(1) سَبَأ وہی قوم تھی، جس کی ملکہ سبا مشہور ہے جو حضرت سلیمان (عليه السلام) کے زمانے میں مسلمان ہوگئی تھی۔ قوم ہی کے نام پر ملک نام بھی سبا تھا، آج کل یمن کے نام سے یہ علاقہ معروف ہے۔ یہ بڑا خوش حال ملک تھا، یہ ملک بری وبحری تجارت میں بھی ممتاز تھا اور زراعت وباغبانی میں بھی نمایاں۔ اور یہ دونوں ہی چیزیں کسی ملک اور قوم کی خوش حالی کا باعث ہوتی ہیں۔ اسی مال ودولت کی فراوانی کو یہاں قدرت الٰہی کی نشانی سے تعبیر کیا گیا ہے۔
(2) کہتے ہیں کہ شہر کے دونوں طرف پہاڑ تھے، جن سے چشموں اور نالوں کا پانی بہہ بہہ کر شہر میں آتا تھا، ان کے حکمرانوں نے پہاڑوں کے درمیان پشتے تعمیر کرادیئے اور ان کے ساتھ باغات لگا دیئےگئے، جس سے پانی کا رخ بھی متعین ہوگیا اور باغوں کو بھی سیرابی کا ایک قدرتی ذریعہ میسر آگیا۔ ان ہی باغات کو، دائیں بائیں دو باغوں، سے تعبیر کیا گیا ہے۔ بعض کہتے ہیں، جَنَّتَيْنِ سے دو باغ نہیں، بلکہ دائیں بائیں کی دو جہتیں مراد ہیں اور مطلب باغوں کی کثرت ہے کہ جدھر نظر اٹھا کر دیکھیں، باغات، ہریالی اور شادابی ہی نظر آتی تھی۔ (فتح القدیر)۔
(3) یہ ان کے پیغمبروں کے ذریعے سے کہلوایا گیا یا مطلب ان نعمتوں کا بیان ہے، جن سے ان کو نوازا گیا تھا۔
(4) یعنی منعم و محسن کی اطاعت کرو اور اس کی نافرمانی سے اجتناب۔
(5) یعنی باغوں کی کثرت اور پھلوں کی فراوانی کی وجہ سے یہ شہر عمدہ ہے۔ کہتے ہیں کہ آب وہوا کی عمدگی کی وجہ سے یہ شہر مکھی، مچھر اور اس قسم کے دیگر موذی جانوروں سے بھی پاک تھا، واللہ اعلم۔
(6) یعنی اگر تم رب کا شکر کرتے رہو گے تو وہ تمہارے گناہ بھی معاف فرما دے گا۔ اس کا مطلب یہ بھی ہوا کہ انسان توبہ کرتے رہیں تو پھر گناہ ہلاکت عام اور سلب انعام کا سبب نہیں بنتے، بلکہ اللہ تعالیٰ عفوودرگزر سے کام لیتا ہے۔
(1) یعنی انہوں نے پہاڑوں کے درمیان پشتے اور بند تعمیر کرکے پانی کی جو رکاوٹ کی تھی اور اسے زراعت وباغبانی کے کام میں لاتے تھے، ہم نے تند وتیز سیلاب کے ذریعے سے ان بندوں اور پشتوں کو توڑ ڈالا اور شاداب اور پھل دار باغوں کو ایسے باغوں سے بدل دیا جن میں صرف قدرتی جھاڑ جھنکاڑ ہوتے ہیں، جن میں اول تو کوئی پھل لگتا ہی نہیں اور کسی میں لگتا بھی ہے تو سخت کڑوا، کسیلا اور بدمزہ جنہیں کوئی کھا ہی نہیں سکتا۔ البتہ کچھ بیری کے درخت تھے جن میں بھی کانٹے زیادہ اور بیر کم تھے۔ عَرِمٌ، عَرِمَةٌ کی جمع ہے، پشتہ یا بند۔ یعنی ایسا زور کا پانی بھیجا جس نے اس بند میں شگاف ڈال دیا اور پانی شہر میں بھی آگیا، جس سے ان کے مکانات ڈوب گئے اور باغوں کو بھی اجاڑ کر ویران کردیا۔ یہ بند سدمارب کے نام سے مشہور ہے۔
(1) برکت والی بستیوں سے مراد شام کی بستیاں ہیں۔ یعنی ہم نے ملک سبا (یمن) اور شام کے درمیان لب سڑک بستیاں آباد کی ہوئی تھیں، بعض نے ظَاهِرَةً کے معنی مُتَوَاصِلَةً، ایک دوسرے سے پیوست اور مسلسل کے کئے ہیں۔ مفسرین نے ان بستیوں کی تعداد 4 ہزار سات سو بتلائی ہے۔ یہ ان کی تجارتی شاہراہ تھی جو مسلسل آباد تھی، جس کی وجہ سے ایک تو ان کے کھانے پینے اور آرام کرنے کے لئے زاد راہ ساتھ لینے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ دوسرے، ویرانی کی وجہ سے لوٹ مار اور قتل وغارت کا جو اندیشہ ہوتا ہے، وہ نہیں ہوتا تھا۔
(2) یعنی ایک آبادی سے دوسری آبادی کا فاصلہ متعین اور معلوم تھا، اور اس کے حساب سے وہ بہ آسانی اپنا سفر طے کرلیتے تھے۔ مثلاً صبح سفر کا آغاز کرتے تو دوپہر تک کسی آبادی اور قریے تک پہنچ جاتے، وہاں کھا پی کر قیلولہ کرتے اور پھر سرگرم سفر ہوجاتے تو رات کو کسی آبادی میں جاپہنچتے۔
(3) یہ ہر قسم کے خطرے سے محفوظ اور زاد راہ کی مشقت سے بےنیاز ہونے کا بیان ہے کہ رات اور دن کی جس گھڑی میں تم سفر کرنا چاہو، کرو، نہ جان ومال کا کوئی اندیشہ نہ راستے کے لئے سامان سفر ساتھ لینے کی ضرورت۔
(1) یعنی جس طرح لوگ سفر کی صعوبتوں، خطرات اور موسم کی شدتوں کا تذکرہ کرتے ہیں، ہمارے سفر بھی اسی طرح دور دور کردے، مسلسل آبادیوں کے بجائے درمیان میں سنسان وویران جنگلات اور صحراوں سے ہمیں گزرنا پڑے، گرمیوں میں دھوپ کی شدت اور سردیوں میں یخ بستہ ہوائیں ہمیں پریشان کریں اور راستے میں بھوک اور پیاس کی سختیوں سے بچنے کے لئے ہمیں زاد راہ کا بھی انتظام کرنا پڑے۔ ان کی یہ دعا اسی طرح کی ہے، جیسے بنی اسرائیل نے من وسلویٰ اور دیگر سہولتوں کے مقابلے میں دالوں اور سبزیوں وغیرہ کا مطالبہ کیا تھا۔ یا پھر زبان حال سے ان کی یہ دعا تھی۔
(2) یعنی انہیں اس طرح ناپید کیا کہ ان کی ہلاکت کا قصہ زبان زدخلائق ہوگیا۔ اور مجلسوں اور محفلوں کا موضوع گفتگو بن گیا۔
(3) یعنی انہیں متفرق اور منتشر کردیا، چنانچہ سبا میں آباد مشہور قبیلے مختلف جگہوں پر جاآباد ہوئے، کوئی یثرب ومکہ آیا، کوئی شام کے علاقے میں چلا گیا کوئی کہیں اور کوئی کہیں۔
(1) یعنی معبود ہونے کا۔ یہاں زَعَمْتُمْ کے دو مفعول محذوف ہیں۔ زَعَمْتُمُوهُمْ آلِهَةً، یعنی جن جن کو تم معبود گمان کرتے ہو۔
(2) یعنی انہیں نہ خیر پر کوئی اختیار ہے نہ شر پر۔ کسی کو فائدہ پہنچانے کی قدرت ہے، نہ نقصان سے بچانے کی۔ آسمان وزمین کا ذکر عموم کے لئے ہے، کیونکہ تمام خارجی موجودات کے لئے یہی ظرف ہیں۔
(3) نہ پیدائش میں، نہ ملکیت میں اور نہ تصرف میں۔
(4) جو کسی معاملے میں بھی اللہ کی مدد کرتا ہو، بلکہ اللہ تعالیٰ ہی بلا شرکت غیرے تمام اختیارات کا ملک ہے اور کسی کے تعاون کے بغیر ہی سارے کام کرتا ہے۔