(1) ابتدا میں اکثر غریب، غلام قسم کے لوگ ہی مسلمان ہوئے تھے۔ اس لئے یہی چیز روءسائے کفار کی آزمائش کا ذریعہ بن گئی اور وہ ان غریبوں کا مذاق بھی اڑاتے اور جن پر ان کا بس چلتا، انہیں تعذیب واذیت سے بھی دوچار کرتے اور کہتے کہ کیا یہی لوگ جن پراللہ نے احسان فرمایا ہے؟ مقصد ان کا یہ تھا کہ ایمان اور اسلام اگر واقعی اللہ کا احسان ہوتا تو یہ سب سے پہلے ہم پر ہوتا، جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ”لَوْ كَانَ خَيْرًا مَا سَبَقُونَا إِلَيْهِ“ (الأحقاف: 11) ”اگر یہ بہتر چیز ہوتی تو اس کے قبول کرنے میں یہ ہم سے سبقت نہ کرتے“ یعنی ان ضعفا کے مقابلے میں ہم پہلے مسلمان ہوتے۔
(2) یعنی اللہ تعالیٰ ظاہری چمک دمک، ٹھاٹھ باٹھ اور رئیسانہ کروفر وغیرہ نہیں دیکھتا، وہ تو دلوں کی کیفیت کو دیکھتا ہے اور اس اعتبار سے وہ جانتا ہے کہ اس کے شکرگزار بندے اور حق شناس کون ہیں؟ پس اس نے جن کے اندر شکرگزاری کی خوبی دیکھی، انہیں ایمان کی سعادت سے سرفراز کردیا جس طرح حدیث میں آتا ہے۔ ”اللہ تعالیٰ تمہاری صورتیں اور تمہارے رنگ نہیں دیکھتا، وہ تو تمہارے دل اور تمہارے عمل دیکھتا ہے۔“ (صحيح مسلم، كتاب البر، باب تحريم ظلم المسلم وخذله واحتقاره ودمه وعرضه)
(1) یعنی ان پر سلام کرکے یا ان کے سلام کا جواب دے کر ان کی تکریم اور قدرافزائی کریں۔
(2) اور انہیں خوشخبری دیں کہ تفضل واحسان کے طور پر اللہ تعالی نے اپنے شکرگزار بندوں پر اپنی رحمت کرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ جس طرح حدیث میں آتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ تخلیق کائنات سے فارغ ہوگیا تو اس نے عرش پر لکھ دیا ”إنَّ رَحْمَتِي تَغْلِبُ غَضَبِي“ (صحيح بخاري ومسلم) ”میری رحمت، میرے غضب پر غالب ہے“۔ (3) اس میں بھی اہل ایمان کے لئے بشارت ہے کیونکہ ان ہی کی یہ صفت ہے کہ اگر نادانی سے یا بہ تقاضائے بشریت کسی گناہ کا ارتکاب کربیٹھتے ہیں تو پھر فوراً توبہ کرکے اپنی اصلاح کرلیتے ہیں۔ گناہ پر اصرار اور دوام اور توبہ وانابت سے اعراض نہیں کرتے۔
(1) یعنی اگر میں بھی تمہاری طرح اللہ کی عبادت کرنے کے بجائے، تمہاری خواہشات کے مطابق غیر اللہ کی عبادت شروع کر دوں تو یقیناً میں بھی گمراہ ہوجاؤں گا۔ مطلب یہ ہے کہ غیر اللہ کی عبادت وپرستش، سب سے بڑی گمراہی ہے لیکن بدقسمتی سے یہ گمراہی اتنی ہی عام بھی ہے۔ حتیٰ کہ مسلمانوں کی بھی ایک بہت بڑی تعداد اس میں مبتلا ہے۔هَدَاهُمُ اللهُ تَعَالَى-
(1) مراد وہ شریعت ہے جو وحی کے ذریعے سے آپ (صلى الله عليه وسلم) پر نازل کی گئی، جس میں توحید کو اولین حیثیت حاصل ہے۔ ”إِنَّ اللهَ لا يَنْظُرُ إِلَى صِوَرِكُمْ وَلا إِلى أَلْوَانِكُمْ، وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ وَأَعْمَالِكُمْ“ (صحيح مسلم ومسند أحمد / 539،85۔ابن ماجه، كتاب الزهد، باب القناعة)
(2) تمام کائنات پر اللہ ہی کا حکم چلتا ہے اور تمام معاملات اسی کے ہاتھ میں ہیں۔ اس لئے تم جو چاہتے ہو کہ جلد ہی اللہ کا عذاب تم پر آجائے تاکہ تمہیں میری صداقت یا کذب کا پتہ چل جائے، تو یہ بھی اللہ ہی کے اختیار میں ہے، وہ اگر چاہے تو تمہاری خواہش کے مطابق جلدی عذاب بھیج کر تمہیں متنبہ یا تباہ کردے اور چاہے تو اس وقت تک تمہیں مہلت دے جب تک اس کی حکمت اس کی مقتضی ہو۔
(3) ”يَقُصُّ“ ”قَصَصٌ“ سے ہے یعنی يَقُصُّ قَصَصَ الْحَقّ (حق باتیں بیان کرتا یا بتلاتا ہے) یا قَصَّ أَثَرَهُ (کسی کے پیچھے، پیروی کرنا) سے ہے یعنی يَتَّبِعُ الْحَقَّ فِيمَا يَحْكُمُ بِهِ (اپنے فیصلوں میں وہ حق کی پیروی کرتا ہے یعنی حق کے مطابق فیصلے کرتا ہے)۔ (فتح القدیر )
(1) یعنی اگر اللہ تعالیٰ میرے طلب کرنے پر فوراً عذاب بھیج دیتا یا اللہ تعالیٰ میرے اختیار میں یہ چیز دے دیتا تو پھر تمہاری خواہش کے مطابق عذاب بھیج کر جلد ہی فیصلہ کردیا جاتا۔ لیکن یہ معاملہ چونکہ کلیتاً اللہ کی مشیت پر موقوف ہے، اس لئے اس نے مجھے اس کا اختیار دیا ہے اور نہ ہی ممکن ہے کہ میری درخواست پر فوراً عذاب نازل فرما دے۔
ضروری وضاحت: حدیث میں جو آتا ہے کہ ایک موقعے پر اللہ کے حکم سے پہاڑوں کا فرشتہ نبی (صلى الله عليه وسلم) کے خدمت میں آیا اور اس نے کہا کہ اگر آپ (صلى الله عليه وسلم) حکم دیں تو میں ساری آبادی کو دونوں پہاڑوں کے درمیان کچل دوں آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا: ”نہیں، بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسلوں سے اللہ کی عبادت کرنے والا پیدا فرمائے گا، جو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے“ (صحيح بخاري، كتاب بدء الخلق، باب إذا قال أحدكم آمين والملائكة في السماء ... وصحيح مسلم، كتاب الجهاد باب ما لقي النبي من أذى المشركين) یہ حدیث آیت زیرِ وضاحت کے خلاف نہیں ہے، جیسا کہ بظاہر معلوم ہوتی ہے، اس لئے کہ آیت میں عذاب طلب کرنے پر عذاب دینے کا اظہار ہے جب کہ اس حدیث میں مشرکین کے طلب کئے بغیر صرف ان کی ایذا دہی کی وجہ سے ان پر عذاب بھیجنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے جسے آپ (صلى الله عليه وسلم) نے پسند نہیں فرمایا۔
(1) ”كِتَابٌ مُبِينٌ“ سے مراد لوح محفوظ ہے۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عالم الغیب صرف اللہ کی ذات ہے غیب کے سارے خزانے اسی کے پاس ہیں، اس لئے کفار ومشرکین اور معاندین کو کب عذاب دیا جائے؟ اس کا علم بھی صرف اسی کو ہے اور وہی اپنی حکمت کے مطابق اس کا فیصلہ کرنے والا ہے۔ حدیث میں بھی آتا ہے کہ مفاتح الغیب پانچ ہیں قیامت کا علم، بارش کا نزول، رحم مادر میں پلنے والا بچہ، آئندہ کل میں پیش آنے والے واقعات، اور موت کہاں آئے گی۔ ان پانچوں امور کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔ (صحيح بخاري تفسير سورة الأنعام)