(1) فَاطِرٌ کے معنی ہیں مخترع، پہلے پہل ایجاد کرنے والا، یہ اشارہ ہے اللہ کی قدرت کی طرف کہ اس نے آسمان وزمین پہلے پہل بغیر نمونے کے بنائے، تو اس کے لئے دوبارہ انسانوں کو پیدا کرنا کون سا مشکل ہے؟
(2) مراد جبرائیل، میکائیل، اسرافیل اور عزرائیل فرشتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ انبیا کی طرف یا مختلف مہمات پر قاصد بنا کر بھیجتا ہے۔ ان میں سے کسی کے دو، کسی کے تین اور کسی کے چار پر ہیں، جن کے ذریعے سے وہ زمین پر آتے اور زمین سے آسمان پر جاتے ہیں۔
(3) یعنی بعض فرشتوں کے اس سے بھی زیادہ پر ہیں، جیسے حدیث میں آتا ہے نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا، میں نے معراج کی رات جبرئیل (عليه السلام) کو اصلی صورت میں دیکھا، اس کے چھ سو پر تھے (صحيح بخاري، تفسير سورة النجم، باب ، فكان قاب قوسين أو أدنى) بعض نے اس کو عام رکھا ہے، جس میں آنکھ، چہرہ، ناک اور منہ ہر چیز کا حسن داخل ہے۔
(1) ان ہی نعمتوں میں سے ارسال رسل اور انزال کتب بھی ہے۔ یعنی ہر چیز کا دینے والا بھی وہی ہے، اور واپس لینے یا روک لینے والا بھی وہی۔ اس کے سوا نہ کوئی معطی اور منعم ہے اور نہ مانع وقابض۔ جس طرح نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) فرمایا کرتے تھے۔ ”اللَّهُمَّ لا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ وَلا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ“۔
(1) یعنی اس بیان ووضاحت کے بعد بھی تم غیر اللہ کی عبادت کرتے ہو؟ تُؤْفَكُونَ اگر أَفَكَ سے ہو تو معنی ہوں گے پھرنا، تم کہاں پھرے جاتے ہو؟ اور اگر إِفْكٌ سے ہو تو معنی ہیں جھوٹ، جو سچ سے پھرنے کا نام ہے۔ مطلب ہے کہ تمہارے اندر توحید اور آخرت کا انکار کہاں سے آگیا، جب کہ تم مانتے ہو کہ تمہارا خالق اور رازق اللہ ہے۔ (فتح القدیر)۔