وه‌رگێڕانی ماناكانی قورئانی پیرۆز - وەرگێڕاوی ئۆردی - محمد جوناكری

ژمارەی پەڕە:close

external-link copy
27 : 16

ثُمَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یُخْزِیْهِمْ وَیَقُوْلُ اَیْنَ شُرَكَآءِیَ الَّذِیْنَ كُنْتُمْ تُشَآقُّوْنَ فِیْهِمْ ؕ— قَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ اِنَّ الْخِزْیَ الْیَوْمَ وَالسُّوْٓءَ عَلَی الْكٰفِرِیْنَ ۟ۙ

پھر قیامت والے دن بھی اللہ تعالیٰ انہیں رسوا کرے گا اور فرمائے گا کہ میرے وه شریک کہاں ہیں جن کے بارے میں تم لڑتے جھگڑتے تھے(1) ، جنہیں علم دیا گیا تھا وه پکار اٹھیں گے(2) کہ آج تو کافروں کو رسوائی اور برائی چمٹ گئی. info

(1) یعنی یہ تو وہ عذاب تھا جو دنیا میں ان پر آئے اور قیامت والے دن اللہ تعالٰی انہیں اس طرح ذلیل و رسوا کرے گا کہ ان سے پوچھے گا تمہارے وہ شریک کہاں ہیں جو تم نے میرے لئے ٹھہرا رکھے تھے، اور جن کی وجہ سے تم مومنوں سے لڑتے جھگڑتے تھے۔
(2) یعنی جن کو دین کا علم نہیں تھا وہ دین کے پابند تھے وہ جواب دیں گے۔

التفاسير:

external-link copy
28 : 16

الَّذِیْنَ تَتَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ ظَالِمِیْۤ اَنْفُسِهِمْ ۪— فَاَلْقَوُا السَّلَمَ مَا كُنَّا نَعْمَلُ مِنْ سُوْٓءٍ ؕ— بَلٰۤی اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ۟

وه جو اپنی جانوں پر ﻇلم کرتے ہیں، فرشتے جب ان کی جان قبض کرنے لگتے ہیں اس وقت وه جھک جاتے ہیں کہ ہم برائی نہیں کرتے تھے(1) ۔ کیوں نہیں؟ اللہ تعالیٰ خوب جاننے واﻻ ہے جو کچھ تم کرتے تھے.(2) info

(1) یہ مشرک ظالموں کی موت کے وقت کی کیفیت بیان کی جا رہی ہے جب فرشتے ان کی روحیں قبض کرتے ہیں تو وہ صلح کی بات ڈالتے ہیں یعنی سمع وطاعت اور عاجزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم تو برائی نہیں کرتے تھے۔ جس طرح میدان محشر میں اللہ کے روبرو بھی جھوٹی قسمیں کھائیں گے اور کہیں گے «وَاللَّهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِينَ» (الأنعام:23) ”اللہ کی قسم، ہم مشرک نہیں تھے“۔ دوسرے مقام پر فرمایا ”جس دن اللہ تعالٰی ان سب کو اٹھا کر اپنے پاس جمع کرے گا تو اللہ کے سامنے بھی یہ اسی طرح (جھوٹی) قسمیں کھائیں گے جس طرح تمہارے سامنے قسمیں کھاتے ہیں“۔ (المجادلہ: 18)
(2) فرشتے جواب دیں گے کیوں نہیں؟ یعنی تم جھوٹ بولتے ہو، تمہاری تو ساری عمر ہی برائیوں میں گزری ہے اور اللہ کے پاس تمہارے اعمال کا ریکارڈ محفوظ ہے تمہارے اس انکار سے اب کیا بنے گا۔

التفاسير:

external-link copy
29 : 16

فَادْخُلُوْۤا اَبْوَابَ جَهَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا ؕ— فَلَبِئْسَ مَثْوَی الْمُتَكَبِّرِیْنَ ۟

پس اب تو ہمیشگی کے طور پر تم جہنم کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ(1) ، پس کیا ہی برا ٹھکانا ہے غرور کرنے والوں کا. info

(1) امام ابن کثیر فرماتے ہیں: ان کی موت کے فوراً بعد سب کی روحیں جہنم میں چلی جاتی ہیں اور ان کے جسم قبر میں رہتے ہیں (جہاں اللہ تعالٰی اپنی قدرت کاملہ سے جسم و روح میں بعد کے باوجود، ان میں ایک گونہ تعلق پیدا کر کے ان کو عذاب دیتا ہے، (اور صبح شام ان پر آگ پیش کی جاتی ہے) پھر جب قیامت برپا ہوگی تو ان کی روحیں ان کے جسموں میں لوٹ آئیں گی اور ہمیشہ کے لئے یہ جہنم میں داخل کر دیئے جائیں گے۔

التفاسير:

external-link copy
30 : 16

وَقِیْلَ لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا مَاذَاۤ اَنْزَلَ رَبُّكُمْ ؕ— قَالُوْا خَیْرًا ؕ— لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا حَسَنَةٌ ؕ— وَلَدَارُ الْاٰخِرَةِ خَیْرٌ ؕ— وَلَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِیْنَ ۟ۙ

اور پرہیز گاروں سے پوچھا جاتا ہے کہ تمہارے پروردگار نے کیا نازل فرمایا ہے؟ تو وه جواب دیتے ہیں کہ اچھے سے اچھا۔ جن لوگوں نے بھلائی کی ان کے لیے اس دنیا میں بھلائی ہے، اور یقیناً آخرت کا گھر تو بہت ہی بہتر ہے، اور کیا ہی خوب پرہیز گاروں کا گھر ہے. info
التفاسير:

external-link copy
31 : 16

جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَهَا تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ لَهُمْ فِیْهَا مَا یَشَآءُوْنَ ؕ— كَذٰلِكَ یَجْزِی اللّٰهُ الْمُتَّقِیْنَ ۟ۙ

ہمیشگی والے باغات جہاں وه جائیں گے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، جو کچھ یہ طلب کریں گے وہاں ان کے لیے موجود ہوگا۔ پرہیز گاروں کو اللہ تعالیٰ اسی طرح بدلے عطا فرماتا ہے. info
التفاسير:

external-link copy
32 : 16

الَّذِیْنَ تَتَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ طَیِّبِیْنَ ۙ— یَقُوْلُوْنَ سَلٰمٌ عَلَیْكُمُ ۙ— ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ۟

وه جن کی جانیں فرشتے اس حال میں قبض کرتے ہیں کہ وه پاک صاف ہوں کہتے ہیں کہ تمہارے لیے سلامتی ہی سلامتی ہے(1) ، جاؤ جنت میں اپنے ان اعمال کے بدلے جو تم کرتے تھے.(2) info

(1) ان آیات میں ظالم مشرکوں کے مقابلے میں اہل ایمان و تقویٰ کا کردار اور ان کا حسن انجام بیان فرمایا ہے۔ جَعَلَنَا اللهُ ِمْنهُمْ آمِينَ يَا رَبَّ العَالَمِينَ
(2) سورہ اعراف کی آیت 43 کے تحت یہ حدیث گزر چکی ہے کہ کوئی شخص بھی محض اپنے عمل سے جنت میں نہیں جائے گا، جب تک اللہ کی رحمت نہیں ہوگی۔ لیکن یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ تم اپنے عملوں کے بدلے جنت میں داخل ہو جاؤ، تو ان میں دراصل کوئی منافات نہیں۔ کیونکہ اللہ کی رحمت کے حصول کے لئے اعمال صالحہ ضروری ہیں، اس کے بغیر آخرت میں اللہ کی رحمت مل ہی نہیں سکتی۔ اس لئے حدیث مذکورہ کا مفہوم بھی اپنی جگہ صحیح ہے اور عمل کی اہمیت بھی اپنی جگہ برقرار ہے۔ اس لیے ایک اور حدیث میں فرمایا گیا ہے: «إِنَّ اللهَ لا يَنْظُرُ إِلَى صُوَرِكُمْ وَأَمْوَالِكُمْ وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ وَأَعْمَالِكُمْ» (صحيح مسلم، كتاب البر، باب تحريم ظلم المسلم)۔

التفاسير:

external-link copy
33 : 16

هَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ تَاْتِیَهُمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَوْ یَاْتِیَ اَمْرُ رَبِّكَ ؕ— كَذٰلِكَ فَعَلَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ؕ— وَمَا ظَلَمَهُمُ اللّٰهُ وَلٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ ۟

کیا یہ اسی بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آجائیں یا تیرے رب کا حکم آجائے(1) ؟ ایسا ہی ان لوگوں نے بھی کیا تھا جو ان سے پہلے تھے(2)۔ ان پر اللہ تعالیٰ نے کوئی ﻇلم نہیں کیا(3) بلکہ وه خود اپنی جانوں پر ﻇلم کرتے رہے.(4) info

(1) یعنی کیا یہ بھی اس وقت کا انتظار کررہے ہیں جب فرشتے ان کی روحیں قبض کریں گے یا رب کا حکم (یعنی عذاب یا قیامت) آجائے۔
(2) یعنی اس طرح سرکشی اور معصیت، ان سے پہلے لوگوں نے اختیار کئے رکھی، جس پر وہ غضب الٰہی کے مستحق بنے۔ (3) اس لئے کہ اللہ نے تو ان کے لئے کوئی عذر ہی باقی نہیں چھوڑا۔ رسولوں کو بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کرا ن پر حجت تمام کردی۔
(4) یعنی رسولوں کی مخالفت اور ان کی تکذیب کرکے خود ہی انہوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔

التفاسير:

external-link copy
34 : 16

فَاَصَابَهُمْ سَیِّاٰتُ مَا عَمِلُوْا وَحَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ ۟۠

پس ان کے برے اعمال کے نتیجے انہیں مل گئے اور جس کی ہنسی اڑاتے تھے اس نے ان کو گھیر لیا.(1) info

(1) یعنی جب رسول ان سے کہتے کہ اگر تم ایمان نہیں لاؤ گے تو اللہ کا عذاب آ جائے گا۔ تو یہ استہزا کے طور پر کہتے کہ جا اپنے اللہ سے کہہ وہ عذاب بھیج کر ہمیں تباہ کر دے۔ چنانچہ اس عذاب نے انہیں گھیر لیا جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے، پھر اس سے بچاؤ کا کوئی راستہ ان کے پاس نہیں رہا۔

التفاسير: