クルアーンの対訳 - ウルドゥー語対訳 - Muhammad Gunakry

ページ番号:close

external-link copy
28 : 54

وَنَبِّئْهُمْ اَنَّ الْمَآءَ قِسْمَةٌ بَیْنَهُمْ ۚ— كُلُّ شِرْبٍ مُّحْتَضَرٌ ۟

ہاں انہیں خبر کر دے کہ پانی ان میں تقسیم شده ہے(1) ، ہرایک اپنی باری پر حاضر ہوگا.(2) info

(1) یعنی ایک دن اونٹنی کےپانی پینےکےلیے اور ایک دن قوم کے پانی کے لیے۔
(2) مطلب ہےہر ایک کا حصہ اس کےساتھ ہی خاص ہے جواپنی اپنی باری پر حاضرہو کر وصول کرے دوسرا اس روز نہ آئے شُرْبٌ ، حصہ آب۔

التفاسير:

external-link copy
29 : 54

فَنَادَوْا صَاحِبَهُمْ فَتَعَاطٰی فَعَقَرَ ۟

انہوں نے اپنے ساتھی کو آواز دی(1) جس نے (اونٹنی پر) وار کیا(2) اور (اس کی) کوچیں کاٹ دیں. info

(1) یعنی جس کو انہوں نے اونٹنی کو قتل کرنے کےلیے آمادہ کیا تھا، جس کا نام قدار بن سالف بتلایا جاتاہے، اس کو پکارا کہ وہ اپنا کام کرے۔
(2) یا تلوار یا اونٹنی کو پکڑا اوراس کی ٹانگیں کاٹ دیں اور پھر اسے ذبح کردیا۔ بعض نے فَتَعَاطَى کے معنی فَجَسَرَ کیے ہیں۔ پس اس نے جسارت کی۔

التفاسير:

external-link copy
30 : 54

فَكَیْفَ كَانَ عَذَابِیْ وَنُذُرِ ۟

پس کیونکر ہوا میرا عذاب اور میرا ڈرانا. info
التفاسير:

external-link copy
31 : 54

اِنَّاۤ اَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ صَیْحَةً وَّاحِدَةً فَكَانُوْا كَهَشِیْمِ الْمُحْتَظِرِ ۟

ہم نے ان پر ایک چیﺦ بھیجی پس ایسے ہو گئے جیسے باڑ بنانے والے کی روندی ہوئی گھاس.(1) info

(1) حَظِيرَةٌ، مَحْظُورَةٌ بمعنی محظورۃ، باڑ جو خشک جھاڑیوں اور لکڑیوں سے جانورونکی حفاظت کےلیے بنائی جاتی ہے۔ مُحْتَظِرٌ ، اسم فاعل ہےصَاحِبُ الحْظَِيرَةِ هَشِيمٌ خشک گھاس یا کٹی ہوئی خشک کھیتی یعنی جس طرح ایک باڑ بنانے والی کی خشک لکڑیاں اور جھاڑیاں مسلسل روندے جانے کی وجہ سے چورا چورا ہو جاتی ہیں وہ بھی اس باڑکی مانند ہمارے عذاب سے چورا ہو گئے۔

التفاسير:

external-link copy
32 : 54

وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ ۟

اور ہم نے نصیحت کے لیے قرآن کو آسان کر دیا ہے پس کیا ہے کوئی جو نصیحت قبول کرے. info
التفاسير:

external-link copy
33 : 54

كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوْطٍۭ بِالنُّذُرِ ۟

قوم لوط نے بھی ڈرانے والوں کی تکذیب کی. info
التفاسير:

external-link copy
34 : 54

اِنَّاۤ اَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ حَاصِبًا اِلَّاۤ اٰلَ لُوْطٍ ؕ— نَجَّیْنٰهُمْ بِسَحَرٍ ۟ۙ

بیشک ہم نے ان پر پتھر برسانے والی ہوا بھیجی(1) سوائے لوط (علیہ السلام) کے گھر والوں کے، انہیں ہم نے سحر کے وقت نجات دے دی.(2) info

(1) یعنی ایسی ہوا بھیجی جو ان کو کنکریاں مارتی تھی۔ یعنی ان کی بستیوں کو ان پر الٹا دیا گیا، اس طرح کہ ان کا اوپروالا حصہ نیچے اور نیچےوالا حصہ اوپر،اس کے بعد ان پر کھنگر پتھروں کی بارش ہوئی جیسا کہ سورۂ ہود وغیرہ میں تفصیل گزری۔
(2) آل لوط سےمراد خود حضرت لوط (عليه السلام) اور ان پر ایمان لانے والےلوگ ہیں، جن میں حضرت لوط (عليه السلام) کی بیوی شامل نہیں، کیونکہ وہ مومنہ نہیں تھی، البتہ حضرت لوط (عليه السلام) کی دو بیٹیاں ان کے ساتھ تھیں، جن کو نجات دی گئی۔ سحر سے مراد رات کا آخری حصہ ہے۔

التفاسير:

external-link copy
35 : 54

نِّعْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا ؕ— كَذٰلِكَ نَجْزِیْ مَنْ شَكَرَ ۟

اپنے احسان سے(1) ہر ہر شکر گزار کو ہم اسی طرح بدلہ دیتے ہیں. info

(1) یعنی ان کو عذاب سے بچانا، یہ ہماری رحمت اور احسان تھا جو ان پر ہوا۔

التفاسير:

external-link copy
36 : 54

وَلَقَدْ اَنْذَرَهُمْ بَطْشَتَنَا فَتَمَارَوْا بِالنُّذُرِ ۟

یقیناً (لوط علیہ السلام) نے انہیں ہماری پکڑ سے ڈرایا(1) تھا لیکن انہوں نے ڈرانے والوں کے بارے میں (شک وشبہ اور) جھگڑا کیا.(2) info

(1) یعنی عذاب آنے سے پہلے، ہماری سخت گرفت سے ڈرایا تھا۔
(2) لیکن انہوں نے اس کی پروا نہیں کی بلکہ شک کیا اور ڈرانے والوں سے جھگڑتے رہے۔

التفاسير:

external-link copy
37 : 54

وَلَقَدْ رَاوَدُوْهُ عَنْ ضَیْفِهٖ فَطَمَسْنَاۤ اَعْیُنَهُمْ فَذُوْقُوْا عَذَابِیْ وَنُذُرِ ۟

اور ان (لوط علیہ السلام) کو ان کے مہمانوں کے بارے میں پھسلایا(1) پس ہم نے ان کی آنکھیں اندھی کردیں(2)، (اور کہہ دیا) میرا عذاب اور میرا ڈرانا چکھو. info

(1) یا بہلایا یا مانگا لوط (عليه السلام) سے ان کے مہمانوں کو۔ مطلب یہ ہے کہ جب لوط (عليه السلام) کی قوم کو معلوم ہوا کہ چند خوبر ونوجوان لوط (عليه السلام) کے ہاں آئے ہیں (جو دراصل فرشتے تھے اور ان کو عذاب دینے کے لیے ہی آئے تھے) تو انہوں نے حضرت لوط (عليه السلام) سے مطالبہ کیا کہ ان مہمانوں کو ہمارے سپرد کردیں تاکہ ہم اپنے بگڑے ہوئے ذوق کی ان سے تسکین کریں۔
(2) کہتے ہیں کہ یہ فرشتے جبرائیل میکائل اور اسرافیل (عليه السلام) تھے۔ جب انہوں نے بدفعلی کی نیت سے فرشتوں (مہمانوں) کو لینے پر زیادہ اصرار کیاتو جبرائیل (عليه السلام) نے اپنے پر کا ایک حصہ انہیں مارا، جس سے ان کی آنکھوں کے ڈھیلےہی باہر نکل آئے، بعض کہتے ہیں ، صرف آنکھوں کی بصارت زائل ہوئی، بہرحال عذاب عام سے پہلے یہ عذاب خاص ان لوگوں کوپہنچا جو حضرت لوط (عليه السلام) کے پاس بدنیتی سے آئے تھے۔ اور آنکھوں سے یا بینائی سے محروم ہو کر گھر پہنچے۔ اور پھر صبح اس عذاب عام میں تباہ ہو گئے جو پوری قوم کے لیے آیا (تفسیر ابن کثیر)۔

التفاسير:

external-link copy
38 : 54

وَلَقَدْ صَبَّحَهُمْ بُكْرَةً عَذَابٌ مُّسْتَقِرٌّ ۟ۚ

اور یقینی بات ہے کہ انہیں صبح سویرے ہی ایک جگہ پکڑنے والے مقرره عذاب نے غارت کر دیا.(1) info

- یعنی صبح ان کے پاس عذاب مستقر آ گیا۔ مستقر کے معنی، ان پرنازل ہونے والا، جو انہیں ہلاک کیے بغیر نہ چھوڑے۔

التفاسير:

external-link copy
39 : 54

فَذُوْقُوْا عَذَابِیْ وَنُذُرِ ۟

پس میرے عذاب اور میرے ڈراوے کا مزه چکھو. info
التفاسير:

external-link copy
40 : 54

وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ ۟۠

اور یقیناً ہم نے قرآن کو پند ووعﻆ کے لیے آسان کر دیا ہے(1) ۔ پس کیا کوئی ہے نصحیت پکڑنے واﻻ. info

(1) تیسیر قرآن کا اس سورت میں بار بار ذکر کرنے سے مقصود یہ ہے کہ یہ قرآن اور اس کے فہم وحفظ کو آسان کر دینا، اللہ کا احسان عظیم ہے، اس کے شکر سے انسان کو کبھی غافل نہیں ہوناچاہیے۔

التفاسير:

external-link copy
41 : 54

وَلَقَدْ جَآءَ اٰلَ فِرْعَوْنَ النُّذُرُ ۟ۚ

اور فرعونیوں کے پاس بھی ڈرانے والے آئے.(1) info

(1) نُذُرٌ، نَذِيرٌ(ڈرانے والا) کی جمع ہے یا بمعنی إِنْذَارٍ مصدر ہے (فتح القدیر)۔

التفاسير:

external-link copy
42 : 54

كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا كُلِّهَا فَاَخَذْنٰهُمْ اَخْذَ عَزِیْزٍ مُّقْتَدِرٍ ۟

انہوں نے ہماری تمام نشانیاں جھٹلائیں(1) پس ہم نے انہیں بڑے غالب قوی پکڑنے والے کی طرح پکڑ لیا.(2) info

(1) وہ نشانیاں، جن کے ذریعے سے حضرت موسیٰ (عليه السلام) نے فرعون اور فرعونیوں کو ڈرایا۔ یہ نو نشانیاں تھیں جن کا ذکر پہلے گزرچکا ہے۔
(2) یعنی ان کو ہلاک کر دیا، کیونکہ وہ عذاب، ایسے غالب کی گرفت تھی جو انتقام لینے پر قادر ہے، اس کی گرفت کے بعد کوئی بچ نہیں سکتا۔

التفاسير:

external-link copy
43 : 54

اَكُفَّارُكُمْ خَیْرٌ مِّنْ اُولٰٓىِٕكُمْ اَمْ لَكُمْ بَرَآءَةٌ فِی الزُّبُرِ ۟ۚ

(اے قریشیو!) کیا تمہارے کافر ان کافروں سے کچھ بہتر ہیں(1) ؟ یا تمہارے لیے اگلی کتابوں میں چھٹکارا لکھا ہوا ہے؟(2) info

(1) یہ استفہام انکار یعنی نفی کے لیے ہے۔ یعنی اے اہل عرب ! تمہارے کافر، گزشتہ کافروں سے، بہتر نہیں ہیں، جب وہ اپنے کفر کی وجہ سے ہلاک کر دیئے گئے، تو تم جب کہ تم ان سے بدتر ہو، عذاب سے سلامتی کی امید کیوں رکھتے ہو؟
(2) زُبُرٌ سے مراد گزشتہ انبیا پرنازل شدہ کتابیں ہیں۔ یعنی کیا تمہاری بابت کتب منزلہ میں صراحت کر دی گئی ہے کہ یہ قریش یا عرب،جو مرضی کرتے رہیں، ان پر غالب نہیں آئے گا۔

التفاسير:

external-link copy
44 : 54

اَمْ یَقُوْلُوْنَ نَحْنُ جَمِیْعٌ مُّنْتَصِرٌ ۟

یا یہ کہتے ہیں کہ ہم غلبہ پانے والی جماعت ہیں.(1) info

(1) تعداد کی کثرت اور وسائل قوت کی وجہ سے، کسی اور کا ہم پر غالب آنے کا امکان نہیں۔ یا مطلب ہے کہ ہمارا معاملہ مجتمع ہے، ہم دشمن سے انتقام لینے پرقادر ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
45 : 54

سَیُهْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ ۟

عنقریب یہ جماعت شکست دی جائےگی اور پیٹھ دے کر بھاگے گی.(1) info

(1) اللہ نے ان کے زعم باطل کی تردید فرمائی، جماعت سے مراد کفار مکہ ہیں۔ چنانچہ بدر میں انہیں شکست ہوئی اور یہ پیٹھ دےکربھاگے، روسائے شرک اور اساطین کفر ہلاک کردیئے گئے۔ جنگ بدر کے موقعے پرجب نبی ﹲ نہایت الحاح وزاری سے اپنے خیمے میں مصروف دعا تھےتو حضرت ابوبکر (رضي الله عنه) نے فرمایا «حَسْبُكَ يَا رَسُولَ اللهِ! أَلْحَحْتَ عَلَى رَبِّكَ»۔ بس کیجئے! اللہ کے رسول ! آپ نے رب کے سامنے بہت الحاح وزاری کرلی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیمے سے باہر تشریف لائے تو آپ کی زبان مبارک پر یہی آیت تھی۔ (البخاري، تفسير سورة اقتربت الساعة)۔

التفاسير:

external-link copy
46 : 54

بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ اَدْهٰی وَاَمَرُّ ۟

بلکہ قیامت کی گھڑی ان کے وعدے کے وقت ہے اور قیامت بڑی سخت اور کڑوی چیز ہے.(1) info

(1) أَدْهَى دَهَاءٌ سے ہے، سخت رسوا کرنے والا أَمَرُّ مَرَارَةٌ سے ہے، نہایت کڑوا۔ یعنی دنیا میں جو یہ قتل کیے گئے، قیدی بنائے گئے وغیرہ، یہ ان کی آخری سزا نہیں ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت سزائیں ان کو قیامت والے دن دی جائیں گی جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
47 : 54

اِنَّ الْمُجْرِمِیْنَ فِیْ ضَلٰلٍ وَّسُعُرٍ ۟ۘ

بیشک گناه گار گمراہی میں اور عذاب میں ہیں. info
التفاسير:

external-link copy
48 : 54

یَوْمَ یُسْحَبُوْنَ فِی النَّارِ عَلٰی وُجُوْهِهِمْ ؕ— ذُوْقُوْا مَسَّ سَقَرَ ۟

جس دن وه اپنے منھ کے بل آگ میں گھسیٹے جائیں گے (اوران سے کہا جائے گا) دوزخ کی آگ لگنے کے مزے چکھو.(1) info

(1) سَقَرٌ بھی جہنم کا نام ہے یعنی اس کی حرارت اور شدت عذاب کا مزہ چکھو۔

التفاسير:

external-link copy
49 : 54

اِنَّا كُلَّ شَیْءٍ خَلَقْنٰهُ بِقَدَرٍ ۟

بیشک ہم نے ہر چیز کو ایک (مقرره) اندازے پر پیدا کیا ہے.(1) info

(1) ائمہ سنت نے اس آیت اور اس جیسی دیگر آیات سے استدلال کرتے ہوئے تقدیر الٰہی کااثﺒات کیا ہے جس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کومخلوقات کے پیداکرنے سے پہلے ہی سب کا علم تھا اور اس نے سب کی تقدیر لکھ دی ہے اور فرقہ قدریہ کی تردید کی ہے جس کا ظہور عہد صحابہ کے آخرمیں ہوا۔ (ابن کثیر)۔

التفاسير: