Traduzione dei Significati del Sacro Corano - Traduzione urdu - Muhammad Gunakry

Numero di pagina:close

external-link copy
58 : 5

وَاِذَا نَادَیْتُمْ اِلَی الصَّلٰوةِ اتَّخَذُوْهَا هُزُوًا وَّلَعِبًا ؕ— ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَعْقِلُوْنَ ۟

اور جب تم نماز کے لئے پکارتے ہو تو وہ اسے ہنسی کھیل ٹھرا لیتے ہیں(1) ۔ یہ اس واسطے کہ بےعقل ہیں۔ info

(1) حدیث میں آتا ہے کہ جب شیطان اذان کی آواز سنتا ہے تو گوز مارتا ہوا بھاگ جاتا ہے، جب اذان ختم ہو جاتی ہے تو پھر آ جاتا ہے، تکبیر کے وقت پھر پیٹھ پھیر کر چل دیتا ہے، جب تکبیر ختم ہو جاتی ہے تو پھر آ کر نمازیوں کے دلوں میں وسوسے پیدا کرتا ہے۔ الحدیث (صحيح بخاري- كتاب الأذان، صحيح مسلم، كتاب الصلاة) شیطان ہی کی طرح شیطان کے پیروکاروں کو اذان کی آواز اچھی نہیں لگتی، اس لئے وہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی قرآن کی طرح دین کا ماخذ اور اسی طرح حجت ہے۔ کیونکہ قرآن نے نماز کے لئے ”ندا“ کا تو ذکر کیا ہے لیکن یہ ”ندا“ کس طرح دی جائے گی؟ اس کے الفاظ کیا ہوں گے؟ یہ قرآن کریم میں کہیں نہیں ہے۔ یہ چیزیں حدیث سے ثابت ہیں، جو اس کی حجیت اور ماخذ دین ہونے پر دلیل ہیں۔ حجیت حدیث کا مطلب: حدیث کے ماخذ دین اور حجت شرعیہ ہونے کا مطلب ہے، کہ جس طرح قرآن کریم کی نص سے ثابت ہونے والے احکام وفرائض پر عمل کرنا ضروری اور ان کا انکار کفر ہے۔ اسی طرح حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہونے والے احکام کا ماننا بھی فرض، ان پر عمل کرنا ضروری اور ان کا انکار کفر ہے۔ تاہم حدیث کا صحیح مرفوع اور متصل ہونا ضروری ہے۔ صحیح حدیث چاہے متواتر ہو یا آحاد، قولی ہو، فعلی ہو یا تقریری۔ یہ سب قابل عمل ہیں۔ حدیث کا خبر واحد کی بنیاد پر، یا قرآن سے زائد ہونے کی بنیاد پر یا ائمہ کے قیاس واجتہادات کی بنیاد پر یا راوی کی عدم فقاہت کے دعویٰ کی بنیاد پر یا عقلی استحالے کی بنیاد پر یا اسی قسم کے دیگر دعوؤں کی بنیاد پر، رد کرنا صحیح نہیں ہے۔ یہ سب حدیث سے اعراض کی مختلف صورتیں ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
59 : 5

قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ هَلْ تَنْقِمُوْنَ مِنَّاۤ اِلَّاۤ اَنْ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَمَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلُ ۙ— وَاَنَّ اَكْثَرَكُمْ فٰسِقُوْنَ ۟

آپ کہہ دیجیئے اے یہودیوں اور نصرانیو! تم ہم سے صرف اس وجہ سے دشمنیاں کر رہے ہو کہ ہم اللہ تعالیٰ پر اور جو کچھ ہماری جانب نازل کیا گیا ہے اور جو کچھ اس سے پہلے اتارا گیا ہے اس پر ایمان ﻻئے ہیں اور اس لئے بھی کہ تم میں اکثر فاسق ہیں۔ info
التفاسير:

external-link copy
60 : 5

قُلْ هَلْ اُنَبِّئُكُمْ بِشَرٍّ مِّنْ ذٰلِكَ مَثُوْبَةً عِنْدَ اللّٰهِ ؕ— مَنْ لَّعَنَهُ اللّٰهُ وَغَضِبَ عَلَیْهِ وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِیْرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوْتَ ؕ— اُولٰٓىِٕكَ شَرٌّ مَّكَانًا وَّاَضَلُّ عَنْ سَوَآءِ السَّبِیْلِ ۟

کہہ دیجیئے کہ کیا میں تمہیں بتاؤں؟ کہ اس سے بھی زیاده برے اجر پانے واﻻ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کون ہے؟ وه جس پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی اور اس پر وه غصہ ہوا اور ان میں سے بعض کو بندر اور سور بنا دیا اور جنہوں نے معبودان باطل کی پرستش کی، یہی لوگ بدتر درجے والے ہیں اور یہی راه راست سے بہت زیاده بھٹکنے والے ہیں۔(1) info

(1) یعنی تم تو (اے اہل کتاب!) ہم سے یوں ہی ناراض ہو جب کہ ہمارا قصور اس کے سوا کوئی نہیں کہ ہم اللہ پر اور قرآن کریم اور اس سے قبل اتاری گئی کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ کیا یہ بھی کوئی قصور یا عیب ہے؟ یعنی یہ عیب اور مذمت والی بات نہیں، جیسا کہ تم نے سمجھ لیا ہے۔ اس لحاظ سے یہ استثنا منقطع ہے۔ البتہ ہم تمہیں بتلاتے ہیں کہ بدترین لوگ اور گمراہ ترین لوگ، جو نفرت اور مذمت کے قابل ہیں، کون ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی لعنت اور اس کا غضب ہوا اور جن میں سے بعض کو اللہ نے بندر اور سور بنا دیا اور جنہوں نے طاغوت کی پوجا کی۔ اور اس آئینے میں تم اپنا چہرہ اور کردار دیکھ لو! کہ یہ کن کی تاریخ ہے اور کون لوگ ہیں؟ کیا یہ تم ہی نہیں ہو؟

التفاسير:

external-link copy
61 : 5

وَاِذَا جَآءُوْكُمْ قَالُوْۤا اٰمَنَّا وَقَدْ دَّخَلُوْا بِالْكُفْرِ وَهُمْ قَدْ خَرَجُوْا بِهٖ ؕ— وَاللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا كَانُوْا یَكْتُمُوْنَ ۟

اور جب تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان ﻻئے حاﻻنکہ وه کفر لئے ہوئے ہی آئے تھے اور اسی کفر کے ساتھ ہی گئے بھی اور یہ جو کچھ چھپا رہے ہیں اسے اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔(1) info

(1) یہ منافقین کا ذکر ہے۔ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کفر کے ساتھ ہی آتے ہیں اور اسی کفر کے ساتھ واپس چلے جاتے ہیں، آپ (صلى الله عليه وسلم) کی صحبت اور آپ کے وعظ ونصیحت کا کوئی اثر ان پر نہیں ہوتا۔ کیونکہ دل میں تو کفر چھپا ہوتا ہے اور رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کی خدمت میں حاضری سے مقصد ہدایت کا حصول نہیں، بلکہ دھوکہ اور فریب دینا ہوتا ہے۔ تو پھر ایسی حاضری سے فائدہ بھی کیا ہوسکتا ہے؟

التفاسير:

external-link copy
62 : 5

وَتَرٰی كَثِیْرًا مِّنْهُمْ یُسَارِعُوْنَ فِی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاَكْلِهِمُ السُّحْتَ ؕ— لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ۟

آپ دیکھیں گے کہ ان میں سے اکثر گناه کے کاموں کی طرف اور ﻇلم وزیادتی کی طرف اور مال حرام کھانے کی طرف لپک رہے ہیں، جو کچھ یہ کر رہے ہیں وه نہایت برے کام ہیں۔ info
التفاسير:

external-link copy
63 : 5

لَوْلَا یَنْهٰىهُمُ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِهِمُ الْاِثْمَ وَاَكْلِهِمُ السُّحْتَ ؕ— لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَصْنَعُوْنَ ۟

انہیں ان کے عابد وعالم جھوٹ باتوں کے کہنے اور حرام چیزوں کے کھانے سے کیوں نہیں روکتے، بےشک برا کام ہے جو یہ کر رہے ہیں۔(1) info

(1) یہ علماء ومشائخ دین اور عباد وزہاد پر نکیر ہے کہ عوام کی اکثریت تمہارے سامنے فسق وفجور اور حرام خوری کا ارتکاب کرتی ہے لیکن تم انہیں منع نہیں کرتے۔ ایسے حالات میں تمہاری یہ خاموشی بہت بڑا جرم ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی کتنی اہمیت اور اس کے ترک پر کتنی سخت وعید ہے۔ جیسا کہ احادیث میں بھی یہ مضمون وضاحت اور کثرت سے بیان کیا گیا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
64 : 5

وَقَالَتِ الْیَهُوْدُ یَدُ اللّٰهِ مَغْلُوْلَةٌ ؕ— غُلَّتْ اَیْدِیْهِمْ وَلُعِنُوْا بِمَا قَالُوْا ۘ— بَلْ یَدٰهُ مَبْسُوْطَتٰنِ ۙ— یُنْفِقُ كَیْفَ یَشَآءُ ؕ— وَلَیَزِیْدَنَّ كَثِیْرًا مِّنْهُمْ مَّاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ طُغْیَانًا وَّكُفْرًا ؕ— وَاَلْقَیْنَا بَیْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَآءَ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَةِ ؕ— كُلَّمَاۤ اَوْقَدُوْا نَارًا لِّلْحَرْبِ اَطْفَاَهَا اللّٰهُ ۙ— وَیَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا ؕ— وَاللّٰهُ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ ۟

اور یہودیوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں(1) ۔ انہی کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور ان کے اس قول کی وجہ سے ان پر لعنت کی گئی، بلکہ اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں۔ جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے اور جو کچھ تیری طرف تیرے رب کی جانب سے اتارا جاتا ہے وه ان میں سے اکثر کو تو سرکشی اور کفر میں اور بڑھا دیتا ہے اور ہم نے ان میں آپس میں ہی قیامت تک کے لئے عداوت اور بغض ڈال دیا ہے، وه جب کبھی لڑائی کی آگ کو بھڑکانا چاہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اسے بجھا دیتا ہے(2)، یہ ملک بھر میں شر وفساد مچاتے پھرتے ہیں(3) اور اللہ تعالیٰ فسادیوں سے محبت نہیں کرتا۔ info

(1) یہ وہی بات ہے جو سورۂ آل عمران کی آیت 181 میں کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب اپنی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دی اور اسے اللہ کو قرض حسن دینے سے تعبیر کیا تو ان یہودیوں نے کہا کہ ”اللہ تعالیٰ تو فقیر ہے“ لوگوں سے قرض مانگ رہا ہے اور وہ تعبیر کے اس حسن کو نہ سمجھ سکے جو اس میں پنہاں تھا۔ یعنی سب کچھ اللہ کا دیا ہوا ہے۔ اور اللہ کے دیئے ہوئے مال میں سے کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کردینا، کوئی قرض نہیں ہے۔ لیکن یہ اس کی کمال مہربانی ہے کہ وہ اس پر بھی خوب اجر عطا فرماتا ہے۔ حتیٰ کہ ایک ایک دانے کو سات سات سو دانے تک بڑھا دیتا ہے۔ اور اسے قرض حسن سے اسی لئے تعبیر فرمایا کہ جتنا تم خرچ کرو گے، اللہ تعالیٰ اس سے کئی گنا تمہیں واپس لوٹائے گا۔ ”مَغْلُولَةٌ“ کے معنی ”بَخِيلَةٌ“ (بخل والے) کئے گئے ہیں۔ یعنی یہود کا مقصد یہ نہیں تھا کہ اللہ کے ہاتھ واقعتاً بندھے ہوئے ہیں، بلکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ اس نے اپنے ہاتھ خرچ کرنے سے روکے ہوئے ہیں۔ (ابن کثیر) اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”ہاتھ تو انہی کے بندھے ہوئے ہیں“ یعنی بخیلی انہی کا شیوہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے تو دونوں ہاتھ کھلے ہوتے ہیں، وہ جس طرح چاہتا ہے۔ خرچ کرتا ہے۔ وہ وَاسِعُ الْفَضْلِ اورجَزِيلُ الْعَطَاءِ ہے، تمام خزانے اسی کے پاس ہیں۔ نیز اس نے اپنی مخلوقات کے لئے تمام حاجات وضروریات کا انتظام کیا ہوا ہے، ہمیں رات یا دن کو، سفرمیں اور حضر میں اور دیگر تمام احوال میں جن جن چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے یا پڑ سکتی ہے، سب وہی مہیا کرتا ہے۔ «وَآتَاكُمْ مِنْ كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوهَا إِنَّ الإِنْسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ» ( سورۂ ابراہیم: 34) ”تم نے جو کچھ اس سے مانگا، وہ اس نے تمہیں دیا، اللہ کی نعمتیں اتنی ہیں کہ تم گن نہیں سکتے، انسان ہی نادان اور نہایت ناشکرا ہے“۔ حدیث میں بھی ہے نبی (صلى الله عليه وسلم)نے فرمایا: ”اللہ کا دایاں ہاتھ بھرا ہوا ہے، رات دن خرچ کرتا ہے لیکن کوئی کمی نہیں آتی، ذرا دیکھو تو، جب سے آسمان و زمین اس نے پیدا کئے ہیں وہ خرچ کر رہا ہے لیکن اس کے ہاتھ کے خزانے میں کمی نہیں آئی...“ (البخاري، كتاب التوحيد، باب وكان عرشه على الماء- مسلم، كتاب الزكاة، باب الحث على النفقة)
(2) یعنی یہ جب بھی آپ کے خلاف کوئی سازش کرتے یا لڑائی کے اسباب مہیا کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو باطل کردیتا اور ان کی سازش کو انہی پر الٹا دیتا ہے اور ان کو ”چاہ کن را چاہ درپیش“ کی سی صورتحال سے دوچار کر دیتا ہے۔
(3) ان کی عادت ثانیہ ہے کہ ہمیشہ زمین میں فساد پھیلانے کی مذموم کوششیں کرتے ہیں دراں حالیکہ اللہ تعالیٰ مفسدین کو پسند نہیں فرماتا۔

التفاسير: