(1) یہاں کافروں سے مراد یہودی ہیں۔ اور یہ پیش گوئی جلدہی پوری ہوگئی۔ چنانچہ بنو قینقاع اور بنو نضیر جلا وطن کیے گئے، بنو قریظہ قتل کیے گئے۔ پھر خیبر فتح ہوگیا اور تمام یہودیوں پر جزیہ عائد کر دیا گیا (فتح القدیر)
(1) یعنی ہر فریق، دوسرے فریق کو اپنے سے دوگنا دیکھتا تھا۔ کافروں کی تعداد ایک ہزار کے قریب تھی، انہیں مسلمان دو ہزار کے قریب دکھائی دیتے تھے۔ مقصد اس سے ان کے دلوں میں مسلمانوں کی دھاک بٹھانا تھا۔ اور مسلمانوں کی تعداد تین سو سے کچھ اوپر (یا 313 ) تھی، انہیں کافر 600 اور 700 کے درمیان نظر آتے تھے۔ دراں حالیکہ ان کی اصل تعداد ہزار کے قریب (تین گنا) تھی مقصد اس سے مسلمانوں کے عزم وحوصلہ میں اضافہ کرنا تھا۔ اپنے سے تین گنا دیکھ کر ممکن تھا مسلمان مرعوب ہو جاتے۔ جب وہ تین گنا کے بجائے دو گنا نظر آئےتو ان کا حوصلہ پست نہیں ہوا۔ لیکن یہ دگنا دیکھنے کی کیفیت ابتدا میں تھی، پھر جب دونوں گروہ آمنے سامنے صف آرا ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے اس کے برعکس دونوں کو ایک دوسرے کی نظروں میں کم کرکے دکھایا تاکہ کوئی بھی فریق لڑائی سے گریز نہ کرے بلکہ ہر ایک پیش قدمی کی کوشش کرے (ابن کثیر) یہ تفصیل سورۃ الانفال۔ آیت 44 میں بیان کی گئی ہے۔ یہ جنگ بدر کا واقعہ ہے جو ہجرت کے بعد دوسرے سال مسلمانوں اور کافروں کے درمیان پیش آیا۔ یہ کئی لحاظ سے نہایت اہم جنگ تھی۔ ایک تو اس لیے کہ یہ پہلی جنگ تھی۔ دوسرے، یہ جنگی منصوبہ بندی کے بغیر ہوئی۔ مسلما ن ابو سفیان کے قافلے کے لئے نکلے تھے جو شام سے سامان تجارت لے کر مکہ جا رہا تھا، مگر اطلاع مل جانے کی وجہ سے وہ اپنا قافلہ تو بچا کر لے گیا، لیکن کفار مکہ اپنی طاقت وکثرت کے گھمنڈ میں مسلمانوں پر چڑھ دوڑے اور مقام بدر میں یہ پہلا معرکہ برپا ہوا۔ تیسرے، اس میں مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی خصوصی مدد حاصل ہوئی، چوتھے، اس میں کافروں کو عبرت ناک شکست ہوئی، جس سے آئندہ کے لئے کافروں کے حوصلے پست ہوگئے۔
(1) شَهَوَاتٌ سے مراد یہاں مُشْتَهَيَاتٌ ہیں یعنی وہ چیزیں جوطبعی طور پر انسان کو مرغوب اورپسندیدہ ہیں۔ اسی لئے ان میں رغبت اور ان کی محبت ناپسندیدہ نہیں ہے۔ بشرطیکہ اعتدال کے اندر اور شریعت کے دائرے میں رہے۔ ان کی تزیین بھی اللہ کی طرف سے بطور آزمائش ہے۔ «إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الأَرْضِ زِينَةً لَهَا لِنَبْلُوَهُمْ» (الكهف: 7) ”ہم نے زمین پر جو کچھ ہے، اسے زمین کی زینت بنایاہے تاکہ ہم لوگوں کو آزمائیں“ سب سے پہلے عورت کا ذکر کیا ہے کیونکہ یہ ہر بالغ انسان کی سب سے بڑی ضرورت بھی ہے اور سب سے زیادہ مرغوب بھی۔ خود نبی (صلى الله عليه وسلم) کا فرمان ہے: ”حُبِّبَ إِلَيَّ النِّسَاءُ وَالطِّيبُ“ (مسند احمد) ”عورت اور خوشبو مجھے محبوب ہیں“۔ اسی طرح نبی (صلى الله عليه وسلم) نے نیک عورت کو ”دنیا کی سب سے بہتر متاع“ قرار دیا ہے ”خَيْرُ مَتَاعِ الدُّنْيَا الْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ“ اس لئے اس کی محبت شریعت کے دائرے سے تجاوز نہ کرے تو یہ بہترین رفیق زندگی بھی ہے اور زاد آخرت بھی۔ ورنہ یہی عورت مرد کے لئے سب سے بڑا فتنہ ہے۔ فرمان رسول (صلى الله عليه وسلم) ہے: ”مَا تَرَكْتُ بَعْدِي فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَى الرِّجِالِ مِنَ النِّسَاءِ“ (صحيح بخاري كتاب النكاح، باب ما يتقى من شؤم المرأة)(میرے بعد جو فتنے رونما ہوں گے، ان میں مردوں کے لئے سب سے بڑا فتنہ عورتوں کا ہے۔) اسی طرح بیٹوں کی محبت ہے۔ اگر اس سے مقصد مسلمانوں کی قوت میں اضافہ اور بقا وتکثیر نسل ہے تو محمود ہے ورنہ مذموم۔ نبی (صلى الله عليه وسلم) کا فرمان ہے ”تَزَوَّجُوا الوَدُودَ الْوَلُودَ؛ فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الأُمَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ“ (بہت محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی عورت سے شادی کرو، اس لئے کہ میں قیامت والے دن دوسری امتوں کے مقابلے میں اپنی امت کی کثرت پر فخر کروں گا) اس آیت سے رھبانیت کی تردیداور تحریک خاندانی منصوبہ بندی کی تردید بھی ثابت ہوتی ہے کیونکہ بَنِينٌ جمع ہے۔ مال ودولت سے بھی مقصود قیام معیشت، صلۂ رحمی، صدقہ وخیرات اور اسے امور خیر میں خرچ کرنا اور سوال سے بچنا ہے تاکہ اللہ کی رضا حاصل ہو، تو اس کی محبت بھی عین مطلوب ہے ورنہ مذموم۔ گھوڑوں سے مقصد جہاد کی تیاری، دیگر جانوروں سے کھیتی باڑی اور باربرداری کا کام لینا اور زمین سےاس کی پیداوار حاصل کرنا ہو تو یہ سب پسندیدہ ہیں اور اگر مقصود محض دنیا کمانا اور پھر اس پرفخر وغرور کا اظہار کرنا اور یاد الٰہی سے غافل ہو کر عیش وعشرت سے زندگی گزارنا ہے تو یہ سب مفید چیزیں اس کے لئے وبال جان ثابت ہوں گی۔ قَنَاطِيرُ قِنْطَارٌ (خزانہ) کی جمع ہے۔ مراد ہے خزانے یعنی سونے چاندی اورمال ودولت کی فراوانی اور کثرت۔ االمُسَوَّمَةِ وہ گھوڑے جو چراگاہ میں چرنے کے لئے چھوڑے گئے ہوں۔ یاجہاد کےلئے تیار کئے گئے ہوں یا نشان زدہ، جن پر امتیاز کے لئے کوئی نشان یانمبرلگادیا جائے (فتح القدیر وابن کثیر)
(1) اس آیت میں اہل ایمان کو بتلایا جا رہا ہے کہ دنیاکی مذکورہ چیزوں میں ہی مت کھو جانا، بلکہ ان سے بہتر تو وہ زندگی اور اس کی نعمتیں ہیں جو رب کے پاس ہیں، جن کے مستحق اہل تقویٰ ہی ہوں گے۔ اس لئے تم تقویٰ اختیار کرو۔ اگر یہ تمہارے اندر پیدا ہو گیا تو یقیناً تم دین ودنیاکی بھلائیاں اپنے دامن میں سمیٹ لو گے۔
(2) پاکیزہ، یعنی وہ دنیاوی میل کچیل، حیض ونفاس اور دیگر آلودگیوں سے پاک ہوں گی اورپاک دامن ہونگی۔ اس سے اگلی دو آیات میں اہل تقویٰ کی صفات کا تذکرہ ہے۔