(1) لِينَةٍ، کھجور کی ایک قسم ہے، جیسے عجوہ، برنی وغیرہ کھجوروں کی قسمیں ہیں۔ یا عام کھجور کا درخت مراد ہے۔ دوران محاصرہ نبی (صلى الله عليه وسلم) کے حکم سے مسلمانوں نے بنو نضیر کے کھجوروں کے درختوں کو آگ لگا دی، کچھ کاٹ ڈالے اور کچھ چھوڑ دیئے۔ جس سے مقصود دشمن کی آڑ کو ختم کرنا۔ اور یہ واضح کرنا تھا کہ اب مسلمان تم پر غالب ہیں، وہ تمہارے اموال وجائیداد میں جس طرح چاہیں، تصرف کرنے پر قادر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بھی مسلمانوں کی اس حکمت عملی کی تصویب فرمائی اور اسے یہود کی رسوائی کا ذریعہ قرار دیا۔
(1) بنو نضیر کا یہ علاقہ، جو مسلمانوں کے قبضے میں آیا، مدینے سے تین چار میل کے فاصلے پر تھا، یعنی مسلمانوں کو اس کے لیے لمبا سفر کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ یعنی اس میں مسلمانوں کو اونٹ اور گھوڑے دوڑانے نہیں پڑے۔ اسی طرح لڑنے کی بھی نوبت نہیں آئی اور صلح کے ذریعے سے یہ علاقہ فتح ہوگیا، یعنی اللہ نے اپنے رسول (صلى الله عليه وسلم) کو بغیر لڑے ان پر غالب فرما دیا۔ اس لیے یہاں سے حاصل ہونے والے مال کو فَيْء قرار دیا گیا، جس کا حکم غنیمت سے مختلف ہے۔ گویا وہ مال فَيْءٌ ہے، جو دشمن بغیر لڑے چھوڑ کر بھاگ جائے یا صلح کے ذریعے سے حاصل ہو۔ اور جو مال باقاعدہ لڑائی اور غلبہ حاصل کرنے کے بعد ملے، وہ غنیمت ہے۔
(1) اس میں مال فیء کا ایک صحیح ترین مصرف بیان کیا گیا ہے۔ اور ساتھ ہی مہاجرین کی فضیلت، ان کے اخلاص اور ان کی راست بازی کی وضاحت ہے، جس کے بعد ان کے ایمان میں شک کرنا، گویا قرآن کا انکار ہے۔
(1) ان سے انصار مدینہ مراد ہیں، جو مہاجرین کے مدینہ آنے سے قبل مدینے میں آباد تھے اور مہاجرین کے ہجرت کرکے آنے سے قبل، ایمان بھی ان کے دلوں میں قرار پکڑ چکا تھا۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ مہاجرین کے ایمان لانے سے پہلے ، یہ انصار ایمان لاچکے تھے، کیونکہ ان کی اکثریت مہاجرین کے ایمان لانے کے بعد ایمان لائی ہے۔ یعنی مِنْ قَبْلِهِمْ کا مطلب مِنْ قَبْلِ هِجْرَتِهِمْ ہے۔ اور دَارٌ سے دَارُ الْهِجْرَةِ یعنی مدینہ مراد ہے۔
(2) یعنی مہاجرین کو اللہ کا رسول (صلى الله عليه وسلم) جو کچھ دے، اس پر حسد اور انقباض محسوس نہیں کرتے ، جیسے مال فیء کا اولین مستحق بھی ان کو قرار دیا گیا۔ لیکن انصار نے برا نہیں منایا۔
(3) یعنی اپنے مقابلے میں مہاجرین کی ضرورت کو ترجیح دیتے ہیں۔ خود بھوکا رہتے ہیں لیکن مہاجرین کو کھلاتے ہیں۔ جیسے حدیث میں ایک واقعہ آتا ہے کہ رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کے پاس ایک مہمان آیا، لیکن آپ (صلى الله عليه وسلم) کے گھر میں کچھ نہ تھا، چنانچہ ایک انصاری اسے اپنے گھر لے گیا، گھر جاکر بیوی کو بتلایا تو بیوی نے کہا کہ گھر میں تو صرف بچوں کی خوراک ہے۔ انہوں نے باہم مشورہ کیا کہ بچوں کو تو آج بھوکا سلا دیں اور ہم خود بھی ایسے ہی کچھ کھائے بغیر سو جائیں گے۔ البتہ مہمان کو کھلاتے وقت چراغ بجھا دینا تاکہ اسے ہماری بابت علم نہ ہو کہ ہم اس کے ساتھ کھانا نہیں کھا رہے ہیں۔ صبح جب وہ صحابی رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ (صلى الله عليه وسلم) نے ان سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تم دونوں میاں بیوی کی شان میں یہ آیت نازل فرمائی ہے۔ وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ الآیہ (صحيح بخاري ، تفسير سورة الحشر) ان کے ایثار کی یہ بھی ایک نہایت عجیب مثال ہے کہ ایک انصاری کے پاس دو بیویاں تھیں تو اس نے ایک بیوی کو اس لیے طلاق دینے کی پیشکش کی کہ عدت گزرنے کے بعد اس سے اس کا دوسرا مہاجر بھائی نکاح کرلے۔ (صحيح البخاري ، كتاب النكاح)۔
(4) حدیث میں ہے ”شُح سے بچو، اس حرص نفس نے ہی پہلے لوگوں کو ہلاک کیا، اسی نے انہیں خون ریزی پر آمادہ کیا اور انہوں نے محارم کو حلال کر لیا“۔ (صحيح مسلم ، كتاب البر ، تحريم الظلم)