(1) یہ پہاڑوں کا فائدہ بیان کیا جا رہا ہے اور اللہ کا ایک احسان عظیم بھی ہے، کیونکہ اگر زمین ہلتی رہتی تو اس میں سکونت ممکن ہی نہ رہتی۔ اس کا اندازہ ان زلزلوں سے کیا جا سکتا ہے جو چند سکینڈوں اور لمحوں کے لئے آتے ہیں، لیکن کس طرح بڑی بڑی مضبوط عمارتوں کو پیوند زمین اور شہروں کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیتے ہیں۔
(2) نہروں کا سلسلہ بھی عجیب ہے، کہاں سے وہ شروع ہوتی ہیں اور کہاں کہاں، دائیں بائیں، شمال، جنوب، مشرق و مغرب ہر جہت کو سیراب کرتی ہیں۔ اس طرح راستے بنائے، جن کے ذریعے تم منزل مقصود پر پہنچتے ہو۔
(1) ان تمام نعمتوں سے توحید کی اہمیت کو اجاگر فرمایا کہ اللہ تو ان چیزوں کا خالق ہے، لیکن اس کو چھوڑ کر جن کی تم عبادت کرتے ہو، انہوں نے بھی کچھ پیدا کیا ہے؟ نہیں، بلکہ وہ تو خود اللہ کی مخلوق ہیں۔ پھر بھلا خالق اور مخلوق کس طرح برابر ہو سکتے ہیں؟ جبکہ تم انہیں معبود بنا کر اللہ کا برابر ٹھہرا رکھا ہے۔ کیا تم ذرا نہیں سوچتے؟
(1) اس میں ایک چیز کا اضافہ ہے یعنی صفت ”خالقیت“ کی نفی کے ساتھ نقصان یعنی کمی ”عدم خالقیت“ کا اثبات (فتح القدیر)
(1) مردہ سے مراد، وہ جماد (پتھر) بھی ہیں جو بے جان اور بے شعور ہیں۔ اور فوت شدہ صالحین بھی ہیں۔ کیونکہ مرنے کے بعد اٹھایا جانا (جس کا انہیں شعور نہیں) وہ تو جماد کی بجائے صالحین ہی پر صادق آ سکتا ہے۔ ان کو صرف مردہ ہی نہیں کہا بلکہ مزید وضاحت فرما دی کہ ”وہ زندہ نہیں ہیں“ اللہ تعالٰی کے اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ موت وارد ہونے کے بعد، دنیاوی زندگی کسی کو نصیب نہیں ہو سکتی نہ دنیا سے کوئی تعلق ہی باقی رہتا ہے۔
(2) پھر ان سے نفع کی اور ثواب و جزا کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟
(1) یعنی ایک الٰہ کا ماننا منکرین اور مشرکین کے لئے بہت مشکل ہے۔ وہ کہتے ہیں «أَجَعَلَ الآلِهَةَ إِلَهًا وَاحِدًا إِنَّ هَذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ» (ص:5) ”اس نے تمام معبودوں کو ایک ہی معبود کر دیا یہ تو بڑی ہی عجیب بات ہے“، دوسرے مقام پر فرمایا «وَإِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَحْدَهُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِالآخِرَةِ وَإِذَا ذُكِرَ الَّذِينَ مِنْ دُونِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ» ( الزمر:45) ”جب ایک اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو منکرین آخرت کے دل تنگ ہو جاتے ہیں اور جب اللہ کے سوا دوسرے معبودوں کا ذکر آ جاتا ہے تو خوش ہوتے ہیں“۔
(1) اسْتِكْبَارٌ کا مطلب ہوتا ہے اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہوئے صحیح اور حق بات کا انکار کر دینا اور دوسروں کو حقیر و کمتر سمجھنا۔ کبر کی یہی تعریف حدیث میں بیان کی گئی ـ(صحيح مسلم، كتاب الإيمان ، باب تحريم الكبر وبيانه) یہ کبر وغرور اللہ کو سخت ناپسند ہے۔ حدیث میں ہے کہ ”وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کے دل میں ایک ذرہ کے برابر بھی کبر ہوگا“۔ (حوالۂ مذکور)
(1) یعنی اعراض اور استہزا کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ مکذبین جواب دیتے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے تو کچھ بھی نہیں اتارا، اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہمیں جو پڑھ کر سناتا ہے، وہ تو پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں جو کہیں سے سن کر بیان کرتا ہے۔
(1) یعنی ان کی زبانوں سے یہ بات اللہ تعالٰی نے نکلوائی تاکہ وہ اپنے بوجھوں کے ساتھ دوسروں کا بوجھ بھی اٹھائیں۔ جس طرح حدیث میں آتا ہے۔ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا ”جس نے لوگوں کو ہدایت کی طرف بلایا، تو اس شخص کو ان تمام لوگوں کا اجر ملے گا جو اس کی دعوت پر ہدایت کا راستہ اپنائیں گے اور جس نے گمراہی کی طرف بلایا تو اس کو تمام لوگوں کے گناہوں کا بار بھی اٹھانا پڑے گا جو اس کی دعوت پر گمراہ ہوئے“۔ (أبو داود، كتاب السنة، باب لزوم السنة)
(1) بعض مفسرین اسرائیلی روایات کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ اس سے مراد نمرود یا بخت نصر ہے، جنہوں نے آسمان پر کسی طرح چڑھ کر اللہ کے خلاف مکر کیا، لیکن وہ ناکام واپس آئے اور بعض مفسرین کا خیال میں یہ ایک کہانی ہے جس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ کے ساتھ کفر و شرک کرنے والوں کے عمل اسی طرح برباد ہونگے جس طرح کسی کے مکان کی بنیادیں متزلزل ہو جائیں اور وہ چھت سمیت گر پڑے۔ مگر زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس سے مقصود ان قوموں کے انجام کی طرف اشارہ کرنا ہے، جن قوموں نے پیغمبروں کی تکذیب پر اصرار کیا اور بالآخر عذاب الٰہی میں گرفتار ہو کر گھروں سمیت تباہ ہوگئے، مثلاً قوم عاد وقوم لوط وغیرہ۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا «مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوا» (الحشر:2)۔
(2) ”پس اللہ (کا عذاب) ان کے پاس ایسی جگہ سے آیا جہاں سے ان کو وہم وگمان بھی نہ تھا“۔