(1) یہ اہلیہ حضرت سارہ تھیں، جو خود بھی بوڑھی تھیں اور ان کا شوہر حضرت ابراہیم (عليه السلام) بھی بوڑھے تھے۔ اس لئے تعجب ایک فطری امر تھا، جس کا اظہار ان سے ہوا۔
(1) یہ استفہام انکار کے لئے ہے۔ یعنی تو اللہ تعالٰی کے قضا و قدر پر کس طرح تعجب کا اظہار کرتی ہے جبکہ اس کے لئے کوئی چیز مشکل نہیں۔ اور نہ وہ اسباب عادیہ ہی کا محتاج ہے، وہ تو جو چاہے، اس کے لفظ كُنْ (ہو جا) سے معرض وجود میں آ جاتا ہے۔
(2) حضرت ابراہیم (عليه السلام) کی اہلیہ محترمہ کو یہاں فرشتوں نے 'اہل بیت' سے یاد کیا اور دوسرے ان کے لئے جمع مذکر مخاطب (عَلَيْكُمْ) کا صیغہ استعمال کیا۔ جس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ 'اہل بیت' کے لئے جمع مذکر کے صیغے کا استعمال بھی جائز ہے۔ جیسا کہ سورہ احزاب 33 میں اللہ تعالٰی نے رسول اللہ کی ازواج مطہرات کو بھی اہل بیت کہا ہے اور انہیں جمع مذکر کے صیغے سے مخاطب بھی کیا ہے۔
(1) اس مجادلہ سے مراد یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (عليه السلام) نے فرشتوں سے کہا کہ جس بستی کو تم ہلاک کرنے جا رہے ہو، اسی میں حضرت لوط (عليه السلام) بھی موجود ہیں۔ جس پر فرشتوں نے کہا ہم جانتے ہیں کہ لوط (عليه السلام) بھی وہاں رہتے ہیں۔ لیکن ہم ان کو اور ان کے گھر والوں کو سوائے ان کی بیوی کے بچا لیں گے۔ (العنکبوت:32)
(1) یہ فرشتوں نے حضرت ابراہیم (عليه السلام) سے کہا کہ اب اس بحث و تکرار کا کوئی فائدہ نہیں، اسے چھوڑیئے اللہ کا وہ حکم (ہلاکت کا) آ چکا ہے، جو اللہ کے ہاں مقدر تھا۔ اور اب یہ عذاب نہ کسی کے مجادلے سے روکے گا نہ کسی کی دعا سے ٹلے گا۔
(1) حضرت لوط (عليه السلام) کی اس سخت پریشانی کی وجہ مفسرین نے لکھی ہے کہ یہ فرشتے نوجوانوں کی شکل میں آئے تھے، جو بےریش تھے، جس سے حضرت لوط (عليه السلام) نے اپنی قوم کی عادت قبیحہ کے پیش نظر سخت خطرہ محسوس کیا۔ کیونکہ ان کو یہ پتہ نہیں تھا کہ آنے والے یہ نوجوان، مہمان نہیں ہیں، بلکہ اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں جو اس قوم کو ہلاک کرنے کے لئے آئے ہیں۔
(1) جب اغلام بازی کے ان مریضوں کو پتہ چلا کہ چند خوبرو نوجوان لوط (عليه السلام) کے گھر آئے ہیں تو دوڑے ہوئے آئے اور انہیں اپنے ساتھ لے جانے پر اصرار کیا، تاکہ ان سے اپنی غلط خواہشات پوری کریں۔
(2) یعنی تمہیں اگر جنسی خواہش ہی کی تسکین مقصود ہے تو اس کے لئے میری اپنی بیٹیاں موجود ہیں، جن سے تم نکاح کر لو اور اپنا مقصد پورا کر لو۔ یہ تمہارے لئے ہر طرح سے بہتر ہے۔ بعض نے کہا کہ بنات سے مراد عام عورتیں ہیں اور انہیں اپنی لڑکیاں اس لئے کہا کہ پیغمبر اپنی امت کے لئے بمنزلہ باپ ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس کام کے لئے عورتیں موجود ہیں، ان سے نکاح کر لو اور اپنا مقصد پورا کرو (ابن کثیر)
(3) یعنی میرے گھر آئے مہمانوں کے ساتھ زیادتی اور زبردستی کر کے مجھے رسوا نہ کرو۔ کیا تم میں ایک آدمی بھی ایسا سمجھدار نہیں ہے، جو میزبانی کے تقاضوں اور اس کی نزاکت کو سمجھ سکے، اور تمہیں اپنے برے ارادوں سے روک سکے، حضرت لوط (عليه السلام) نے یہ ساری باتیں اس بنیاد پر کہیں کہ وہ ان فرشتوں کو فی الواقع نو وارد مسافر اور مہمان ہی سمجھتے رہے۔ اس لئے بجا طور پر ان کی مخالفت کو اپنی عزت و وقار کے لئے ضروری سمجھتے رہے۔ اگر ان کو پتہ چل جاتا یا وہ عالم الغیب ہوتے تو ظاہر بات ہے کہ انہیں یہ پریشانی ہرگز لاحق نہ ہوتی، جو انہیں ہوئی اور جس کا نقشہ یہاں قرآن مجید نے کھینچا ہے۔
(1) یعنی ایک جائز اور فطری طریقے کو انہوں نے بالکل رد کر دیا اور غیر فطری کام اور بےحیائی پر اصرار کیا، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ قوم اپنی اس بےحیائی کی عادت خبیثہ میں کتنی آگے جا چکی تھی اور کس قدر اندھی ہوگئی تھی۔
(1) قوت سے اپنے دست بازو اور اپنے وسائل کی قوت یا اولاد کی قوت مراد ہے اور رکن شدید (مضبوط آسرا) سے خاندان، قبیلہ یا اسی قسم کا کوئی مضبوط سہارامراد ہے۔ یعنی نہایت بےبسی کے عالم میں آرزو کر رہے ہیں کہ کاش! میرے اپنے پاس کوئی قوت ہوتی یا کسی خاندان اور قبیلے کی پناہ اور مدد مجھے حاصل ہوتی تو آج مجھے مہمانوں کی وجہ سے یہ ذلت و رسوائی نہ ہوتی، میں ان بد قماشوں سے نمٹ لیتا اور مہمانوں کی حفاظت کر لیتا۔ حضرت لوط (عليه السلام) کی یہ آرزو اللہ تعالٰی پر توکل کے منافی نہیں ہے۔ بلکہ ظاہری اسباب کے مطابق ہے۔ اور توکل علی اللہ کا صحیح مفہوم و مطلب بھی یہی ہے۔ کہ پہلے تمام ظاہر اسباب و وسائل بروئے کار لائے جائیں اور پھر اللہ پر توکل کیا جائے۔ یہ توکل کا نہایت غلط مفہوم ہے کہ ہاتھ پیر توڑ کر بیٹھ جاؤ اور کہو کہ ہمارا بھروسہ اللہ پر ہے۔ اس لیے حضرت لوط (عليه السلام) نے جو کچھ کہا، ظاہر اسباب کے اعتبار سے بالکل بجا کہا۔ جس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اللہ کا پیغمبر جس طرح عالم الغیب نہیں ہوتا اسی طرح مختار کل بھی نہیں ہوتا، (جیسا کہ آج کل لوگوں نے یہ عقیدہ گھڑ لیا ہے) اگر نبی دنیا میں اختیارات سے بہرہ ور ہوتے تو یقییناً حضرت لوط (عليه السلام) اپنی بےبسی کا اور اس آرزو کا اظہار نہ کرتے جو انہوں نے مذکورہ الفاظ میں کیا۔
(1) جب فرشتوں نے حضرت لوط (عليه السلام) کی بےبسی اور ان کی قوم کی سرکشی کا مشاہدہ کر لیا تو بولے، اے لوط! گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، ہم تک تو کیا، اب یہ تجھ تک بھی نہیں پہنچ سکتے۔ اب رات کے ایک حصے میں، سوائے بیوی کے، اپنے گھر والوں کو لے کر یہاں سے نکل جا! صبح ہوتے ہی اس بستی کو ہلاک کر دیا جائے گا۔