(1) یعنی الفاظ و نظم کے اعتبار سے اتنی محکم اور پختہ ہیں کہ ان کی ترکیب اور معنی میں کوئی خلل نہیں۔
(2) پھر اس میں احکام و شرائع، مواعظ و قصص، عقائد و ایمانیات اور آداب و اخلاق جس طرح وضاحت اور تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں، پچھلی کتابوں میں اس کی نظیر نہیں آئی۔
(3) یعنی اپنے اقوال میں حکیم ہے، اس لئے اس کی طرف سے نازل کردہ باتیں حکمت سے خالی نہیں اور وہ خبر رکھنے والا بھی ہے۔ یعنی تمام معاملات اور ان کے انجام سے باخبر ہے۔ اس لئے اس کی باتوں پر عمل کرنے سے ہی انسان برے انجام سے بچ سکتا ہے۔
(1) یہاں اس سامان دنیا کو جس کو قرآن نے عام طور پر " متاع غرور " دھوکے کا سامان کہا ہے، یہاں اسے " متاع حسن " قرار دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو آخرت سے غافل ہو کر متاع دنیا سے استفادہ کر لے گا، اس کے لئے یہ متاع غرور ہے، کیونکہ اس کے بعد اسے برے انجام سے دو چار ہونا ہے اور جو آخرت کی تیاری کے ساتھ ساتھ اس سے فائدہ اٹھائے گا، اس کے لئے یہ چند روزہ سامان زندگی متاع حسن ہے، کیونکہ اس نے اللہ کے احکام کے مطابق برتا ہے۔
(2) بڑے دن سے مراد قیامت کا دن ہے۔
(1) اس کی شان نزول میں مفسرین کا اختلاف ہے، اس لئے اس کے مفہوم میں بھی اختلاف ہے۔ تاہم صحیح بخاری (تفسیر سورت ہود) میں بیان کردہ شان نزول سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان مسلمانوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو غلبہ حیا کی وجہ سے قضائے حاجت اور بیوی سے ہم بستری کے وقت برہنہ ہونا پسند نہیں کرتے تھے کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے، اس لئے ایسے موقع پر وہ شرم گاہ کو چھپانے کے لئے اپنے سینوں کو دوہرا کر لیتے تھے۔ اللہ نے فرمایا کہ رات کے اندھیرے میں جب وہ بستروں میں اپنے آپ کو کپڑوں میں ڈھانپ لیتے تھے، تو اس وقت بھی وہ ان کو دیکھتا اور ان کی چھپی اور اعلانیہ باتوں کو جانتا ہے۔ مطلب یہ کہ شرم و حیا کا جذبہ اپنی جگہ بہت اچھا ہے لیکن اس میں اتنا غلو اور افراط بھی صحیح نہیں، اس لئے کہ جس ذات کی خاطر وہ ایسا کرتے ہیں اس سے تو پھر بھی وہ نہیں چھپ سکتے، تو پھر اس طرح کے تکلف کا کیا فائدہ؟۔