ اپنی حکمت بالغہ کے تحت فرشتوں کے ذریعے سے کام کرواتا ہے تو انہیں بھی مدبر کہہ دیا جاتا ہے۔ اعتبار سے پانچوں صفات فرشتوں کی ہیں اور ان فرشتوں کی اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے۔ جواب قسم محذوف ہے یعنی لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ (تم ضرور زندہ کیے جاؤ گے اور تمہیں تمہارے عملوں کی بابت خبر دی جائے گی)۔ قرآن نے اس بعث وجزاء کے لئے کئی مواقع پر قسم کھالی ہے جیسے سورۂ تغابں: 7 میں بھی اللہ تعالیٰ نے قسم کھا کر مذکورہ الفاظ میں اس حقیقت کو بیان فرمایا ہے۔ یہ بعث وجزا کب ہوگی؟ اس کی وضاحت آگے فرمائی۔

التفاسير:

external-link copy
6 : 79

یَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ ۟ۙ

جس دن کانپنے والی کانپے گی.(1) info

(1) یہ نفخۂ اولیٰ ہے جسے نفخۂ فنا کہتے ہیں، جس سے ساری کائنات کانپ اور لرز اٹھے گی اور ہر چیز فنا ہو جائے گی۔

التفاسير:

external-link copy
7 : 79

تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ ۟ؕ

اس کے بعد ایک پیچھے آنے والی (پیچھے پیچھے) آئے گی.(1) info

(1) یہ دوسرا نفخہ ہوگا، جس سے سب لوگ زندہ ہو کر قبروں سے نکل آئیں گے۔ یہ دوسرا نفخہ پہلے نفخہ سےچالیس سال بعد ہوگا۔ اسے رَادِفَةٌ اس لئےکہا ہے کہ یہ پہلے نفخے کے بعد ہی ہوگا۔ یعنی نفخۂ ثانیہ، نفخۂ اولیٰ کا ردیف ہے۔

التفاسير:

external-link copy
8 : 79

قُلُوْبٌ یَّوْمَىِٕذٍ وَّاجِفَةٌ ۟ۙ

(بہت سے) دل اس دن دھڑکتے ہوں گے.(1) info

(1) قیامت کےاہوال اور شدائد سے۔

التفاسير:

external-link copy
9 : 79

اَبْصَارُهَا خَاشِعَةٌ ۟ۘ

جن کی نگاہیں نیچی ہوں گی.(1) info

(1) یعنی أَبْصَارُ أَصْحَابِهَا، ایسے دہشت زدہ لوگوں کی نظریں بھی ( مجرموں کی طرح ) جھکی ہوئی ہوں گی۔

التفاسير:

external-link copy
10 : 79

یَقُوْلُوْنَ ءَاِنَّا لَمَرْدُوْدُوْنَ فِی الْحَافِرَةِ ۟ؕ

کہتے ہیں کہ کیا ہم پہلی کی سی حالت کی طرف پھر لوٹائے جائیں گے؟(1) info

(1) حَافِرَةٌ، پہلی حالت کو کہتے ہیں۔ یہ منکریں قیامت کا قول ہے کہ کیا ہم پھر اس طرح زندہ کر دیئے جائیں گےجس طرح مرنے سے پیشتر تھے؟

التفاسير:

external-link copy
11 : 79

ءَاِذَا كُنَّا عِظَامًا نَّخِرَةً ۟ؕ

کیا اس وقت جب کہ ہم بوسیده ہڈیاں ہو جائیں گے؟(1) info

(1) یہ انکار قیامت کی مزید تاکید ہے کہ ہم کس طرح زندہ کردیئےجائیں گے جب کہ ہماری ہڈیاں بوسیدہ اور ریزہ ریزہ ہو جائیں گی۔

التفاسير:

external-link copy
12 : 79

قَالُوْا تِلْكَ اِذًا كَرَّةٌ خَاسِرَةٌ ۟ۘ

کہتے ہیں کہ پھر تو یہ لوٹنا نقصان ده ہے(1) info

(1) یعنی اگر واقعی ایسا ہوا جیسا کہ محمد ( (صلى الله عليه وسلم) ) کہتاہے، پھر تو یہ دوبارہ زندگی ہمارے لئے سخت نقصان دہ ہوگی۔

التفاسير:

external-link copy
13 : 79

فَاِنَّمَا هِیَ زَجْرَةٌ وَّاحِدَةٌ ۟ۙ

(معلوم ہونا چاہئے) وه تو صرف ایک (خوفناک) ڈانٹ ہے. info
التفاسير:

external-link copy
14 : 79

فَاِذَا هُمْ بِالسَّاهِرَةِ ۟ؕ

کہ (جس کے ظاہر ہوتے ہی) وه ایک دم میدان میں جمع ہو جائیں گے.(1) info

(1) سَاهِرَةٌ سےمراد زمین کی سطح یعنی میدان ہے۔ سطح زمین کو سَاهِرَةٌ اس لئےکہا گیا ہے کہ تمام جانداروں کا سونا اور بیدار ہونا، اسی زمین پر ہوتا ہے، بعض کہتے ہیں کہ چٹیل میدانوں اور صحراوں میں خوف کی وجہ سےانسان کی نیند اڑ جاتی ہےاور وہاں بیدار رہتاہے، اس لئے سَاهِرَةٌ کہا جاتا ہے۔ ( فتح القدیر ) بہرحال یہ قیامت کی منظر کشی ہے کہ ایک ہی نفخے سے سب لوگ ایک میدان میں جمع ہو جائیں گے۔

التفاسير:

external-link copy
15 : 79

هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ مُوْسٰی ۟ۘ

کیا موسیٰ (علیہ السلام) کی خبر تمہیں پہنچی ہے؟ info
التفاسير:

external-link copy
16 : 79

اِذْ نَادٰىهُ رَبُّهٗ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًی ۟ۚ

جب کہ انہیں ان کے رب نے پاک میدان طویٰ میں پکارا.(1) info

(1) یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب حضرت موسیٰ (عليه السلام) مدین سے واپس آگ کی تلاش میں کوہ طور پر پہنچ گئے تھے تو وہاں ایک درخت کی اوٹ سے اللہ تعالیٰ نےموسیٰ (عليه السلام) سے کلام فرمایا، جیسا کہ اس کی تفصیل سورۂ طہ کے آغاز میں گزری طُوَى اسی جگہ کا نام ہے، ہم کلامی کا مطلب نبوت ورسالت سےنوازنا ہے۔ یعنی موسیٰ (عليه السلام) آگ لینے گئے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں رسالت عطا فرما دی۔

التفاسير: