Tradução dos significados do Nobre Qur’an. - Tradução em Urdu - Muhammad Gunakry

Número de página:close

external-link copy
24 : 22

وَهُدُوْۤا اِلَی الطَّیِّبِ مِنَ الْقَوْلِ ۖۗۚ— وَهُدُوْۤا اِلٰی صِرَاطِ الْحَمِیْدِ ۟

ان کو پاکیزه بات کی رہنمائی کر دی گئی(1) اور قابل صد تعریف راه کی ہدایت کر دی گئی.(2) info

(1) یعنی جنت ایسی جگہ ہے جہاں پاکیزہ باتیں ہی ہونگی، وہاں بے ودہ اور گناہ کی بات نہیں ہوگی۔
(2) یعنی ایسی جگہ کی طرف جہاں ہر طرف اللہ کی حمد اور اس کی تسبیح کی صدائے دل نواز گونج رہی ہوگی۔ اگر اس کا تعلق دنیا سے ہو تو مطلب قرآن اور اسلام کی طرف رہنمائی ہے جو اہل ایمان کے حصے میں آتی ہے۔

التفاسير:

external-link copy
25 : 22

اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَیَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِیْ جَعَلْنٰهُ لِلنَّاسِ سَوَآءَ ١لْعَاكِفُ فِیْهِ وَالْبَادِ ؕ— وَمَنْ یُّرِدْ فِیْهِ بِاِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ ۟۠

جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کی راه سے روکنے لگے اور اس حرمت والی مسجد سے(1) بھی جسے ہم نے تمام لوگوں کے لئے مساوی کر دیا ہے وہیں کے رہنے والے ہوں یا باہر کے ہوں(2)، جو بھی ﻇلم کے ساتھ وہاں الحاد کا اراده کرے(3) ہم اسے درد ناک عذاب چکھائیں گے.(4) info

(1) روکنے والوں سے مراد کفار مکہ ہیں جنہوں نے 6ہجری میں مسلمانوں کو مکہ جاکر عمرہ کرنے سے روک دیا تھا، اور مسلمانوں کو حدیبیہ سے واپس آنا پڑا تھا۔
(2) اس میں اختلاف ہے کہ مسجد حرام سے مراد خاص مسجد (خانہ کعبہ) ہی ہے یا پورا حرم مکہ۔ کیونکہ قرآن میں بعض جگہ پورے حرم مکہ کے لیے بھی مسجد حرام کا لفظ بولا گیا ہے۔، یعنی جزء بول کر کل مراد لیا گیا ہے۔ جہاں تک خاص مسجد حرام کا تعلق ہے، اس کی بابت تو یہ بات متفقہ ہے کہ اس میں مقیم و غیر مقیم ملکی اور آفاقی سب کا حصہ مساوی ہے یعنی بلا تخسیص و تفریق ہر شخص رات اور دن کے کسی بھی حصے میں عبادت کرسکتا ہے۔ کسی کے لئے بھی کسی مسلمان کو عبادت سے روکنے کی اجازت نہیں ہے۔ البتہ جن علما نے مسجد حرام سے مراد پورا حرم لیا ہے۔ ان کے ایک گروہ کی رائے یہ ہے کہ پورا حرم مکی سب مسلمانوں کے لئے یکساں حیثیت رکھتا ہے اور اس کے مکانوں اور زمینوں کا کوئی مالک نہیں۔ اس لئے ان کی خرید و فروخت اور ان کو کرائے پر دینا ان کے نزدیک جائز نہیں۔ جو شخص بھی کسی جگہ سے حج یا عمرے کے لئے مکہ جائے تو اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ جہاں چاہے ٹھہر جائے، وہاں رہنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے گھروں میں ٹھہرانے سے نہ روکیں۔ دوسری رائے یہ ہے کہ مکانات اور زمینیں ملک خاص ہو سکتی ہیں اور ان میں مالکانہ تصرفات یعنی بیچنا، کرائے پر دینا جائز ہے۔ البتہ وہ مقامات جن کا تعلق مناسک حج سے ہے، مثلاً منی، مزدلفہ اور عرفات کے میدان یہ وقف عام ہیں۔ ان میں کسی کی ملکیت جائز نہیں۔ یہ مسئلہ قدیم فقہاء کے درمیان خاصہ مختلف فیہ رہا ہے۔ تاہم آجکل تقریباً تمام کے تمام علماء ہی ملکیت خاص کے قائل ہوگئے ہیں۔ اور یہ مسئلہ سرے سے اختلافی ہی نہیں رہا۔ مولانا مفتی محمد شفیع مرحوم نے بھی امام ابو حنیفہ اور فقہاء کا مسلک مختار اسی کو قرار پایا ہے۔ (ملاحظہ ہو معارف القرآن جلد 6صفحہ253)
(3) الحاد کے لفظی معنی تو کج روی ہے ہیں یہاں یہ عام ہے، کفر و شرک سے لے کر ہر قسم کے گناہ کے لئے حتٰی کہ بعض عملا الفاظ قرآنی کے پیش نظر اس بات تک قائل ہیں کہ حرم میں اگر کسی گناہ کا ارادہ بھی کر لے گا، (چاہے اس پر عمل نہ کر سکے) تو وہ بھی اس وعید میں شامل ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ محض ارادے پر مؤاخذہ نہیں ہوگا، جیسا کہ دیگر آیات سے واضح ہے۔ تاہم ارادہ اگر عزم مصمم کی حد تک ہو تو پھر گرفت ہو سکتا ہے۔ (فتح القدیر)

التفاسير:

external-link copy
26 : 22

وَاِذْ بَوَّاْنَا لِاِبْرٰهِیْمَ مَكَانَ الْبَیْتِ اَنْ لَّا تُشْرِكْ بِیْ شَیْـًٔا وَّطَهِّرْ بَیْتِیَ لِلطَّآىِٕفِیْنَ وَالْقَآىِٕمِیْنَ وَالرُّكَّعِ السُّجُوْدِ ۟

اور جبکہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو کعبہ کے مکان کی جگہ مقرر کر دی(1) اس شرط پر کہ میرے ساتھ کسی کو شریک(2) نہ کرنا اور میرے گھر کو طواف قیام رکوع سجده کرنے والوں کے لئے پاک صاف رکھنا.(3) info

(1) یہ بدلہ ہے ان لوگوں کا جو مذکورہ گناہوں کے مرتکب ہوں گے۔
(2) یعنی بیعت اللہ کی جگہ بتلا دی اور وہاں ہم نے ذریت ابراہیم (عليه السلام) کو ٹھہرایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ طوفان نوح (عليه السلام) کی ویرانی کے بعد خانہ کعبہ کی تعمیر سب سے پہلے حضرت ابراہیم (عليه السلام) کے ہاتھوں سے ہوئی ہے۔ جیسا کہ صحیح حدیث سے بھی ثابت ہے جس میں نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا ' سب سے پہلی مسجد جو زمین میں بنائی گئی، مسجد حرام ہے، اور اس کے چالیس سال بعد مسجد اقصٰی تعمیر ہوئی ' (مسند احمد 5۔150، 166- 167 و مسلم کتاب المساجد)
(3) یہ خانہ کعبہ کی تعمیر کی غرض بیان کی کہ اس میں صرف میری عبادت کی جائے اس سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ مشرکین نے اس میں جو بت سجا رکھے ہیں جن کی وہ یہاں آکر عبادت کرتے ہیں یہ ظلم صریح ہے کہ جہاں صرف اللہ کی عبادت کرنی چاہیے تھی وہاں بتوں کی عبادت کی جاتی ہے۔
(4) کفر بت پرستی اور دیگر گندگیوں اور نجاستوں سے۔ یہاں ذکر صرف نماز پڑھنے والوں کا کیا ہے، کیونکہ یہ دونوں عبادت خانہ کعبہ کے ساتھ خاص ہیں، نماز میں رخ اس کی طرف ہوتا ہے اور طواف صرف اسی کے گرد کیا جاتا ہے۔ لیکن اہل بدعت نے اب بہت سی قبروں کا طواف بھی ایجاد کر لیا ہے اور بعض نمازوں کے لیے قبلہ بھی کوئی اور۔ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهَا

التفاسير:

external-link copy
27 : 22

وَاَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْكَ رِجَالًا وَّعَلٰی كُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ ۟ۙ

اور لوگوں میں حج کی منادی کر دے لوگ تیرے پاس پا پیاده بھی آئیں گے اور دبلے پتلے اونٹوں پر بھی(1) اور دور دراز کی تمام راہوں سے آئیں(2) گے. info

(1) جو چارے کی قلت اور سفر کی دوری اور تھکاوٹ سے لاغر اور کمزور ہو جائیں گے۔
(2) یہ اللہ تعالٰی کی قدرت ہے کہ مکہ کے پہاڑ کی چوٹی سے بلند ہونے والی یہ نحیف سی صدا، دنیا کے کونے کونے تک پہنچ گئی، جس کا مشاہدہ حج اور عمرے میں ہر حاجی اور معتمر کرتا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
28 : 22

لِّیَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ وَیَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِیْۤ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰی مَا رَزَقَهُمْ مِّنْ بَهِیْمَةِ الْاَنْعَامِ ۚ— فَكُلُوْا مِنْهَا وَاَطْعِمُوا الْبَآىِٕسَ الْفَقِیْرَ ۟ؗ

اپنے فائدے حاصل کرنے کو آجائیں(1) اور ان مقرره دنوں میں اللہ کا نام یاد کریں اور چوپایوں پر جو پالتو ہیں(2)۔ پس تم آپ بھی کھاؤ اور بھوکے فقیروں کو بھی کھلاؤ. info

(1) یہ فائدے دینی بھی ہیں کہ نماز، طواف اور مناسک حج و عمرہ کے ذریعے سے اللہ کی مغفرت و رضا حاصل کی جائے اور دنیاوی بھی کہ تجارت اور کاروبار سے مال و اسباب دنیا میسر آجائے۔
(2) بِهِيمَةُ الأَنعَامِ پالتو جانوروں سے مراد اونٹ، گائے، بکری (اور بھیڑ دنبے) ہیں۔ ان پر اللہ کا نام لینے کا مطلب ان کو ذبح کرنا جو اللہ کے نام لے کر ہی کیا جاتا ہے اور ایام معلومات سے مراد، ذبح کے ایام ' ایام تشریق ہیں، جو یوم (10 ذولالحجہ) اور تین دن اس کے بعد ہیں۔ یعنی 11، 12اور 13 ذوالحجہ تک قربانی کی جاسکتی ہے۔ عام طور پر ایام معلومات سے عشرہ ذوالحجہ اور ایام معدودات سے ایام تشریق مراد لئے جاتے ہیں۔ تاہم یہاں "معلومات"جس سیاق میں آیا ہے، اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ایام تشریق مراد ہیں۔ واللہ اعلم

التفاسير:

external-link copy
29 : 22

ثُمَّ لْیَقْضُوْا تَفَثَهُمْ وَلْیُوْفُوْا نُذُوْرَهُمْ وَلْیَطَّوَّفُوْا بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ ۟

پھر وه اپنا میل کچیل دور کریں(1) اور اپنی نذریں پوری کریں(2) اور اللہ کے قدیم گھر کا طواف کریں.(3) info

(1) یعنی10 ذوالحجہ کو جمرہ کبریٰ (یا جمرہ عقبہ) کو کنکریاں مارنے کے بعد حاجی تحلل اول (یا تحلّل اصغر) حاصل ہو جاتا ہے، جس کے بعد وہ احرام کھول دیتا ہے اور بیوی سے مباشرت کے سوا، دیگر وہ تمام کام اس کے لئے جائز ہو جاتے ہیں، جو حالت احرام میں ممنوع ہوتے ہیں۔ میل کچیل دور کرنے کا مطلب یہی ہے کہ پھر وہ بالو، ناخنوں وغیرہ کو صاف کرلے، تیل خوشبو استعمال کرے اور سلے ہوئے کپڑے پہن لے وغیرہ۔
(2) اگر کوئی مانی ہوئی ہو، جیسے لوگ مان لیتے ہیں کہ اگر اللہ نے ہمیں اپنے مقدس گھر کی زیارت نصیب فرمائی، تو ہم فلاں نیکی کا کام کریں گے۔
(3) عتیق کے معنی قدیم کے ہیں مراد خانہ کعبہ ہے کہ حلق یا تقصیر کے بعد افاضہ کرلے، جسے طواف زیارت بھی کہتے ہیں، اور یہ حج کا رکن ہے جو وقوف عرفہ اور جمرہ عقبہ (یا جمرہ کبرٰی) کو کنکریاں مارنے کے بعد کیا جاتا ہے۔ جب کہ طواف قدوم بعض کے نزدیک واجب اور بعض کے نزدیک سنت ہے اور طواف وداع سنت مؤکدہ (یا واجب) ہے۔ جو اکثر اہل علم کے نزدیک عذر سے ساقط ہو جاتا ہے، جیسے حائضہ عورت سے بالاتفاق ساقط ہو جاتا ہے (ایسر التفاسیر)

التفاسير:

external-link copy
30 : 22

ذٰلِكَ ۗ— وَمَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰهِ فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ ؕ— وَاُحِلَّتْ لَكُمُ الْاَنْعَامُ اِلَّا مَا یُتْلٰی عَلَیْكُمْ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ ۟ۙ

یہ ہے اور جو کوئی اللہ کی حرمتوں(1) کی تعظیم کرے اس کے اپنے لئے اس کے رب کے پاس بہتری ہے۔ اور تمہارے لئے چوپائے جانور حلال کر دیئے گئے بجز ان کے جو تمہارے سامنے(2) بیان کیے گئے ہیں پس تمہیں بتوں کی گندگی سے بچتے رہنا چاہئے(3) اور جھوٹی بات سے بھی پرہیز کرنا چاہئے.(4) info

(1) ان حرمتوں سے مراد وہ مناسک حج ہیں جن کی تفصیل ابھی گزری ہے۔ ان کی تعظیم کا مطلب، ان کی اس طرح ادائیگی ہے جس طرح بتلایا گیا ہے۔ یعنی ان کی خلاف ورزی کر کے ان حرمتوں کو پامال نہ کرے۔
(2) "جو بیان کئے گئے ہیں " کا مطلب ہے جن کا حرام ہونا بیان کر دیا گیا، جیسے آیت «حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ» (المائدہ:3) میں تفصیل ہے۔
(3) رجس کے معنی گندگی اور پلیدی کے ہیں یہاں اس سے مراد لکڑی، لوہے یا کسی اور چیز کے بنے ہوئے بت ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کی عبادت کرنا، یہ نجاست ہے اور اللہ کے غضب اور عدم رضا کا باعث، اس سے بچو۔
(4) جھوٹی بات میں، جھوٹی بات کے علاوہ جھوٹی قسم بھی ہے (جس کو حدیث میں شرک اور حقوق والدین کے بعد تیسرے نمبر پر کبیرہ گناہوں میں شمار کیا گیا ہے) اور سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ اللہ جن چیزوں سے پاک ہے، وہ اسکی طرف منسوب کی جائیں۔ مثلًا اللہ کی اولاد ہے وغیرہ۔ فلاں بزرگ کے اختیارات میں شریک ہے یافلاں کام پر اللہ کس طرح قادر ہوگاجیسے کفار بعث بعد الموت پر تعجب کا اظہار کرتے رہے ہیں اور کرتے ہیں یا اپنی طرف سے اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام اور حرام چیزوں کو حلال کر لینا جیسے مشرکین بحیرہ سائبہ وصیلہ اور عام جانوروں کو اپنے اوپر حرام کر لیتے تھے یہ سب جھوٹ ہیں ان سے اجتناب ضروری ہے۔

التفاسير: