ការបកប្រែអត្ថន័យគួរអាន - ការបកប្រែជាភាសាអ៊ូរឌូ - ម៉ូហាំម៉ាត់ ជូណាគ្រី

លេខ​ទំព័រ: 224:221 close

external-link copy
29 : 11

وَیٰقَوْمِ لَاۤ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَیْهِ مَالًا ؕ— اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَی اللّٰهِ وَمَاۤ اَنَا بِطَارِدِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ؕ— اِنَّهُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ وَلٰكِنِّیْۤ اَرٰىكُمْ قَوْمًا تَجْهَلُوْنَ ۟

میری قوم والو! میں تم سے اس پر کوئی مال نہیں مانگتا(1) ۔ میرا ﺛواب تو صرف اللہ تعالیٰ کے ہاں ہے نہ میں ایمان والوں کو اپنے پاس سے نکال سکتا ہوں(2)، انہیں اپنے رب سے ملنا ہے لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ جہالت کر رہے ہو۔(3) info

(1) تاکہ تمہارے دماغوں میں یہ شبہ نہ آ جائے کہ اس دعوائے نبوت سے اس کا مقصد تو دولت دنیا اکٹھا کرنا ہے۔ میں تو یہ کام صرف اللہ کے حکم پر اسی کی رضا کے لئے کر رہا ہوں، وہی مجھے اجر دے گا۔
(2) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم نوح (عليه السلام) کے سرداروں نے بھی معاشرے میں کمزور سمجھے جانے والے اہل ایمان کو حضرت نوح (عليه السلام) سے اپنی مجلس یا اپنے قرب سے دور رکھنے کا مطالبہ کیا ہوگا، جس طرح روسائے مکہ نے رسول اللہ سے اس قسم کا مطالبہ کیا تھا، جس پر اللہ تعالٰی نے قرآن کریم کی آیت نازل فرمائیں تھیں «وَلا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ» (سورة الأنعام: 52)، ”اے پیغمبر ان لوگوں کو اپنے سے دور مت کرنا جو صبح شام اپنے رب کو پکارتے ہیں“، «وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ وَلا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ» (الكهف: 28)۔ ”اپنے نفسوں کو ان لوگوں کے ساتھ جوڑے رکھئے! جو اپنے رب کو صبح شام پکارتے ہیں، اپنے رب کی رضا چاہتے ہیں، آپ کی آنکھیں ان سے گزر کر کسی اور کی طرف تجاوز نہ کریں“۔
(3) یعنی اللہ اور رسول کے پیروکار کو حقیر سمجھنا اور پھر انہیں قرب نبوت سے دور کرنے کا مطالبہ کرنا، یہ تمہاری جہالت ہے۔ یہ لوگ تو اس لائق ہیں کہ انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا جائے نہ کہ دور دھتکارا جائے۔

التفاسير:

external-link copy
30 : 11

وَیٰقَوْمِ مَنْ یَّنْصُرُنِیْ مِنَ اللّٰهِ اِنْ طَرَدْتُّهُمْ ؕ— اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ ۟

میری قوم کے لوگو! اگر میں ان مومنوں کو اپنے پاس سے نکال دوں تو اللہ کے مقابلہ میں میری مدد کون کر سکتا ہے(1) ؟ کیا تم کچھ بھی نصیحت نہیں پکڑتے۔ info

(1) گویا ایسے لوگوں کو اپنے سے دور کرنا، اللہ کے غضب اور ناراضگی کا باعث ہے۔

التفاسير:

external-link copy
31 : 11

وَلَاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِیْ خَزَآىِٕنُ اللّٰهِ وَلَاۤ اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَلَاۤ اَقُوْلُ اِنِّیْ مَلَكٌ وَّلَاۤ اَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ تَزْدَرِیْۤ اَعْیُنُكُمْ لَنْ یُّؤْتِیَهُمُ اللّٰهُ خَیْرًا ؕ— اَللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ ۖۚ— اِنِّیْۤ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیْنَ ۟

میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، (سنو!) میں غیب کا علم بھی نہیں رکھتا، نہ میں یہ کہتا ہوں کہ میں کوئی فرشتہ ہوں، نہ میرا یہ قول ہے کہ جن پر تمہاری نگاہیں ذلت سے پڑ رہی ہیں انہیں اللہ تعالیٰ کوئی نعمت دے گا ہی نہیں(1) ، ان کے دل میں جو ہے اسے اللہ ہی خوب جانتا ہے، اگر میں ایسی بات کہوں تو یقیناً میرا شمار ﻇالموں میں ہو جائے گا۔(2) info

(1) بلکہ اللہ تعالٰی نے انہیں ایمان کی صورت میں خیر عظیم عطا کر رکھا ہے جس کی بنیاد پر وہ آخرت میں بھی جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوں گے اور دنیا میں بھی اللہ تعالٰی چاہے گا، تو بلند مرتبے سے ہمکنار ہوں گے۔ گویا تمہارا ان کو حقیر سمجھنا ان کے لئے نقصان کا باعث نہیں، البتہ تم ہی عند اللہ مجرم ٹھہرو گے کہ اللہ کے نیک بندوں کو، جن کا اللہ کے ہاں بڑا مقام ہے، تم حقیر اور فرومایہ سمجھتے ہو۔
(2) کیونکہ میں ان کی بابت ایسی بات کہوں جس کا مجھے علم نہیں، صرف اللہ جانتا ہے، تو یہ ظلم ہے۔

التفاسير:

external-link copy
32 : 11

قَالُوْا یٰنُوْحُ قَدْ جَادَلْتَنَا فَاَكْثَرْتَ جِدَالَنَا فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ ۟

(قوم کے لوگوں نے) کہا اے نوح! تو نے ہم سے بحﺚ کر لی اور خوب بحث کر لی۔ اب تو جس چیز سے ہمیں دھمکا رہا ہے وہی ہمارے پاس لے آ، اگر تو سچوں میں ہے۔(2) info

(1) لیکن اس کے باوجود ہم ایمان نہیں لائے۔
(2) یہ وہی حماقت ہے جس کا ارتکاب گمراہ قومیں کرتی آئی ہیں کہ وہ اپنے پیغمبر سے کہتی رہی ہیں کہ اگر تو سچا ہے تو ہم پر عذاب نازل کروا کر ہمیں تباہ کروا دے۔ حالانکہ ان میں عقل ہوتی، تو وہ کہتیں کہ اگر سچا ہے اور واقعی اللہ کا رسول ہے، تو ہمارے لئے دعا کر کہ اللہ تعالٰی ہمارا سینہ بھی کھول دے تاکہ ہم اسے اپنا لیں۔

التفاسير:

external-link copy
33 : 11

قَالَ اِنَّمَا یَاْتِیْكُمْ بِهِ اللّٰهُ اِنْ شَآءَ وَمَاۤ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ ۟

جواب دیا کہ اسے بھی اللہ تعالیٰ ہی ﻻئے گا اگر وه چاہے اور ہاں تم اسے ہرانے والے نہیں ہو۔(1) info

(1) یعنی عذاب کا آنا خالص اللہ کی مشیت پر موقوف ہے، یہ نہیں ہے کہ جب میں چاہوں، تم پر عذاب آ جائے۔ تاہم جب اللہ عذاب کا فیصلہ کر لے گا یا بھیج دے گا، تو پھر اس کو کوئی عاجز کرنے والا نہیں ہے۔

التفاسير:

external-link copy
34 : 11

وَلَا یَنْفَعُكُمْ نُصْحِیْۤ اِنْ اَرَدْتُّ اَنْ اَنْصَحَ لَكُمْ اِنْ كَانَ اللّٰهُ یُرِیْدُ اَنْ یُّغْوِیَكُمْ ؕ— هُوَ رَبُّكُمْ ۫— وَاِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ ۟ؕ

تمہیں میری خیر خواہی کچھ بھی نفع نہیں دے سکتی، گو میں کتنی ہی تمہاری خیر خواہی کیوں نہ چاہوں، بشرطیکہ اللہ کا اراده تمہیں گمراه کرنے کا ہو(1) ، وہی تم سب کا پروردگار ہے(2) اور اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ info

(1) إِغْوَاءٌ بمعنی اضلال (گمراہ کرنا ہے)۔ یعنی تمہارا کفر وجحود اگر اس مقام پر پہنچ چکا ہے، جہاں سے کسی انسان کو پلٹ کر آنا اور ہدایت کو اپنا لینا ناممکن ہے، تو اسی کیفیت کو اللہ تعالٰی کی طرف سے مہر لگا دینا کہا جاتا ہے، جس کے بعد ہدایت کی کوئی امید باقی نہیں رہ جاتی۔ مطلب یہ ہے کہ اگر تم بھی اسی خطرناک موڑ تک پہنچ چکے ہو تو پھر میں تمہاری خیر خواہی بھی کرنی چاہوں یعنی ہدایت پر لانے کی اور زیادہ کوشش کروں، تو یہ کوشش اور خیر خواہی تمہارے لئے مفید نہیں، کیونکہ تم گمراہی کے آخری مقام پر پہنچ چکے ہو۔
(2) ہدایت اور گمراہی بھی اسی کے ہاتھ میں ہے اور اسی کی طرف تم سب کو لوٹ کر جانا ہے، جہاں وہ تمہیں تمہارے عملوں کی جزا دے گا۔ نیکوں کو انکے نیک عمل کی جزا اور بروں کو ان کی برائی کی سزا دے گا۔

التفاسير:

external-link copy
35 : 11

اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ ؕ— قُلْ اِنِ افْتَرَیْتُهٗ فَعَلَیَّ اِجْرَامِیْ وَاَنَا بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُجْرِمُوْنَ ۟۠

کیا یہ کہتے ہیں کہ اسے خود اسی نے گھڑ لیا ہے؟ تو جواب دے کہ اگر میں نے اسے گھڑ لیا ہو تو میرا گناه مجھ پر ہے اور میں ان گناہوں سے بری ہوں جو تم کر رہے ہو۔(1) info

(1) بعض مفسرین کے نزدیک یہ مکالمہ قوم نوح (عليه السلام) اور حضرت نوح (عليه السلام) کے درمیان ہوا اور بعض کا خیال ہے کہ یہ جملہ معترضہ کے طور پر نبی اکرم اور مشرکین مکہ کے درمیان ہونے والی گفتگو ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر یہ قرآن میرا گھڑا ہوا ہے اور میں اللہ کی طرف سے منسوب کرنے میں جھوٹا ہوں تو میرا جرم ہے، اس کی سزا میں ہی بھگتوں گا۔ لیکن تم جو کچھ کر رہے ہو، جس سے میں بری ہوں، اس کا بھی تمہیں پتہ ہے؟ اس کا وبال تو مجھ پر نہیں، تم پر ہی پڑے گا کیا اس کی بھی تمہیں کچھ فکر ہے؟۔

التفاسير:

external-link copy
36 : 11

وَاُوْحِیَ اِلٰی نُوْحٍ اَنَّهٗ لَنْ یُّؤْمِنَ مِنْ قَوْمِكَ اِلَّا مَنْ قَدْ اٰمَنَ فَلَا تَبْتَىِٕسْ بِمَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ ۟ۚ

نوح کی طرف وحی بھیجی گئی کہ تیری قوم میں سے جو ایمان ﻻ چکے ان کے سوا اور کوئی اب ایمان ﻻئے گا ہی نہیں، پس تو ان کے کاموں پر غمگین نہ ہو۔(1) info

(1) یہ اس وقت کہا گیا کہ جب قوم نوح (عليه السلام) نے عذاب کا مطالبہ کیا اور حضرت نوح (عليه السلام) نے بارگاہ الٰہی میں دعا کی کہ یا رب! زمین پر ایک کافر بھی بسنے والا نہ رہنے دے۔ اللہ نے فرمایا: اب مزید کوئی ایمان نہیں لائے گا، تو ان پر غم نہ کھا۔

التفاسير:

external-link copy
37 : 11

وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِاَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا وَلَا تُخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ۚ— اِنَّهُمْ مُّغْرَقُوْنَ ۟

اورایک کشتی ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری وحی سے تیار کر(1) اور ﻇالموں کے بارے میں ہم سے کوئی بات چیت نہ کر وه پانی میں ڈبو دیئے جانے والے ہیں۔(2) info

(1) ”یعنی ہماری آنکھوں کے سامنے“ اور ”ہماری دیکھ بھال میں“ اس آیت میں اللہ رب العزت کے لئے صفت 'عین' کا اثبات ہے جس پر ایمان رکھنا ضروری ہے اور 'ہماری وحی سے' کا مطلب، اس کے طول و عرض وغیرہ کی جو کیفیات ہم نے بتلائی ہیں، اس طرح اسے بنا۔ اس مقام پر بعض مفسرین نے کشتی کے طول و عرض، اس کی منزلوں اور کس قسم کی لکڑی اور دیگر سامان اس میں استعمال کیا گیا، اس کی تفصیل بیان کی ہے، جو ظاہر بات ہے کہ کسی مستند ماخذ پر مبنی نہیں ہے۔ اس کی پوری تفصیل کا صحیح علم صرف اللہ ہی کو ہے۔
(2) بعض نے اس سے مراد حضرت نوح (عليه السلام) کے بیٹے اور اہلیہ کو لیا ہے جو مومن نہیں تھے اور غرق ہونے والوں میں سے تھے۔ بعض نے اس سے غرق ہونے والی پوری قوم مراد لی ہے اور مطلب یہ ہے کہ ان کے لئے کوئی مہلت طلب مت کرنا کیونکہ اب ان کے ہلاک ہونے کا وقت آ گیا ہے یا یہ مطلب ہے کہ ان کی ہلاکت کے لئے جلدی نہ کریں، وقت مقرر میں یہ سب غرق ہو جائیں گے۔ (فتح القدیر)۔

التفاسير: