ಪವಿತ್ರ ಕುರ್‌ಆನ್ ಅರ್ಥಾನುವಾದ - ಉರ್ದು ಅನುವಾದ - ಮುಹಮ್ಮದ್ ಜುನಾಗಡಿ

ಪುಟ ಸಂಖ್ಯೆ:close

external-link copy
158 : 6

هَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ تَاْتِیَهُمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَوْ یَاْتِیَ رَبُّكَ اَوْ یَاْتِیَ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّكَ ؕ— یَوْمَ یَاْتِیْ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّكَ لَا یَنْفَعُ نَفْسًا اِیْمَانُهَا لَمْ تَكُنْ اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ اَوْ كَسَبَتْ فِیْۤ اِیْمَانِهَا خَیْرًا ؕ— قُلِ انْتَظِرُوْۤا اِنَّا مُنْتَظِرُوْنَ ۟

کیا یہ لوگ صرف اس امر کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا ان کے پاس آپ کا رب آئے یا آپ کے رب کی کوئی (بڑی) نشانی آئے؟(1) جس روز آپ کے رب کی کوئی بڑی نشانی آپہنچے گی، کسی ایسے شخص کا ایمان اس کے کام نہ آئے گا جو پہلے سے ایمان نہیں رکھتا(2)۔ یا اس نے اپنے ایمان میں کوئی نیک عمل نہ کیا ہو(2)۔ آپ فرما دیجئے کہ تم منتظر رہو، ہم بھی منتظر ہیں۔(4) info

(1) قرآن مجید کے نزول اور حضرت محمد (صلى الله عليه وسلم) کی رسالت کے ذریعے سے ہم نے حجت قائم کردی ہے۔ اب بھی اگر یہ اپنی گمراہی سے باز نہیں آتے تو کیا یہ اس بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یعنی ان کی روحیں قبض کرنے کے لئے، اس وقت یہ ایمان لائیں گے؟ یا آپ کا رب ان کے پاس آئے، یعنی قیامت برپا ہوجائے اور وہ اللہ کے روبرو پیش کئے جائیں۔ اس وقت یہ ایمان لائیں گے؟ یا آپ کے رب کی کوئی بڑی نشانی آئے۔ جیسے قیامت کے قریب سورﺝ مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہوگا۔ تو اس قسم کی بڑی نشانی دیکھ کر یہ ایمان لائیں گے؟ اگلے جملے میں وضاحت کی جارہی ہے کہ اگر یہ اس انتظار میں ہیں تو بہت ہی نادانی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ کیونکہ بڑی نشانی کے ظہور کے بعد کافر کا ایمان اور فاسق وفاجر شخص کی توبہ قبول نہیں ہوگی۔ صحیح حدیث ہے نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا کہ ”قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ سورﺝ (مشرق کے بجائے) مغرب سے طلوع ہو پس جب ایسا ہوگا اور لوگ اسے مغرب سے طلوع ہوتے دیکھیں گے تو سب ایمان لے آئیں گے“ پھر آپ (صلى الله عليه وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی «لا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ» یعنی اس وقت ایمان لانا کسی کو نفع نہیں دے گا جو اس سے قبل ایمان نہ لایا ہوگا۔ (صحیح بخاری۔ تفسیر سورۃ الانعام )
(2) یعنی کافر کا ایمان فائدہ مند، یعنی قبول نہیں ہوگا۔
(3) اس کا مطلب ہے کہ کوئی گناہ گار مومن گناہوں سے توبہ کرے گا تو اس وقت اس کی توبہ قبول نہیں ہوگی اور اس کے بعد عمل صالح غیرمقبول ہوگا۔ جیسا کہ احادیث بھی اس پر دلالت کرتی ہیں۔
(4) یہ ایمان نہ لانے والوں اور توبہ نہ کرنے والوں کے لئے تہدید ووعید ہے۔ قرآن کریم میں یہی مضمون سورۂ محمد: 18 اور سورۂ مومن: 84 ، 85 میں بھی بیان کیا گیا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
159 : 6

اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَهُمْ وَكَانُوْا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِیْ شَیْءٍ ؕ— اِنَّمَاۤ اَمْرُهُمْ اِلَی اللّٰهِ ثُمَّ یُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ ۟

بےشک جن لوگوں نے اپنے دین کو جدا جدا کردیا اور گروه گروه بن گئے(1) ، آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں بس ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوالے ہے۔ پھر ان کو ان کا کیا ہوا جتلادیں گے۔ info

(1) اس سے بعض لوگ یہود و نصاریٰ مراد لیتے ہیں جو مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے تھے۔ بعض مشرکین مراد لیتے ہیں کہ کچھ مشرک ملائکہ کی، کچھ ستاروں کی، کچھ مختلف بتوں کی عبادت کرتے تھے۔ لیکن یہ آیت عام ہے کفار و مشرکین سمیت وہ سب لوگ اس میں داخل ہیں جو اللہ کے دین کو اور رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کے راستے کو چھوڑ کر دوسرے دین یا دوسرے طریقے کو اختیار کرکے تفرق وتحزب کا راستہ اپناتے ہیں۔ ”شِيَعًا“ کے معنی فرقے اور گروہ، اور یہ بات ہر اس قوم پر صادق آتی ہے جو دین کے معاملے میں مجتمع تھی لیکن پھر ان کے مختلف افراد نے اپنے کسی بڑے کی رائے کو ہی مستند اور حرف آخر قرار دے کر اپنا راستہ الگ کرلیا، چاہے وہ رائے حق وصواب کے خلاف ہی ہو۔ (فتح القدیر)

التفاسير:

external-link copy
160 : 6

مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ عَشْرُ اَمْثَالِهَا ۚ— وَمَنْ جَآءَ بِالسَّیِّئَةِ فَلَا یُجْزٰۤی اِلَّا مِثْلَهَا وَهُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ ۟

جو شخص نیک کام کرے گا اس کو اس کے دس گنا ملیں گے(1) اور جو شخص برا کام کرے گا اس کو اس کے برابر ہی سزا ملے گی(2) اور ان لوگوں پر ﻇلم نہ ہوگا۔ info

(1) یہ اللہ تعالیٰ کے اس فضل واحسان کا بیان ہے جو اہل ایمان کے ساتھ وہ کرے گا کہ ایک نیکی کا بدلہ دس نیکیوں کے برابر عطا فرمائے گا۔ یہ کم ازکم اجر ہے۔ ورنہ قرآن اور احادیث دونوں سے ثابت ہے کہ بعض نیکیوں کا اجر کئی کئی سو گنا بلکہ ہزاروں گنا تک ملے گا۔
(2) یعنی جن گناہوں کی سزا مقرر نہیں ہے، اور اس کے ارتکاب کے بعد اس نے اس سے توبہ بھی نہیں کی یا اس کی نیکیاں اس کی برائیوں پر غالب نہ آئیں، یا اللہ نے اپنے فضل خاﺹ سے اسے معاف نہیں فرما دیا (کیونکہ ان تمام صورتوں میں مجازات کا قانون بروئے عمل نہیں آئے گا) تو پھر اللہ تعالیٰ ایسی برائی کی سزا دے گا اور اس کے برابر ہی دے گا۔

التفاسير:

external-link copy
161 : 6

قُلْ اِنَّنِیْ هَدٰىنِیْ رَبِّیْۤ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ۚ۬— دِیْنًا قِیَمًا مِّلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًا ۚ— وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ ۟

آپ کہہ دیجئے کہ مجھ کو میرے رب نے ایک سیدھا راستہ بتادیا ہے کہ وه ایک دین مستحکم ہے جو طریقہ ہے ابراہیم (علیہ السلام) کا جو اللہ کی طرف یکسو تھے۔ اور وه شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے۔ info
التفاسير:

external-link copy
162 : 6

قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُكِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۟ۙ

آپ فرما دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے جو سارے جہان کا مالک ہے۔ info
التفاسير:

external-link copy
163 : 6

لَا شَرِیْكَ لَهٗ ۚ— وَبِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ ۟

اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اسی کا حکم ہوا ہے اور میں سب ماننے والوں میں سے پہلا ہوں۔(1) info

(1) توحید الوہیت کی یہی دعوت تمام انبیا نے دی، جس طرح یہاں آخری پیغمبر کی زبان مبارک سے کہلوایا گیا کہ ”مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب ماننے والوں سے پہلا ہوں“۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”ہم نےآپ سے پہلے جتنے بھی انبیا بھیجے، سب کو یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، تم میری ہی عبادت کرو“ (الانبیاء: 25) چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام نے بھی یہ اعلان فرمایا «وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ» (يونس: 72) حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں آتا ہے جب اللہ تعالیٰ نے انہیں کہا کہ أَسْلِمْ (فرمانبردار ہوجا) تو انہوں نے فرمایا «أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ» (البقرة: 131) ”میں رب العالمین کے لئے مسلمان یعنی فرمانبردار ہوگیا“، حضرت ابراہیم السلام ویعقوب علیہ السلام نے اپنی اولاد کو وصیت فرمائی «فَلا تَمُوتُنَّ إِلا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ» (البقرة: 132) ”تمہیں موت اسلام پر آنی چاہیے“، حضرت یوسف علیہ السلام نے دعا فرمائی «تَوَفَّنِي مُسْلِمًا» (يوسف: 101) ”مجھے اسلام کی حالت میں دنیا سے اٹھانا“، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا «فَعَلَيْهِ تَوَكَّلُوا إِنْ كُنْتُمْ مُسْلِمِينَ» (يونس: 84) ”اگر تم مسلمان ہو تو اسی اللہ پر بھروسہ کرو“، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں نے کہا «وَاشْهَدْ بِأَنَّنَا مُسْلِمُونَ» (المائدة: 111) اسی طرح اور بھی تمام انبیاء اور ان کے مخلص پیروکاروں نے اسی اسلام کو اپنایا جس میں توحید الوہیت کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ گو بعض بعض شرعی احکام ایک دوسرے سے مختلف تھے۔

التفاسير:

external-link copy
164 : 6

قُلْ اَغَیْرَ اللّٰهِ اَبْغِیْ رَبًّا وَّهُوَ رَبُّ كُلِّ شَیْءٍ ؕ— وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ اِلَّا عَلَیْهَا ۚ— وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰی ۚ— ثُمَّ اِلٰی رَبِّكُمْ مَّرْجِعُكُمْ فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِیْهِ تَخْتَلِفُوْنَ ۟

آپ فرما دیجئے کہ کیا میں اللہ کے سوا کسی اور کو رب بنانے کے لئے تلاش کروں حاﻻنکہ وه مالک ہے ہر چیز کا(1) اور جو شخص بھی کوئی عمل کرتا ہے وه اسی پر رہتا ہے اور کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا(2)۔ پھر تم سب کو اپنے رب کے پاس جانا ہوگا۔ پھر وه تم کو جتلائے گا جس جس چیز میں تم اختلاف کرتے تھے۔(3) info

(1) یہاں رب سے مراد وہی الٰہ ماننا ہے جس کا انکار مشرکین کرتے رہے ہیں اور جو اس کی ربوبیت کا تقاضا ہے۔ لیکن مشرکین اس کی ربوبیت کو تو مانتے تھے۔ اور اس میں کسی کو شریک نہیں گردانتے تھے لیکن اس کی الوہیت میں شریک ٹھہراتے تھے۔
(2) یعنی اللہ تعالیٰ عدل وانصاف کا پورا اہتمام فرمائے گا اور جس نے۔ اچھا یا برا۔ جو کچھ کیا ہوگا، اس کے مطابق جزا وسزا دے گا، نیکی پر اچھی جزا اور بدی پر سزا دے گا اور ایک کا بوجھ دوسرے پر نہیں ڈالے گا۔
(3) اس لیے اگر تم اس دعوت توحید کو نہیں مانتے جو تمام انبیاء کی مشترکہ دعوت رہی ہے تو تم اپنا کام کیے جاؤ، ہم اپنا کیے جاتے ہیں۔ قیامت والے دن اللہ کی بارگاہ میں ہی تمہارا فیصلہ ہوگا۔

التفاسير:

external-link copy
165 : 6

وَهُوَ الَّذِیْ جَعَلَكُمْ خَلٰٓىِٕفَ الْاَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَبْلُوَكُمْ فِیْ مَاۤ اٰتٰىكُمْ ؕ— اِنَّ رَبَّكَ سَرِیْعُ الْعِقَابِ ۖؗۗ— وَاِنَّهٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ۟۠

اور وه ایسا ہے جس نے تم کو زمین میں خلیفہ بنایا(1) اور ایک کا دوسرے پر رتبہ بڑھایا تاکہ تم کو آزمائے ان چیزوں میں جو تم کو دی ہیں(2)۔ بالیقین آپ کا رب جلد سزا دینے واﻻ ہے اور بالیقین وه واقعی بڑی مغفرت کرنے واﻻ مہربانی کرنے واﻻ ہے۔ info

(1) یعنی حکمران بناکر اختیارات سے نوازا۔ یا ایک کے بعد دوسرے کو اس کا وارث (خلیفہ) بنایا۔
(2) یعنی فقر وغنا، علم وجہل، صحت اور بیماری، جس کو جو کچھ دیا ہے، اسی میں اس کی آزمائش ہے۔

التفاسير: