(1) اس لئے تکذیب کے باوجود عذاب دینے میں جلدی نہیں کرتا۔
(2) یعنی مہلت دینے کا مطلب ہمیشہ کے لئے عذاب الٰہی سے محفوظ ہونا نہیں ہے۔ وہ جب بھی عذاب دینے کا فیصلہ کرے گا تو پھر اسے کوئی ٹال نہیں سکے گا۔
(1) یہ وہی مغالطہ ہے جو مشیت الٰہی اور رضائے الٰہی کو ہم معنی سمجھ لینے کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے۔ حالانکہ یہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ جس کی وضاحت پہلے کی جاچکی ہے۔
(2) اللہ تعالیٰ نے اس مغالطے کا ازالہ اس طرح فرمایا کہ اگر یہ شرک اللہ کی رضا کا مظہر تھا تو پھر ان پر عذاب کیوں آیا؟ عذاب الٰہی اس بات کی دلیل ہے کہ مشیت اور چیز ہے اور رضائے الٰہی اور چیز۔
(3) یعنی اپنے دعوے پر تمہارے پاس دلیل ہے تو پیش کرو! لیکن ان کے پاس دلیل کہاں؟ وہاں تو صرف اوہام وظنون ہی ہیں۔
(1) یعنی وہ جانور، جن کو مشرکین حرام قرار دیئے ہوئے تھے۔
(2) کیوں کہ ان کے پاس سوائے کذب وافترا کے کچھ نہیں۔
(3) یعنی اس کا عدیل (برابر کا) ٹھہرا کر شرک کرتے ہیں۔
(1) یعنی حرام وہ نہیں ہیں جن کو تم نے بلا دلیل مَا أَنْزَلَ اللهُ، محض اپنے اوہام باطلہ اور ظنون فاسدہ کی بنیاد پر حرام قرار دے رکھا ہے۔ بلکہ حرام تو وہ چیزیں ہیں جن کو تمہارے رب نے حرام کیا ہے۔ تمہارا پیدا کرنے والا اور تمہارا پالنہار وہی ہے اور ہر چیز کا علم بھی اسی کے پاس ہے۔ اس لئے اسی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جس چیز کو چاہے حلال اور جس چیز کو چاہے حرام کرے۔ چنانچہ میں تمہیں ان باتوں کی تفصیل بتلاتا ہوں جن کی تاکید تمہارے رب نے کی ہے۔
(2) أَلا تُشْرِكُوا سے پہلے أَوْصَاكُمْ محذوف ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس بات کا حکم دیا ہے کہ اس کے ساتھ کسی چیز کو تم شریک مت ٹھہراؤ۔ شرک سب سے بڑا گناہ ہے، جس کے لئے معافی نہیں، مشرک پر جنت حرام اور دوزخ واجب ہے۔ قرآن مجید میں یہ ساری چیزیں مختلف انداز سے بار بار بیان ہوئی ہیں۔ اور نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) نے بھی احادیث میں ان کو تفصیل اور وضاحت سے بیان فرما دیا ہے اس کے باوجود یہ واقعہ ہے کہ لوگ شیطان کے بہکاوﮮ میں آکر شرک کا عام ارتکاب کرتے ہیں۔
(3) اللہ تعالیٰ کی توحید واطاعت کے بعد یہاں بھی (اور قرآن کے دوسرے مقامات پر بھی) والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اطاعت رب کے بعد اطاعت والدین کی بڑی اہمیت ہے۔ اگر کسی نے اس ربوبیت صغریٰ (والدین کی اطاعت اور ان سے حسن سلوک) کے تقاضے پورے نہیں کئے تو وہ ربوبیت کبریٰ کے تقاضے بھی پورے کرنے میں ناکام رہے گا۔
(4) زمانۂ جاہلیت کا یہ فعل قبیح آﺝ کل ضبط ولادت یا خاندانی منصوبہ بندی کے نام سے پوری دنیا میں زور وشور سے جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے محفوظ رکھے۔
(5) یعنی قصاص کے طور پر، نہ صرف جائز ہے بلکہ اگر مقتول کے وارث معاف نہ کریں تو یہ قتل نہایت ضروری ہے۔ ”وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ“ ( البقرۃ: 79) ”قصاص میں تمہاری زندگی ہے“۔