Traduzione dei Significati del Sacro Corano - Traduzione urdu - Muhammad Gunakry

Numero di pagina:close

external-link copy
55 : 16

لِیَكْفُرُوْا بِمَاۤ اٰتَیْنٰهُمْ ؕ— فَتَمَتَّعُوْا ۫— فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ ۟

کہ ہماری دی ہوئی نعمتوں کی ناشکری کریں(1) ۔ اچھا کچھ فائده اٹھالو آخر کار تمہیں معلوم ہو ہی جائے گ.(2) info

(1) لیکن انسان بھی کتنا ناشکرا ہے کہ تکلیف (بیماری، تنگ دستی اور نقصان وغیرہ) کے دور ہوتے ہی وہ پھر رب کے ساتھ شرک کرنے لگتا ہے۔
(2) یہ اس طرح ہی ہے جیسے اس سے قبل فرمایا تھا، «قُلْ تَمَتَّعُوْا فَاِنَّ مَصِيْرَكُمْ اِلَى النَّارِ» (ابراہیم:30) ”چند روزہ زندگی میں فائدہ اٹھالو! بالآخر تمہارا ٹھکانا جہنم ہے“۔

التفاسير:

external-link copy
56 : 16

وَیَجْعَلُوْنَ لِمَا لَا یَعْلَمُوْنَ نَصِیْبًا مِّمَّا رَزَقْنٰهُمْ ؕ— تَاللّٰهِ لَتُسْـَٔلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَفْتَرُوْنَ ۟

اور جسے جانتے بوجھتے بھی نہیں اس کا حصہ ہماری دی ہوئی روزی میں سے مقرر کرتے ہیں(1) ، واللہ تمہارے اس بہتان کا سوال تم سے ضرور ہی کیا جائے گا.(2) info

(1) یعنی جن کو یہ حاجت روا، مشکل کشا اور معبود سمجھتے ہیں، وہ پتھر کی مورتیاں ہیں یا جنات وشیاطین ہیں، جن کی حقیقت کا ان کو علم ہی نہیں۔ اسی طرح قبروں میں مدفون لوگوں کی حقیقت بھی کوئی نہیں جانتا کہ ان کے ساتھ وہاں کیا معاملہ ہو رہا ہے؟ وہ اللہ کے پسندیدہ افراد میں ہیں یا کسی دوسری فہرست میں؟ ان باتوں کو کوئی نہیں جانتا لیکن ان ظالم لوگوں نے ان کی حقیقت سے ناآشنا ہونے کے باوجود، انہیں اللہ کا شریک ٹھہرا رکھا ہے اور اللہ کے دئیے ہوئے مال میں سے ان کے لیے بھی (نذر ونیاز کے طور پر) حصہ مقرر کرتے ہیں بلکہ اللہ کا حصہ رہ جائے تو بیشک رہ جائے ان کے حصے میں کمی نہیں کرتے جیسا کہ سورۃ الانعام:136 میں بیان کیا گیا ہے۔
(2) تم جو اللہ پر افترا کرتے ہو کہ اس کا شریک یا شرکا ہیں، اس کی بابت قیامت والے دن تم سے پوچھا جائے گا۔

التفاسير:

external-link copy
57 : 16

وَیَجْعَلُوْنَ لِلّٰهِ الْبَنٰتِ سُبْحٰنَهٗ ۙ— وَلَهُمْ مَّا یَشْتَهُوْنَ ۟

اور وه اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے لڑکیاں مقرر کرتے ہیں اور اپنے لیے وه جو اپنی خواہش کے مطابق ہو.(1) info

(1) عرب کے بعض قبیلے (خزاعہ اور کنانہ) فرشتوں کی عبادت کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ یعنی ایک ظلم تو یہ کیا کہ اللہ کی اولاد قرار دی۔ جب کہ اس کی کوئی اولاد نہیں۔ پھر اولاد بھی مونث، جسے وہ اپنے لئے پسند ہی نہیں کرتے اللہ کے لئے اسے پسند کیا، جسے دوسرے مقام پر فرمایا : «أَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الأُنْثَى، تِلْكَ إِذًا قِسْمَةٌ ضِيزَى» (النجم: 21۔22) ”کیا تمہارے لئے بیٹے اور اس کے لئے بیٹیاں؟ یہ تو بڑی بھونڈی تقسیم ہے“۔ یہاں فرمایا کہ تم تو یہ خواہش رکھتے ہو کہ بیٹے ہوں، بیٹی کوئی نہ ہو۔

التفاسير:

external-link copy
58 : 16

وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِالْاُ ظَلَّ وَجْهُهٗ مُسْوَدًّا وَّهُوَ كَظِیْمٌ ۟ۚ

ان میں سے جب کسی کو لڑکی ہونے کی خبر دی جائے تو اس کا چہره سیاه ہو جاتا ہے اور دل ہی دل میں گھٹنے لگتا ہے. info
التفاسير:

external-link copy
59 : 16

یَتَوَارٰی مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْٓءِ مَا بُشِّرَ بِهٖ ؕ— اَیُمْسِكُهٗ عَلٰی هُوْنٍ اَمْ یَدُسُّهٗ فِی التُّرَابِ ؕ— اَلَا سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ ۟

اس بری خبر کی وجہ سے لوگوں سے چھپا چھپا پھرتا ہے۔ سوچتا ہے کہ کیا اس کو ذلت کے ساتھ لئے ہوئے ہی رہے یا اسے مٹی میں دبا دے، آه! کیا ہی برے فیصلے کرتے ہیں؟(1) info

(1) یعنی لڑکی کی ولادت کی خبر سن کر ان کا تو یہ حال ہوتا ہے جو مذکور ہوا، اور اللہ کے لئے بیٹیاں تجویز کرتے ہیں۔ کیسا برا یہ فیصلہ کرتے ہیں، یہاں یہ نہ سمجھا جائے کہ اللہ تعالٰی بھی لڑکوں کے مقابلے میں لڑکی کو حقیر اور کم تر سمجھتا ہے، نہیں اللہ کے نزدیک لڑکے اور لڑکی میں کوئی تمیز نہیں ہے، نہ جنس کی نبیاد پر حقارت اور برتری کا تصور اس کے ہاں ہے۔ یہاں تو صرف عربوں کی اس نا انصافی اور سراسر غیر معقول رویے کی وضاحت مقصود ہے، جو انہوں نے اللہ کے ساتھ اختیار کیا تھا، درآں حالیکہ اللہ کی برتری اور فوقیت کے وہ بھی قائل تھے۔ جس کا منطقی نتیجہ تو یہ تھا کہ جو چیز یہ اپنے لیے پسند نہیں کرتے، اللہ کے لیے بھی اسے تجویز نہ کرتے لیکن انہوں نے اس کے برعکس کیا۔ یہاں صرف اسی نا انصافی کی وضاحت کی گئی ہے۔

التفاسير:

external-link copy
60 : 16

لِلَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ مَثَلُ السَّوْءِ ۚ— وَلِلّٰهِ الْمَثَلُ الْاَعْلٰی ؕ— وَهُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ ۟۠

آخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں کی ہی بری مثال ہے(1) ، اللہ کے لیے تو بہت ہی بلند صفت ہے، وه بڑا ہی غالب اور باحکمت ہے.(2) info

(1) یعنی کافروں کے برے اعمال بیان کئے گئے ہیں انہیں کے لئے بری مثال یا صفت ہے یعنی جہل اور کفر کی صفت۔ یا یہ مطلب ہے کہ اللہ کی جو بیوی اور اولاد یہ ٹھہراتے ہیں، یہ بری مثال ہے جو یہ منکرین آخرت اللہ کے لئے بیان کرتے ہیں۔
(2) یعنی اس کی ہر صفت، مخلوق کے مقابلے میں اعلٰی و برتر ہے، مثلاً اس کا علم و سیع ہے، اس کی قدرت لا متناہی ہے، اس کی جود و عطا بے نظیر ہے۔ و علی ہذا القیاس یا یہ مطلب ہے کہ وہ قادر ہے، خالق ہے۔ رازق ہے اور سمیع و بصیر ہے وغیرہ (فتح القدیر) یا بری مثال کا مطلب نقص کوتاہی ہے اور مثل اعلی کا مطلب کمال مطلق ہر لحاظ سے اللہ کے لیے ہے۔ (ابن کثیر)

التفاسير:

external-link copy
61 : 16

وَلَوْ یُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ مَّا تَرَكَ عَلَیْهَا مِنْ دَآبَّةٍ وَّلٰكِنْ یُّؤَخِّرُهُمْ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی ۚ— فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّلَا یَسْتَقْدِمُوْنَ ۟

اگر لوگوں کے گناه پر اللہ تعالیٰ ان کی گرفت کرتا تو روئے زمین پر ایک بھی جاندار باقی نہ رہتا(1) ، لیکن وه تو انہیں ایک وقت مقرر تک ڈھیل دیتا ہے(2)، جب ان کا وه وقت آجاتا ہے تو وه ایک ساعت نہ پیچھے ره سکتے ہیں اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیں. info

(1) یہ اس کا حلم ہے اور اس کی حکمت و مصلحت کا تقاضا ہے کہ وہ اپنی نافرمانیاں دیکھتا ہے لیکن پھر بھی وہ اپنی نعمتیں سلب کرتا ہے نہ فوری مواخذہ ہی کرتا ہے حالانکہ اگر ارتکاب معصیت کے ساتھ ہی وہ مواخذہ کرنا شروع کر دے تو ظلم اور معصیت اور کفر اور شرک اتنا عام ہے کہ روئے زمین پر کوئی جاندار باقی نہ رہے کیونکہ جب برائی عام ہو جائے تو پھر عذابِ عام میں نیک لوگ بھی ہلاک کر دیئے جاتے ہیں تاہم آخرت میں وہ عند اللہ سرخرو رہیں گے جیسا کہ حدیث میں وضاحت آتی ہے۔ (ملاحظہ ہو صحیح بخاری، حدیث نمبر 2118، ومسلم، حدیث نمبر2206، 2210)۔
(2) یہ اس کی حکمت کا بیان ہے جس کے تحت وہ ایک خاص وقت تک مہلت دیتا ہے تاکہ ایک تو ان کے لئے کوئی عذر باقی نہ رہے۔ دوسرا، ان کی اولاد میں سے کچھ ایماندار نکل آئیں۔

التفاسير:

external-link copy
62 : 16

وَیَجْعَلُوْنَ لِلّٰهِ مَا یَكْرَهُوْنَ وَتَصِفُ اَلْسِنَتُهُمُ الْكَذِبَ اَنَّ لَهُمُ الْحُسْنٰی ؕ— لَا جَرَمَ اَنَّ لَهُمُ النَّارَ وَاَنَّهُمْ مُّفْرَطُوْنَ ۟

اور وه اپنے لیے جو ناپسند رکھتے ہیں اللہ کے لیے ﺛابت کرتے ہیں(1) اور ان کی زبانیں جھوٹی باتیں بیان کرتی ہیں کہ ان کے لیے خوبی ہے(2)۔ نہیں نہیں، دراصل ان کے لیے آگ ہے اور یہ دوزخیوں کے پیش رو ہیں.(3) info

(1) یعنی بیٹیاں، یہ تکرار تاکید کے لئے ہے۔
(2) یہ ان کی دوسری خرابی کا بیان ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ نا انصافی کا معاملہ کرتے ہیں ان کی زبانیں یہ جھوٹ بولتی ہیں کہ ان کا انجام اچھا ہے، ان کے لئے بھلائیاں ہیں اور دنیا کی طرح ان کی آخرت بھی اچھی ہوگی۔
(3) یعنی یقیناً ان کا انجام ”اچھا“ ہے اور وہ ہے جہنم کی آگ، جس میں وہ دوزخیوں کے پیش رو یعنی پہلے جانے والے ہوں گے۔ فَرَط کے یہی معنی حدیث سے بھی ثابت ہیں۔ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا «اَ نَا فَرَطُکُمْ عَلَی الْحَوْضِ» (صحيح بخاري، نمبر 6584 ومسلم، نمبر1793) ”میں حوض کوثر پر تمہارا پیش رو ہوں گا“ ایک دوسرے معنی مُفرَطُوْنَ کے یہ کئے گئے ہیں کہ انہیں جہنم میں ڈال کر فراموش کر دیا جائے گا۔

التفاسير:

external-link copy
63 : 16

تَاللّٰهِ لَقَدْ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰۤی اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَزَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ فَهُوَ وَلِیُّهُمُ الْیَوْمَ وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ۟

واللہ! ہم نے تجھ سے پہلے کی امتوں کی طرف بھی اپنے رسول بھیجے لیکن شیطان نے ان کے اعمال بد ان کی نگاہوں میں آراستہ کر دیئے(1) ، وه شیطان آج بھی ان کا رفیق بنا ہوا ہے(2) اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے. info

(1) جس کی وجہ سے انہوں نے بھی رسولوں کی تکذیب کی جس طرح اے پیغمبر! قریش مکہ تیری تکذیب کر رہے ہیں۔
(2) اَلْیَوْمَ سے یا تو زمانہ دنیا مراد ہے، جیسا کہ ترجمے سے واضح ہے، یا اس سے مراد آخرت ہے کہ وہاں بھی یہ ان کا ساتھی ہوگا۔ یا وَلِيُّهُمُ میں ”ھم“ کا مرجع کفار مکہ ہیں۔ یعنی یہی شیطان جس نے پچھلی امتوں کو گمراہ کیا، آج وہ ان کفار مکہ کا دوست ہے اور انہیں تکذیب رسالت پر مجبور کر رہا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
64 : 16

وَمَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ اِلَّا لِتُبَیِّنَ لَهُمُ الَّذِی اخْتَلَفُوْا فِیْهِ ۙ— وَهُدًی وَّرَحْمَةً لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ ۟

اس کتاب کو ہم نے آپ پر اس لیے اتارا ہے کہ آپ ان کے لیے ہر اس چیز کو واضح کر دیں جس میں وه اختلاف کر رہے ہیں(1) اور یہ ایمان والوں کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے. info

(1) اس میں نبی (صلى الله عليه وسلم) کا یہ منصب بیان کیا گیا کہ عقائد و احکام شرعیہ کے سلسلے میں یہود و انصاری کے درمیان اور اسی طرح مجوسیوں اور مشرکین کے درمیان اور دیگر اہل مذاہب کے درمیان جو باہم اختلاف ہے، اس کی اس طرح تفصیل بیان فرمائیں کہ حق اور باطل واضح ہو جائے تاکہ لوگ حق کو اختیار اور باطل سے پرہیز کریں۔

التفاسير: