വിശുദ്ധ ഖുർആൻ പരിഭാഷ - ഉർദു വിവർത്തനം - മുഹമ്മദ് ജുനാകരി

പേജ് നമ്പർ:close

external-link copy
15 : 16

وَاَلْقٰی فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِكُمْ وَاَنْهٰرًا وَّسُبُلًا لَّعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ ۟ۙ

اور اس نے زمین میں پہاڑ گاڑ دیے ہیں تاکہ تمہیں لے کر ہلے نہ(1) ، اور نہریں اور راہیں بنا دیں تاکہ تم منزل مقصود کو پہنچو.(1) info

(1) یہ پہاڑوں کا فائدہ بیان کیا جا رہا ہے اور اللہ کا ایک احسان عظیم بھی ہے، کیونکہ اگر زمین ہلتی رہتی تو اس میں سکونت ممکن ہی نہ رہتی۔ اس کا اندازہ ان زلزلوں سے کیا جا سکتا ہے جو چند سکینڈوں اور لمحوں کے لئے آتے ہیں، لیکن کس طرح بڑی بڑی مضبوط عمارتوں کو پیوند زمین اور شہروں کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیتے ہیں۔
(2) نہروں کا سلسلہ بھی عجیب ہے، کہاں سے وہ شروع ہوتی ہیں اور کہاں کہاں، دائیں بائیں، شمال، جنوب، مشرق و مغرب ہر جہت کو سیراب کرتی ہیں۔ اس طرح راستے بنائے، جن کے ذریعے تم منزل مقصود پر پہنچتے ہو۔

التفاسير:

external-link copy
16 : 16

وَعَلٰمٰتٍ ؕ— وَبِالنَّجْمِ هُمْ یَهْتَدُوْنَ ۟

اور بھی بہت سی نشانیاں مقرر فرمائیں۔ اور ستاروں سے بھی لوگ راه حاصل کرتے ہیں. info
التفاسير:

external-link copy
17 : 16

اَفَمَنْ یَّخْلُقُ كَمَنْ لَّا یَخْلُقُ ؕ— اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ ۟

تو کیا وه جو پیدا کرتا ہے اس جیسا ہے جو پیدا نہیں کرسکتا؟ کیا تم بالکل نہیں سوچتے؟(1) info

(1) ان تمام نعمتوں سے توحید کی اہمیت کو اجاگر فرمایا کہ اللہ تو ان چیزوں کا خالق ہے، لیکن اس کو چھوڑ کر جن کی تم عبادت کرتے ہو، انہوں نے بھی کچھ پیدا کیا ہے؟ نہیں، بلکہ وہ تو خود اللہ کی مخلوق ہیں۔ پھر بھلا خالق اور مخلوق کس طرح برابر ہو سکتے ہیں؟ جبکہ تم انہیں معبود بنا کر اللہ کا برابر ٹھہرا رکھا ہے۔ کیا تم ذرا نہیں سوچتے؟

التفاسير:

external-link copy
18 : 16

وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا ؕ— اِنَّ اللّٰهَ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ۟

اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو تم اسے نہیں کر سکتے۔ بیشک اللہ بڑا بخشنے واﻻ مہربان ہے. info
التفاسير:

external-link copy
19 : 16

وَاللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تُسِرُّوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ ۟

اور جو کچھ تم چھپاؤ اور ﻇاہر کرو اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے.(1) info

(1) اور اس کے مطابق وہ قیامت والے دن جزا اور سزا دے گا۔ نیک کو نیکی کی جزا اور بد کو بدی کی سزا۔

التفاسير:

external-link copy
20 : 16

وَالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَا یَخْلُقُوْنَ شَیْـًٔا وَّهُمْ یُخْلَقُوْنَ ۟ؕ

اور جن جن کو یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا پکارتے ہیں وه کسی چیز کو پیدا نہیں کرسکتے، بلکہ وه خود پیدا کیے ہوئے ہیں.(1) info

(1) اس میں ایک چیز کا اضافہ ہے یعنی صفت ”خالقیت“ کی نفی کے ساتھ نقصان یعنی کمی ”عدم خالقیت“ کا اثبات (فتح القدیر)

التفاسير:

external-link copy
21 : 16

اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَآءٍ ؕۚ— وَمَا یَشْعُرُوْنَ ۙ— اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ ۟۠

مردے ہیں زنده نہیں(1) ، انہیں تو یہ بھی شعور نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے.(2) info

(1) مردہ سے مراد، وہ جماد (پتھر) بھی ہیں جو بے جان اور بے شعور ہیں۔ اور فوت شدہ صالحین بھی ہیں۔ کیونکہ مرنے کے بعد اٹھایا جانا (جس کا انہیں شعور نہیں) وہ تو جماد کی بجائے صالحین ہی پر صادق آ سکتا ہے۔ ان کو صرف مردہ ہی نہیں کہا بلکہ مزید وضاحت فرما دی کہ ”وہ زندہ نہیں ہیں“ اللہ تعالٰی کے اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ موت وارد ہونے کے بعد، دنیاوی زندگی کسی کو نصیب نہیں ہو سکتی نہ دنیا سے کوئی تعلق ہی باقی رہتا ہے۔
(2) پھر ان سے نفع کی اور ثواب و جزا کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟

التفاسير:

external-link copy
22 : 16

اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ ۚ— فَالَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ قُلُوْبُهُمْ مُّنْكِرَةٌ وَّهُمْ مُّسْتَكْبِرُوْنَ ۟

تم سب کا معبود صرف اللہ تعالیٰ اکیلا ہے اور آخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں کے دل منکر ہیں اور وه خود تکبر سے بھرے ہوئے ہیں.(1) info

(1) یعنی ایک الٰہ کا ماننا منکرین اور مشرکین کے لئے بہت مشکل ہے۔ وہ کہتے ہیں «أَجَعَلَ الآلِهَةَ إِلَهًا وَاحِدًا إِنَّ هَذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ» (ص:5) ”اس نے تمام معبودوں کو ایک ہی معبود کر دیا یہ تو بڑی ہی عجیب بات ہے“، دوسرے مقام پر فرمایا «وَإِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَحْدَهُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِالآخِرَةِ وَإِذَا ذُكِرَ الَّذِينَ مِنْ دُونِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ» ( الزمر:45) ”جب ایک اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو منکرین آخرت کے دل تنگ ہو جاتے ہیں اور جب اللہ کے سوا دوسرے معبودوں کا ذکر آ جاتا ہے تو خوش ہوتے ہیں“۔

التفاسير:

external-link copy
23 : 16

لَا جَرَمَ اَنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَمَا یُعْلِنُوْنَ ؕ— اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِیْنَ ۟

بےشک وشبہ اللہ تعالیٰ ہر اس چیز کو، جسے وه لوگ چھپاتے ہیں اور جسے ﻇاہر کرتے ہیں، بخوبی جانتا ہے۔ وه غرور کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا.(1) info

(1) اسْتِكْبَارٌ کا مطلب ہوتا ہے اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہوئے صحیح اور حق بات کا انکار کر دینا اور دوسروں کو حقیر و کمتر سمجھنا۔ کبر کی یہی تعریف حدیث میں بیان کی گئی ـ(صحيح مسلم، كتاب الإيمان ، باب تحريم الكبر وبيانه) یہ کبر وغرور اللہ کو سخت ناپسند ہے۔ حدیث میں ہے کہ ”وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کے دل میں ایک ذرہ کے برابر بھی کبر ہوگا“۔ (حوالۂ مذکور)

التفاسير:

external-link copy
24 : 16

وَاِذَا قِیْلَ لَهُمْ مَّاذَاۤ اَنْزَلَ رَبُّكُمْ ۙ— قَالُوْۤا اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ ۟ۙ

ان سے جب دریافت کیا جاتا ہے کہ تمہارے پروردگار نے کیا نازل فرمایا ہے؟ تو جواب دیتے ہیں کہ اگلوں کی کہانیاں ہیں.(1) info

(1) یعنی اعراض اور استہزا کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ مکذبین جواب دیتے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے تو کچھ بھی نہیں اتارا، اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہمیں جو پڑھ کر سناتا ہے، وہ تو پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں جو کہیں سے سن کر بیان کرتا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
25 : 16

لِیَحْمِلُوْۤا اَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً یَّوْمَ الْقِیٰمَةِ ۙ— وَمِنْ اَوْزَارِ الَّذِیْنَ یُضِلُّوْنَهُمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ ؕ— اَلَا سَآءَ مَا یَزِرُوْنَ ۟۠

اسی کا نتیجہ ہوگا کہ قیامت کے دن یہ لوگ اپنے پورے بوجھ کے ساتھ ہی ان کے بوجھ کے بھی حصے دار ہوں گے جنہیں بے علمی سے گمراه کرتے رہے۔ دیکھو تو کیسا برا بوجھ اٹھا رہے ہیں.(1) info

(1) یعنی ان کی زبانوں سے یہ بات اللہ تعالٰی نے نکلوائی تاکہ وہ اپنے بوجھوں کے ساتھ دوسروں کا بوجھ بھی اٹھائیں۔ جس طرح حدیث میں آتا ہے۔ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا ”جس نے لوگوں کو ہدایت کی طرف بلایا، تو اس شخص کو ان تمام لوگوں کا اجر ملے گا جو اس کی دعوت پر ہدایت کا راستہ اپنائیں گے اور جس نے گمراہی کی طرف بلایا تو اس کو تمام لوگوں کے گناہوں کا بار بھی اٹھانا پڑے گا جو اس کی دعوت پر گمراہ ہوئے“۔ (أبو داود، كتاب السنة، باب لزوم السنة)

التفاسير:

external-link copy
26 : 16

قَدْ مَكَرَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَاَتَی اللّٰهُ بُنْیَانَهُمْ مِّنَ الْقَوَاعِدِ فَخَرَّ عَلَیْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَاَتٰىهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُوْنَ ۟

ان سے پہلے کے لوگوں نے بھی مکر کیا تھا، (آخر) اللہ نے (ان کے منصوبوں) کی عمارتوں کو جڑوں سے اکھیڑ دیا اور ان (کے سروں) پر (ان کی) چھتیں اوپر سے گر پڑیں(1) ، اور ان کے پاس عذاب وہاں سے آگیا جہاں کا انہیں وہم وگمان بھی نہ تھا.(1) info

(1) بعض مفسرین اسرائیلی روایات کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ اس سے مراد نمرود یا بخت نصر ہے، جنہوں نے آسمان پر کسی طرح چڑھ کر اللہ کے خلاف مکر کیا، لیکن وہ ناکام واپس آئے اور بعض مفسرین کا خیال میں یہ ایک کہانی ہے جس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ کے ساتھ کفر و شرک کرنے والوں کے عمل اسی طرح برباد ہونگے جس طرح کسی کے مکان کی بنیادیں متزلزل ہو جائیں اور وہ چھت سمیت گر پڑے۔ مگر زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس سے مقصود ان قوموں کے انجام کی طرف اشارہ کرنا ہے، جن قوموں نے پیغمبروں کی تکذیب پر اصرار کیا اور بالآخر عذاب الٰہی میں گرفتار ہو کر گھروں سمیت تباہ ہوگئے، مثلاً قوم عاد وقوم لوط وغیرہ۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا «مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوا» (الحشر:2)۔
(2) ”پس اللہ (کا عذاب) ان کے پاس ایسی جگہ سے آیا جہاں سے ان کو وہم وگمان بھی نہ تھا“۔

التفاسير: