(1) یعنی ایک ایک شخص کی اس طرح نشان دہی کر دیتے کہ ہر منافق کو عیانا پہچان لیا جاتا۔ لیکن تمام منافقین کے لئے اللہ نے ایسا اس لئے نہیں کیا کہ یہ اللہ کی صفت ستاری کے خلاف ہے، وہ بالعموم پردہ پوشی فرماتا ہے، پردہ دری نہیں۔ دوسرا اس نے انسانوں کو ظاہر پر فیصلہ کرنےکا اور باطن کا معاملہ اللہ کے سپرد کرنے کا حکم دیا ہے۔
(2) البتہ ان کا لہجہ اور انداز گفتگو ہی ایسا ہوتا ہے جو ان کے باطن کا غماز ہوتا ہے، جس سے اسے پیغمبر تو ان کو یقیناً پہچان سکتا ہے۔ یہ عام مشاہدے میں آنے والی بات ہے، انسانوں کے دل میں جو کچھ ہوتا ہے، وہ اسے لاکھ چھپائے لیکن انسان کی گفتگو ، حرکات وسکنات اور بعض مخصوص کیفیات، اس کے دل کے راز کو آشکارا کر دیتی ہیں۔
(1) اللہ تعالیٰ کے علم میں تو پہلے ہی سب کچھ ہے۔ یہاں علم سے مراد اس کا وقوع اور ظہور ہے تاکہ دوسرے بھی جان لیں اور دیکھ لیں۔ اسی لئے امام ابن کثیر نے اس کا مفہوم بیان کیا ہے حَتَّى نَعْلَمَ وُقُوعَه ہم اس کے وقوع کو جان لیں۔ ابن عباس ب اس قسم کے الفاظ کا ترجمہ کرتے تھے لِنَرَى ٰ، تاکہ ہم دیکھ لیں۔ (ابن کثیر) اور یہی معنی زیادہ واضح ہے۔
(1) بلکہ اپنا ہی بیڑا غرق کریں گے۔
(2) کیونکہ ایمان کے بغیر کسی عمل کی اللہ کے ہاں کوئی اہمیت نہیں۔ ایمان واخلاص ہی ہر عمل خیر کو اس قابل بناتا ہے کہ اس پر اللہ کے ہاں اجر ملے۔
(1) یعنی منافقین اور مرتدین کی طرح ارتداد ونفاق اختیار کرکے، اپنے عملوں کو برباد مت کرو۔ یہ گویا اسلام پر استقامت کا حکم ہے۔ بعض نےکبائر وفواحش کےارتکاب کو بھی حبط اعمال کا باعث گردانا ہے۔ اسی لئے مومنین کی صفات میں ایک صفت یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ وہ بڑےگناہ اور فواحش سے بچتے ہیں۔ (النجم: 32) اس اعتبار سے کبائر وفواحش سے بچنے کی اس میں تاکید ہے۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کوئی عمل خواہ کتنا ہی بہتر کیوں نہ معلوم ہوتا ہو اگر اللہ اور اس کے رسول ﹲ کی اطاعت کے دائرے سے باہر ہے تو رائیگاں اور برباد ہے۔
(1) مطلب یہ ہے کہ جب تم تعداد اور قوت وطاقت کے اعتبار سےدشمن پر غالب اور فائق تر ہو تو ایسی صورت میں کفار کے ساتھ صلح اور کمزوری کا مظاہرہ مت کرو، بلکہ کفر پر ایسی کاری ضرب لگاؤ کہ اللہ کا دین سر بلند ہو جائے۔ غالب وبرتر ہوتےہوئے کفر کےساتھ مصالحت کا مطلب، کفر کےاثر ونفوذ کے بڑھانے میں مدد دینا ہے۔ یہ ایک بڑا جرم ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کافروں کے ساتھ صلح کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ اجازت یقیناً ہے، لیکن ہر وقت نہیں۔ صرف اس وقت ہےجب مسلمان تعداد میں کم اوروسائل کے لحاظ سے فروتر ہوں۔ ایسے حالات میں لڑائی کی بہ نسبت صلح میں زیادہ فائدہ ہے تاکہ مسلمان اس موقعے سےفائدہ اٹھا کر بھرپور تیاری کر لیں، جیسے خود نبی ﹲ نےکفار مکہ سے جنگ نہ کرنے کا دس سالہ معاہدہ کیا تھا۔
(2) اس میں مسلمانوں کے لئے دشمن پر فتح ونصرت کی عظیم بشارت ہے۔ جس کے ساتھ اللہ ہو، اس کو کون شکست دے سکتاہے؟
(3) بلکہ وہ اس پر پورا اجر دے گا اور اس میں کوئی کمی نہیں کرے گا۔
(1) یعنی ایک فریب اور دھوکہ ہے، اس کی کسی چیز کی بنیاد ہے نہ اس کو ثبات اور نہ اس کا اعتبار۔
(2) یعنی وہ تمہارے مالوں سے بےنیاز ہے۔ اسی لئے اس نےتم سے زکوٰۃ میں کل مال کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ اس کے ایک نہایت قلیل حصے کا یعنی صرف ڈھائی فیصد کا اور وہ بھی ایک سال کے بعد اپنی ضرورت سےزیادہ ہونے پر، علاوہ ازیں اس کا مقصد بھی تمہارے اپنے ہی بھائی بندوں کی مدد اور خیر خواہی ہے نہ کہ اللہ اس مال سے اپنی حکومت کے اخراجات پورےکرتا ہے۔
(1) یعنی اگر ضرورت سے زائد کل مال کا مطالبہ کرے اور وہ بھی اصرار کے ساتھ اور زور دے کر تو یہ انسانی فطرت ہے کہ تم بخل بھی کرو گے اور اسلام کے خلاف اپنے بغض وعناد کا اظہار بھی۔ یعنی اس صورت میں خود اسلام کے خلاف بھی تمہارے دلوں میں عناد پیدا ہو جاتا کہ یہ اچھا دین ہے جو ہماری محنت کی ساری کمائی اپنے دامن میں سمیٹ لینا چاہتا ہے۔ !
(1) یعنی کچھ حصہ زکوٰۃ کے طور پر اور کچھ اللہ کے راستے میں خرچ کرو۔
(2) یعنی اپنے ہی نفس کو انفاق فی سبیل اللہ کے اجر سے محروم رکھتا ہے۔
(3) یعنی اللہ تمہیں خرچ کرنے کی ترغیب اس لئے نہیں دیتا کہ وہ تمہارے مال کا ضرورت مند ہے۔ نہیں، وہ تو غنی ہے، بے نیاز ہے، وہ تو تمہارے ہی فائدے کے لئے تمہیں یہ حکم دیتا ہے کہ اس سے ایک تو تمہارے اپنےنفسوں کا تزکیہ ہو۔ دوسرے، تمہارے ضرورت مندوں کی حاجتیں پوری ہوں۔ تیسرے، تم دشمن پر غالب اور برتر رہو۔ اس لئے اللہ کی رحمت اور مدد کے محتاج تم ہو نہ کہ اللہ تمہارا محتاج ہے۔
(4) یعنی اسلام سے کفر کی طرف پھر جاؤ۔
(5) بلکہ تم سے زیادہ اللہ اور رسول کے اطاعت گزار اور اللہ کی راہ میں خوب خرچ کرنے والےہوں گے۔ نبی (صلى الله عليه وسلم) سے اس کی بابت پوچھا گیا تو آپ (صلى الله عليه وسلم) نےحضرت سلمان فارسی (رضي الله عنه) کےکندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا اس سے مراد یہ اور اس کی قوم ہے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر ایمان ثریا (ستارے) کے ساتھ بھی لٹکا ہوا ہو تو اس کو فارس کے کچھ لوگ حاصل کر لیں گے۔ (الترمذي، ذكره الألباني في الصحيحة 3 / 14)۔