ការបកប្រែអត្ថន័យគួរអាន - ការបកប្រែជាភាសាអ៊ូរឌូ - ម៉ូហាំម៉ាត់ ជូណាគ្រី

លេខ​ទំព័រ:close

external-link copy
16 : 3

اَلَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اِنَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ۟ۚ

جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہم ایمان ﻻ چکے اس لئے ہمارے گناه معاف فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔ info
التفاسير:

external-link copy
17 : 3

اَلصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰدِقِیْنَ وَالْقٰنِتِیْنَ وَالْمُنْفِقِیْنَ وَالْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْاَسْحَارِ ۟

جو صبر کرنے والے اور سچ بولنے والے اور فرمانبرداری کرنے والے اور اللہ کی راه میں خرچ کرنے والے اور پچھلی رات کو بخشش مانگنے والے ہیں۔ info
التفاسير:

external-link copy
18 : 3

شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۙ— وَالْمَلٰٓىِٕكَةُ وَاُولُوا الْعِلْمِ قَآىِٕمًا بِالْقِسْطِ ؕ— لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ ۟ؕ

اللہ تعالیٰ، فرشتے اور اہل علم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں(1) اور وه عدل کو قائم رکھنے واﻻ ہے، اس غالب اور حکمت والے کے سوا کوئی عبادت کے ﻻئق نہیں۔ info

(1) شہادت کے معنی بیان کرنے اور آگاہ کرنے کے ہیں،یعنی اللہ تعالیٰ نے جو کچھ پیدا کیا، اور بیان کیا، اس کے ذریعے سے اس نےاپنی وحدانیت کی طرف ہماری رہنمائی فرمائی۔ (فتح القدیر) فرشتے اوراہل علم بھی اس کی توحید کی گواہی دیتے ہیں۔ اس میں اہل علم کی بڑی فضیلت اور عظمت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اور فرشتوں کے ناموں کے ساتھ ان کا ذکر فرمایا ہے تاہم اس سے مراد صرف وہ اہل علم ہیں جو کتاب وسنت کے علم سے بہرہ ور ہیں۔ (فتح القدیر)

التفاسير:

external-link copy
19 : 3

اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ ۫— وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ اِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْیًا بَیْنَهُمْ ؕ— وَمَنْ یَّكْفُرْ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ فَاِنَّ اللّٰهَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ ۟

بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے(1) ، اور اہل کتاب نے اپنے پاس علم آجانے کے بعد آپس کی سرکشی اور حسد کی بنا پر ہی اختلاف کیا ہے(2) اور اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ جو بھی کفر کرے(3) اللہ تعالیٰ اس کا جلد حساب لینے واﻻ ہے۔ info

(1) اسلام وہی دین ہے جس کی دعوت وتعلیم ہر پیغمبر اپنے اپنے دور میں دیتے رہے ہیں اور اب اس کی کامل ترین شکل وہ ہے جسے نبی آخرالزمان حضرت محمد (صلى الله عليه وسلم) نے دنیا کے سامنے پیش کیا، جس میں توحید ورسالت اور آخرت پر اس طرح یقین وایمان رکھنا ہے جس طرح نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) نے بتلایا ہے۔ اب محض یہ عقیدہ رکھ لینا کہ اللہ ایک ہے یا کچھ اچھے عمل کر لینا، یہ اسلام نہیں نہ اس سے نجات آخرت ہی ملے گی۔ ایمان واسلام اوردین یہ ہے کہ اللہ کوایک مانا جائے اور صرف اسی ایک معبود کی عبادت کی جائے، محمد رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) سمیت تمام انبیاء پر ایمان لایا جائے۔ اور نبی (صلى الله عليه وسلم) کی ذات پر رسالت کا خاتمہ تسلیم کیاجائے اورایمانیات کے ساتھ ساتھ وہ عقائد واعمال اختیار کئے جائیں جو قرآن کریم میں یا حدیث رسول (صلى الله عليه وسلم) میں بیان کئے گئے ہیں۔ اب اس دین اسلام کے سوا کوئی اور دین عنداللہ قبول نہیں ہو گا۔ «وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ» (آل عمران: 85) نبی (صلى الله عليه وسلم) کی رسالت پوری انسانیت کے لئے ہے۔ «قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا» (الأعراف: 158) ”کہہ دیجئے! اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں“، «تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا» (الفرقان: 1) ”برکتوں والی ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کیا تاکہ وہ جہانوں کا ڈرانے والا ہو“ اور حدیث میں ہے، نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، جو یہودی یا نصرانی مجھ پرایمان لائے بغیر فوت ہوگیا، وہ جہنمی ہے۔“ (صحیح مسلم) مزید فرمایا ”بُعِثْتُ إِلَى الأَحْمَرِ وَالأَسْوَدِ“ ”میں احمرواسود (یعنی تمام انسانوں کے لئے نبی بناکربھیجا گیاہوں“ اسی لئے آپ (صلى الله عليه وسلم) نے اپنے وقت کے تمام سلاطین اور بادشاہوں کوخطوط تحریر فرمائے جن میں انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی (صحیحین۔ بحوالہ ابن کثیر )
(2) ان کے اس باہمی اختلاف سے مراد وہ اختلاف ہے جو ایک ہی دین کے ماننے والوں نے آپس میں برپا کر رکھا تھا مثلاً یہودیوں کے باہمی اختلافات اور فرقہ بندیاں۔ اسی طرح عیسائیوں کے باہمی اختلافات اور فرقہ بندیاں، پھر وہ اختلاف بھی مراد ہے جواہل کتاب کے درمیان آپس میں تھا۔ اور جس کی بناپر یہودی نصرانیوں کو اورنصرانی یہودیوں کوکہاکرتے تھے (تم کسی چیز پر نہیں ہو۔) نبوت محمدی (صلى الله عليه وسلم) اور نبوت عیسیٰ (عليه السلام) کے بارے میں اختلاف بھی اسی ضمن میں آتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ سارے اختلافات دلائل کی بنیاد پر نہیں تھے، محض حسد اوربغض وعناد کی وجہ سے تھے یعنی وہ لوگ حق کو جاننے اورپہچاننے کے باوجود محض اپنے خیالی دنیاوی مفاد کے چکر میں غلط بات پر جمے رہتے اور اس کو دین باور کراتے تھے۔ تاکہ ان کی ناک بھی اونچی رہے اور ان کاعوامی حلقۂ ارادت بھی قائم رہے۔ افسوس آج مسلمان علما کی ایک بڑی تعداد ٹھیک انہی غلط مقاصد کے لئے ٹھیک اسی غلط ڈگر پر چل رہی ہے۔ -هَدَاهُمُ اللهُ وَإِيَّانَا-
(3) یہاں ان آیتوں سے مراد وہ آیات ہیں جو اسلام کے دین الٰہی ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
20 : 3

فَاِنْ حَآجُّوْكَ فَقُلْ اَسْلَمْتُ وَجْهِیَ لِلّٰهِ وَمَنِ اتَّبَعَنِ ؕ— وَقُلْ لِّلَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ وَالْاُمِّیّٖنَ ءَاَسْلَمْتُمْ ؕ— فَاِنْ اَسْلَمُوْا فَقَدِ اهْتَدَوْا ۚ— وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَیْكَ الْبَلٰغُ ؕ— وَاللّٰهُ بَصِیْرٌ بِالْعِبَادِ ۟۠

پھر بھی اگر یہ آپ سے جھگڑیں توآپ کہہ دیں کہ میں اور میرے تابعداروں نے اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنا سر تسلیم خم کر دیا ہے اور اہل کتاب سے اور انپڑھ لوگوں(1) سے کہہ دیجیئے! کہ کیا تم بھی اطاعت کرتے ہو؟ پس اگر یہ بھی تابعدار بن جائیں تو یقیناً ہداہت والے ہیں اور اگر یہ روگردانی کریں، تو آپ پر صرف پہنچا دینا ہے اور اللہ بندوں کو خوب دیکھ بھال رہا ہے۔ info

(1) ان پڑھ لوگوں سے مراد مشرکین عرب ہیں جو اہل کتاب کے مقابلے میں بالعموم ان پڑھ تھے۔

التفاسير:

external-link copy
21 : 3

اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَیَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ حَقٍّ ۙ— وَّیَقْتُلُوْنَ الَّذِیْنَ یَاْمُرُوْنَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ ۙ— فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ ۟

جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیتوں سے کفر کرتے ہیں اورناحق نبیوں کو قتل کر ڈالتے ہیں اور جو لوگ عدل وانصاف کی بات کہیں انہیں بھی قتل کر ڈالتے ہیں(1) ، تو اے نبی! انہیں دردناک عذاب کی خبردے دیجئے۔ info

(1) یعنی ان کی سرکشی وبغاوت اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ صرف نبیوں کو ہی انہوں نے ناحق قتل نہیں کیابلکہ ان تک کو بھی قتل کر ڈالاجو عدل وانصاف کی بات کرتے تھے۔ یعنی وہ مومنین مخلصین اور داعیان حق جو امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کافریضہ انجام دیتے تھے۔ نبیوں کے ساتھ ان کا تذکرہ فرما کر اللہ تعالیٰ نے ان کی عظمت وفضیلت بھی واضح کردی۔

التفاسير:

external-link copy
22 : 3

اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِ ؗ— وَمَا لَهُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ ۟

ان کے اعمال دنیا وآخرت میں غارت ہیں اور ان کا کوئی مددگار نہیں۔ info
التفاسير: