(1) یعنی جب قیامت برپا ہوگی تو آسمان وزمین کا یہ سارا نظام، جو اس وقت اس کے حکم سے قائم ہے، درہم برہم ہو جائےگا اور تمام انسان قبروں سے زندہ ہو کر باہر نکل آئیں گے۔
(1) یعنی اتنے کمالات اور عظیم قدرتوں کا مالک، تمام مثالوں سےاعلیٰ اور برتر ہے۔ «لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ» (الشورى:11)۔
(1) یعنی جب تم یہ پسند نہیں کرتے کہ تمہارےغلام اور نوکر چاکر، جو تمہارے ہی جیسےانسان ہیں، وہ تمہارے مال ودولت میں شریک اور تمہارے برابر ہو جائیں تو پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اللہ کے بندے، چاہے وہ فرشتے ہوں، پیغمبر ہوں، اولیاء وصلحاء ہوں یا شجر وحجر کے بنائے ہوئے معبود، وہ اللہ کے ساتھ شریک ہو جائیں جب کہ وہ بھی اللہ کے غلام اور اس کی مخلوق ہیں؟ یعنی جس طرح پہلی بات نہیں ہو سکتی، دوسری بھی نہیں ہوسکتی۔ اس لئے اللہ کےساتھ دوسروں کی بھی عبادت کرنا اور انہیں بھی حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنا یکسر غلط ہے۔
(2) یعنی کیا تم اپنے غلاموں سے اس طرح ڈرتے ہو جس طرح تم (آزاد لوگ) آپس میں ایک دوسرے سے ڈرتے ہو۔ یعنی جس طرح مشترکہ کاروبار جائیداد میں سے خرچ کرتے ہوئے ڈر محسوس ہوتا ہے کہ دوسرے شریک باز پرس کریں گے۔ کیا تم اپنے غلاموں سے اس طرح ڈرتے ہو؟ یعنی نہیں ڈرتے۔ کیونکہ تم انہیں مال ودولت میں شریک قرار دے کر اپنا ہم مرتبہ بنا ہی نہیں سکتے تو اس سے ڈر بھی کیسا؟
(3) کیونکہ وہ اپنی عقلوں کو استعمال میں لاکر اور غور وفکر کا اہتمام کرکے آیات تنزیلیہ اور تکوینیہ سےفائدہ اٹھاتے ہیں اور جو ایسا نہیں کرتے، ان کی سمجھ میں توحید کا مسئلہ بھی نہیں آتا جو بالکل صاف اور نہایت واضح ہے۔
(1) یعنی اس حقیقت کا انہیں ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ علم سے بے بہرہ اور ضلالت کا شکار ہیں اور اسی بے علمی اور گمراہی کی وجہ سے وہ اپنی عقل کو کام میں لانے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور اپنی نفسانی خواہشات اور آرائے فاسدہ کے پیرو کار ہیں۔
(2) کیونکہ اللہ کی طرف سےہدایت اسے ہی نصیب ہوتی ہے جس کے اندر ہدایت کی طلب کی اور آرزو ہوتی ہے،جو اس طلب صادق سےمحروم ہوتے ہیں، انہیں گمراہی میں بھٹکنے کے لئے چھوڑدیا جاتا ہے۔
(3) یعنی ان گمراہوں کا کوئی مددگار نہیں جو انہیں ہدایت سے بہرہ ور کر دے یا ان سے عذاب کو پھیر دے۔
(1) یعنی اللہ کی توحید اور اس کی عبادت پر قائم رہیں اور ادیان باطلہ کی طرف التفات ہی نہ کریں۔
(2) فطرت کےاصل معنی خلقت (پیدائش) کے ہیں۔ یہاں مراد ملت اسلام (وتوحید) ہے مطلب یہ ہے کہ سب کی پیدائش، بغیر مسلم وکافر کی تفریق کے، اسلام اور توحید پر ہوتی ہے، اس لئے توحید ان کی فطرت یعنی جبلت میں شامل ہے جس طرح کہ عہدالست سےواضح ہے۔ بعد میں بہت سوں کو ماحول یادیگر عوارض، فطرت کی اس آواز کی طرف نہیں آنے دیتے، جس کی وجہ سےوہ کفر پر ہی باقی رہتے ہیں جس طرح نبی (صلى الله عليه وسلم) کی حدیث ہے ”ہربچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، لیکن پھر اس کے ماں باپ، اس کو یہودی، عیسائی اور مجوسی وغیرہ بنا دیتے ہیں“۔ (صحيح بخاري، تفسير سورة الروم، مسلم كتاب القدر ، باب معنى كل مولود يولد على الفطرة)۔
(3) یعنی اللہ کی اس خلقت (فطرت) کو تبدیل نہ کرو بلکہ صحیح تربیت کےذریعےسےاس کی نشوونما کرو تاکہ ایمان وتوحید بچوں کے دل ودماغ میں راسخ ہوجائے۔ یہ خبربمعنی انشا ہے یعنی نفی، نہی کے معنی میں ہے۔
(4) یعنی وہ دین جس کی طرف یکسو اور متوجہ ہونے کا حکم ہے، یا جو فطرت کا تقاضا ہے وہ یہی دین قیم ہے۔
(5) اسی لئے وہ اسلام اور توحید سے ناآشنا رہتے ہیں۔
(1) یعنی اصل دین کو چھوڑ کر یا اس میں من مانی تبدیلیاں کرکےالگ الگ فرقوں میں بٹ گئے، جیسے کوئی یہودی، کوئی نصرانی، کوئی مجوسی وغیرہ ہوگیا۔
(2) یعنی ہر فرقہ اور گروہ سمجھتا ہے کہ وہ حق پر ہے اور دوسرے باطل پر، اور جو سہارے انہوں نے تلاش کر رکھے ہیں، جن کو وہ دلائل سے تعبیر کرتے ہیں، ان پر خوش اور مطمئن ہیں، بدقسمتی سے ملت اسلامیہ کا بھی یہی حال ہوا کہ وہ بھی مختلف فرقوں میں بٹ گئی اور ان کا بھی ہر فرقہ اسی زعم باطل میں مبتلا ہے کہ وہ حق پر ہے، حالانکہ حق پر صرف ایک ہی گروہ ہے جس کی پہچان نبی (صلى الله عليه وسلم) نے بتلا دی ہے کہ میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر چلنے والا ہوگا۔