(1) جس طرح جنت میں اہل ایمان کے درجات مختلف ہوں گے، اسی طرح جہنم میں کفار کے عذاب میں فرق ہوگا جو گمراہ ہونے کے ساتھ دوسروں کی گمراہی کا سبب بنے ہونگے، ان کا عذاب دوسروں کی نسبت شدید تر ہوگا۔
- یعنی ہر نبی اپنی امت پر گواہی دے گا اور نبی اور آپ کی امت کے لوگ انبیاء کی بابت گواہی دیں گے کہ یہ سچے ہیں، انہوں نے یقیناً تیرا پیغام پہنچا دیا تھا (صحيح بخاري، تفسير سورة النساء)
(2) کتاب سے مراد اللہ کی کتاب اور نبی کی تشریحات (احادیث) ہیں۔ اپنی احادیث کو بھی اللہ کے رسول نے " کتاب اللہ " قرار دیا ہے۔ جیسا کہ قصہ عسیف وغیرہ میں ہے (ملاحظہ ہو صحيح بخاري ، كتاب المحاربين باب هل يأمر الإمام رجلا فيضرب الحد غائبا عنه ، كتاب الصلاة باب ذكر البيع والشراء على المنبر في المسجد)اور ہرچیز کا مطلب ہے، ماضی اور مستقبل کی خبریں جن کا علم ضروری اور مفید ہے، اسی طرح حرام و حلال کی تفصیلات اور وہ باتیں جن کے دین و دنیا اور معاش و معاد کے معاملات میں انسان محتاج ہیں۔ قرآن و حدیث دونوں میں یہ سب چیزیں واضح کر دی گئی ہیں۔
(1) عدل کے مشہور معنی انصاف کرنے کے ہیں۔ یعنی اپنوں اور بیگانوں سب کے ساتھ انصاف کیا جائے، کسی کے ساتھ دشمنی یا عناد یا محبت یا قرابت کی وجہ سے، انصاف کے تقاضے مجروح نہ ہوں۔ ایک دوسرے معنی اعتدال کے ہیں یعنی کسی معاملے میں بھی زیادتی یا کمی کا ارتکاب نہ کیا جائے۔ حتیٰ کہ دین کے معاملے میں بھی۔ کیونکہ دین میں زیادتی کا نتیجہ حد سے زیادہ گزر جانا ہے، جو سخت خراب ہے اور کمی، دین میں کوتاہی ہے یہ بھی ناپسندیدہ ہے۔ احسان کے ایک معنی حسن سلوک، عفو ودرگزر اور معاف کر دینے کے ہیں۔ دوسرے معنی تفضل کے ہیں یعنی حق واجب سے زیادہ دینا یا عمل واجب سے زیادہ عمل کرنا۔ مثلا کسی کام کی مزدوری سو روپے طے ہے لیکن دیتے وقت ۱۰،۲۰ روپے زیادہ دے دینا، طے شدہ سو روپے کی ادائیگی حق واجب ہے اور یہ عدل ہے۔ مزید ۱۰،۲۰ روپے یہ احسان ہے۔ عدل سے بھی معاشرے میں امن قائم ہوتا ہے لیکن احسان سے مزید خوش گواری اور اپنائیت و فدائیت کے جذبات نشو ونما پاتے ہیں۔ اور فرائض کی ادائیگی کے ساتھ نوافل کا اہتمام، عمل واجب سے زیادہ عمل جس سے اللہ کا قرب خصوصی حاصل ہوتا ہے۔ احسان کے ایک تیسرے معنی اخلاص عمل اور حسن عبادت ہے، جس کو حدیث میں «أَنْ تَعْبُدَ اللهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ» ”اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو“ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ”إِيَتَاءِ ذِي الْقُرْبَى“ (رشتے داروں کا حق ادا کرنا یعنی ان کی امداد کرنا ہے) اسے حدیث میں صلہ رحمی کہا گیا ہے اور اس کی نہایت تاکید احادیث میں بیان کی گئی ہے۔ عدل واحسان کے بعد اس کا الگ سے ذکر یہ بھی صلہ رحمی کی اہمیت کو واضح کر رہا ہے۔ ”فحشاء“ سے مراد بے حیائی کے کام ہیں۔ آج کل بےحیائی اتنی عام ہوگئی ہے کہ اس کا نام تہذیب ترقی اور آرٹ قرار پا گیا ہے۔ یا ”تفریح“ کے نام پر اس کا جواز تسلیم کر لیا گیا ہے۔ تاہم محض خوشنما لیبل لگا لینے سے کسی چیز کی حقیقت نہیں بدل جاتی اسی طرح شریعت اسلامیہ نے زنا اور اس کے مقدمات کو رقص وسرود بےپردگی اور فیشن پرستی کو اور مرد و زن کے بےباکانہ اختلاط اور مخلوط معاشرت اور دیگر اس قسم کی خرافات کو بے حیائی قرار دیا ہے، ان کا کتنا بھی اچھا نام رکھ لیا جائے مغرب سے درآمد شدہ یہ خباثتیں جائز قرار نہیں پا سکتیں۔ ”مُنْكَرٌ“ ہر وہ کام ہے جسے شریعت نے ناجائز قرار دیا ہے اور ”بَغْيٌ“ کا مطلب ظلم وزیادتی کا ارتکاب۔ ایک حدیث میں بتلایا گیا ہے کہ قطع رحمی اور بغی یہ دونوں جرم اللہ کو اتنے ناپسند ہیں کہ اللہ تعالٰی کی طرف سے (آخرت کے علاوہ) دنیا میں بھی ان کی فوری سزا کا امکان غالب رہتا ہے۔ (ﺍﺑﻦ ﻣﺎﺟﮧ, ﻛﺘﺎﺏ الزھد, ﺑﺎﺏ ﺍﻟﺒﻐﯽ)
(1) قَسَم ایک تو وہ ہے جو کسی عہد و پیمان کے وقت، اسے مزید پختہ کرنے کے لئے کھائی جاتی ہے۔ دوسری قسم وہ ہے جو انسان اپنے طور پر کسی وقت کھا لیتا ہے کہ میں فلاں کام کروں گا یا نہیں کروں گا۔ یہاں آیت میں اول الذکر قسم مراد ہے کہ تم نے قسم کھا کر اللہ کو ضامن بنا لیا ہے۔ اب اسے نہیں توڑنا بلکہ عہد وپیمان کو پورا کرنا ہے جس پر تم نے قسم کھائی ہے۔ کیونکہ ثانی الذکر قسم کی بابت تو حدیث میں حکم دیا گیا ہے کہ: ”کوئی شخص کسی کام کی بابت قسم کھا لے، پھر وہ دیکھے کہ زیادہ خیر دوسری چیز میں ہے (یعنی قسم کے خلاف کرنے میں ہے) تو بہتری والے کام کو اختیار کرے اور قسم کو توڑ کر اس کا کفارہ ادا کرے“۔ (صحیح مسلم۔ نمبر1272) نبی (صلى الله عليه وسلم) کا عمل بھی یہی تھا۔ (صحیح بخاری نمبر 6623، مسلم نمبر 1269)
(1) یعنی مؤکد بہ حلف عہد کو توڑ دینا ایسا ہی ہے جیسے کوئی عورت سوت کاتنے کے بعد اسے خود ہی ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے۔ یہ تمثیل ہے۔
(2) یعنی دھوکہ اور فریب دینے کا ذریعہ بناؤ۔
(3) أربیٰ کے معنی اکثر کے ہیں، یعنی جب تم دیکھو کہ اب تم زیادہ ہوگئے ہو تو اپنے گمان سے حلف توڑ دو، جب کہ قسم اور معاہدے کے وقت وہ گروہ کمزور تھا، لیکن کمزوری کے باوجود وہ مطمئن تھا کہ معاہدے کی وجہ سے ہمیں نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ لیکن تم عذر اور نقص عہد کر کے نقصان پہنچاؤ۔ زمانہء جایلیت میں اخلاقی پستی کی وجہ سے اس قسم کی عہد شکنی عام تھی، مسلمانوں کو اس اخلاقی پستی سے روکا گیا ہے۔