クルアーンの対訳 - ウルドゥー語対訳 - Muhammad Gunakry

ページ番号:close

external-link copy
77 : 37

وَجَعَلْنَا ذُرِّیَّتَهٗ هُمُ الْبٰقِیْنَ ۟ؗۖ

اور اس کی اوﻻد کو ہم نے باقی رہنے والی بنا دی.(1) info

(1) اکثر مفسرین کے قول کے مطابق حضرت نوح (عليه السلام) کے تین بیٹے تھے۔ حام، سام، یافث۔ انہی سے بعد کی نسل انسانی چلی۔ اسی لئے حضرت نوح (عليه السلام) کو آدم ثانی بھی کہا جاتا ہے یعنی آدم (عليه السلام) کی طرح، آدم (عليه السلام) کے بعد یہ دوسرے ابوالبشر ہیں۔ سام کی نسل سے عرب، فارس، روم اور یہود ونصاریٰ ہیں۔ حام کی نسل سےسوڈان (مشرق سے مغرب تک) یعنی سندھ، ہند، نوب، زنج، حبشہ قبط اور بربر وغیرہم ہیں اور یافث کی نسل سے صقالبہ، ترک، خزر اور یاجوج ماجوج وغیرہم ہیں۔ (فتح القدیر) وَاللهُ أَعْلَمُ۔

التفاسير:

external-link copy
78 : 37

وَتَرَكْنَا عَلَیْهِ فِی الْاٰخِرِیْنَ ۟ؗۖ

اور ہم نے اس کا (ذکر خیر) پچھلوں میں باقی رکھا.(1) info

(1) یعنی قیامت تک آنے والے اہل ایمان میں ہم نے نوح (عليه السلام) کا ذکر خیر باقی چھوڑ دیا ہے اور وہ سب نوح (عليه السلام) پر سلام بھیجتے ہیں اور بھیجتے رہیں گے۔

التفاسير:

external-link copy
79 : 37

سَلٰمٌ عَلٰی نُوْحٍ فِی الْعٰلَمِیْنَ ۟

نوح (علیہ السلام) پر تمام جہانوں میں سلام ہو info
التفاسير:

external-link copy
80 : 37

اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ ۟

ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں.(1) info

(1) یعنی جس طرح نوح (عليه السلام) کی دعا قبول کرکے، ان کی ذریت کو باقی رکھ اور پچھلوں میں ان کا ذکر خیر باقی رکھ کے ہم نے نوح (عليه السلام) کو عزت وتکریم بخشی۔ اسی طرح جو بھی اپنے اقوال وافعال میں محسن اور اس باب میں راسخ اور معروف ہوگا، اس کے ساتھ بھی ہم ایسا معاملہ کریں گے۔

التفاسير:

external-link copy
81 : 37

اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ ۟

وه ہمارے ایمان والے بندوں میں سے تھا. info
التفاسير:

external-link copy
82 : 37

ثُمَّ اَغْرَقْنَا الْاٰخَرِیْنَ ۟

پھر ہم نے دوسروں کو ڈبو دیا. info
التفاسير:

external-link copy
83 : 37

وَاِنَّ مِنْ شِیْعَتِهٖ لَاِبْرٰهِیْمَ ۟ۘ

اور اس (نوح علیہ السلام کی) تابعداری کرنے والوں میں سے (ہی) ابراہیم (علیہ السلام بھی) تھے.(1) info

(1) شِيعَةٌ کے معنی گروہ اور پیروکار کے ہیں۔ یعنی ابراہیم (عليه السلام) بھی اہل دین واہل توحید کے اسی گروہ سے ہیں جن کو نوح (عليه السلام) ہی کی طرح انابت الی اللہ کی توفیق خاص نصیب ہوئی۔

التفاسير:

external-link copy
84 : 37

اِذْ جَآءَ رَبَّهٗ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ ۟

جبکہ اپنے رب کے پاس بے عیب دل ﻻئے. info
التفاسير:

external-link copy
85 : 37

اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ وَقَوْمِهٖ مَاذَا تَعْبُدُوْنَ ۟ۚ

انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا کہ تم کیا پوج رہے ہو؟ info
التفاسير:

external-link copy
86 : 37

اَىِٕفْكًا اٰلِهَةً دُوْنَ اللّٰهِ تُرِیْدُوْنَ ۟ؕ

کیا تم اللہ کے سوا گھڑے ہوئے معبود چاہتے ہو؟(1) info

(1) یعنی اپنی طرف سے ہی جھوٹ گھڑ کے کہ یہ معبود ہیں، تم اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کرتے ہو، دراں حالیکہ یہ پتھر اور مورتیاں ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
87 : 37

فَمَا ظَنُّكُمْ بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۟

تو یہ (بتلاؤ کہ) تم نے رب العالمین کو کیا سمجھ رکھا ہے؟(1) info

- یعنی اتنی قبیح حرکت کرنے کے باوجودکیا وہ تم پر ناراض نہیں ہوگا اور تمہیں سزا نہیں دے گا۔

التفاسير:

external-link copy
88 : 37

فَنَظَرَ نَظْرَةً فِی النُّجُوْمِ ۟ۙ

اب ابراہیم (علیہ السلام) نے ایک نگاه ستاروں کی طرف اٹھائی. info
التفاسير:

external-link copy
89 : 37

فَقَالَ اِنِّیْ سَقِیْمٌ ۟

اور کہا میں تو بیمار ہوں.(1) info

(1) آسمان پر غور وفکر کے لئے دیکھا جیسا کہ بعض لوگ ایسا کرتے ہیں۔ یا اپنی قوم کے لوگوں کو مغالطے میں ڈالنے کے لئے ایسا کیا، جو کہ ستاروں کی گردش کو حوادث زمانہ میں موثر مانتے تھے۔ یہ واقعہ اس وقت کا ہے کہ جب ان کی قوم کا وہ دن آیا، جسے وہ باہر جا کر بطور عید اور قومی تہوار منایا کرتی تھی۔ قوم نے حضرت ابراہیم (عليه السلام) کو بھی ساتھ چلنے کی دعوت دی۔ لیکن ابراہیم (عليه السلام) تنہائی اور موقعے کی تلاش میں تھے، تاکہ ان کے بتوں کا تیاپانچہ کیا جا سکے۔ چنانچہ انہوں نے یہ موقع غنیمت جانا کہ کل ساری قوم باہر میلے میں چلی جائے گی تو میں اپنا منصوبہ بروئے کار لے آؤں گا۔ اور کہہ دیا کہ میں بیمار ہوں یا آسمانوں کی گردش بتلاتی ہے کہ میں بیمار ہونے والا ہوں۔ یہ بات بالکل جھوٹی تو نہیں تھی، ہر انسان کچھ نہ کچھ بیمار ہوتا ہی ہے، علاوہ ازیں قوم کا شرک حضرت ابراہیم (عليه السلام) کے دل کا ایک مستقل روگ تھا، جسے دیکھ کر وہ کڑھتے رہتے تھے۔ یوں حضرت ابراہیم (عليه السلام) نے تعریض اور توریے کا اظہار فرمایا جو اگرچہ جھوٹ نہیں ہوتا لیکن مخاطب اس کے متبادر مفہوم سے مغالطے کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس لئے حدیث ثلاث کذبات میں اسے جھوٹ سے تعبیر کیا گیا ہے، جیسا کہ اس کی ضروری تفصیل سورۂ انبیاء: 63 میں گزر چکی ہے۔

التفاسير:

external-link copy
90 : 37

فَتَوَلَّوْا عَنْهُ مُدْبِرِیْنَ ۟

اس پر وه سب اس سے منھ موڑے ہوئے واپس چلے گئے. info
التفاسير:

external-link copy
91 : 37

فَرَاغَ اِلٰۤی اٰلِهَتِهِمْ فَقَالَ اَلَا تَاْكُلُوْنَ ۟ۚ

آپ (چﭗ چپاتے) ان کے معبودوں کے پاس گئے اور فرمانے لگے تم کھاتے کیوں نہیں؟(1) info

(1) یعنی جو حلویات بطور تبرک وہاں پڑی ہوئی تھیں، وہ انہیں کھانے کے لئے پیش کیں، جو ظاہر بات ہے انہیں نہ کھانی تھیں نہ کھائیں بلکہ وہ جواب دینے پر بھی قادر نہ تھے، اس لئے جواب بھی نہیں دیا۔

التفاسير:

external-link copy
92 : 37

مَا لَكُمْ لَا تَنْطِقُوْنَ ۟

تمہیں کیا ہو گیا کہ بات تک نہیں کرتے ہو. info
التفاسير:

external-link copy
93 : 37

فَرَاغَ عَلَیْهِمْ ضَرْبًا بِالْیَمِیْنِ ۟

پھر تو (پوری قوت کے ساتھ) دائیں ہاتھ سے انہیں مارنے پر پل پڑے.(1) info

(1) رَاغَ کے معنی ہیں، مَالَ، ذَهَبَ، أَقْبَلَ، یہ سب متقارب المعنی ہیں، ان کی طرف متوجہ ہوئے ضَرْبٌ بِالْيَمِينِ کا مطلب ہے ان کو زور سے مار مار کر توڑ ڈالنا۔

التفاسير:

external-link copy
94 : 37

فَاَقْبَلُوْۤا اِلَیْهِ یَزِفُّوْنَ ۟

وه (بت پرست) دوڑے بھاگے آپ کی طرف متوجہ(1) ہوئے. info

(1) يَزِفُّونَ، يُسْرِعُونَ، یسرعون کے معنی میں ہے، دوڑتے ہوئے آئے۔ یعنی جب میلے سے آئے تو دیکھا کہ ان کے معبود ٹوٹے پھوٹے پڑے ہیں تو فوراً ان کا ذہن ابراہیم (عليه السلام) کی طرف گیا، کہ یہ کام اسی نے کیا ہوگا،جیسا کہ سورۂ انبیاء میں تفصیل گزر چکی ہے چنانچہ انہیں پکڑ کر عوام کی عدالت میں لے آئے۔ وہاں حضرت ابراہیم (عليه السلام) کو اس بات کا موقع مل گیا کہ وہ ان پر ان کی بے عقلی اور ان کے معبودوں کی بے اختیاری واضح کریں۔

التفاسير:

external-link copy
95 : 37

قَالَ اَتَعْبُدُوْنَ مَا تَنْحِتُوْنَ ۟ۙ

تو آپ نے فرمایا تم انہیں پوجتے ہو جنہیں (خود) تم تراشتے ہو. info
التفاسير:

external-link copy
96 : 37

وَاللّٰهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ ۟

حاﻻنکہ تمہیں اور تمہاری بنائی ہوئی چیزوں کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے.(1) info

(1) یعنی وہ مورتیاں اور تصویریں بھی جنہیں تم اپنے ہاتھوں سے بناتے اور انہیں معبود سمجھتے ہو، یا مطلق تمہارا عمل جو بھی تم کرتے ہو، ان کا خالق بھی اللہ ہے۔ اس سے واضح ہے کہ بندوں کے افعال کا خالق اللہ ہی ہے، جیسا کہ اہل سنت کا عقیدہ ہے۔

التفاسير:

external-link copy
97 : 37

قَالُوا ابْنُوْا لَهٗ بُنْیَانًا فَاَلْقُوْهُ فِی الْجَحِیْمِ ۟

وه کہنے لگے اس کے لئے ایک مکان بناؤ اور اس (دہکتی ہوئی) آگ میں اسے ڈال دو. info
التفاسير:

external-link copy
98 : 37

فَاَرَادُوْا بِهٖ كَیْدًا فَجَعَلْنٰهُمُ الْاَسْفَلِیْنَ ۟

انہوں نے تو اس (ابراہیم علیہ السلام) کے ساتھ مکر کرنا چاہا لیکن ہم نے انہی کو نیچا کر دیا.(1) info

(1) یعنی آگ کو گلزار بنا کر ان کے مکرو حیلے کو ناکام بنا دیا، پس پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندوں کی چارہ سازی فرماتا ہے، اور آزمائش کو عطا میں اور شر کو خیر میں بدل دیتا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
99 : 37

وَقَالَ اِنِّیْ ذَاهِبٌ اِلٰی رَبِّیْ سَیَهْدِیْنِ ۟

اور اس (ابراہیم علیہ السلام) نے کہا میں تو ہجرت کر کے اپنے پروردگار کی طرف جانے واﻻ ہوں(1) ۔ وه ضرور میری رہنمائی کرے گا. info

(1) حضرت ابراہیم (عليه السلام) کا یہ واقعہ بابل (عراق) میں پیش آیا، بالآخر یہاں سے ہجرت کی اور شام چلے گئے اور وہاں جاکر اولاد کے لئےدعا کی۔(فتح القدیر)۔

التفاسير:

external-link copy
100 : 37

رَبِّ هَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ ۟

اے میرے رب! مجھے نیک بخت اوﻻد عطا فرما. info
التفاسير:

external-link copy
101 : 37

فَبَشَّرْنٰهُ بِغُلٰمٍ حَلِیْمٍ ۟

تو ہم نے اسے ایک بردبار بچے کی بشارت دی.(1) info

(1) حَلِيمٍ کہہ کر اشارہ فرما دیا کہ بچہ بڑا ہو کر بردبار ہوگا۔

التفاسير:

external-link copy
102 : 37

فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیْۤ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْۤ اَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰی ؕ— قَالَ یٰۤاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ؗ— سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ ۟

پھر جب وه (بچہ) اتنی عمر کو پہنچا کہ اس کے ساتھ چلے پھرے(1) ، تو اس (ابراہیم علیہ السلام) نے کہا میرے پیارے بچے! میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ اب تو بتا کہ تیری کیا رائے ہے(2)؟ بیٹے نے جواب دیا کہ ابا! جو حکم ہوا ہے اسے بجا ﻻئیے انشاءاللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے. info

(1) یعنی دوڑ دھوپ کےلائق ہوگیا یا بلوغت کے قریب پہنچ گیا، بعض کہتے ہیں کہ اس وقت یہ بچہ 13 سال کا تھا۔
(2) پیغمبر کا خواب، وحی اور حکم الٰہی ہی ہوتا ہے۔جس پر عمل ضروری ہوتا ہے۔ بیٹے سے مشورے کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ بیٹا بھی امتثال امر الہٰی کے لئے کس حد تک تیار ہے۔

التفاسير: