Terjemahan makna Alquran Alkarim - Terjemahan Berbahasa Urdu - Muhammad Jonakri

Nomor Halaman:close

external-link copy
109 : 5

یَوْمَ یَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ فَیَقُوْلُ مَاذَاۤ اُجِبْتُمْ ؕ— قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا ؕ— اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ ۟

جس روز اللہ تعالیٰ تمام پیغمبروں کو جمع کرے گا، پھر ارشاد فرمائے گا کہ تم کو کیا جواب ملا تھا، وه عرض کریں گے کہ ہم کو کچھ خبر نہیں(1) تو ہی بےشک پوشیده باتوں کو پورا جاننے واﻻ ہے۔ info

(1) انبیاء علیہم السلام کے ساتھ ان کی قوموں نے اچھا یا برا جو بھی معاملہ کیا، اس کا علم تو یقیناً انہیں ہوگا لیکن وہ اپنے علم کی نفی یا تو محشر کی ہولناکیوں اور اللہ جل جلالہ کی ہیبت وعظمت کی وجہ سے کریں گے یا اس کا تعلق ان کی وفات کے بعد کے حالات سے ہوگا۔ علاوہ ازیں باطنی امور کا علم تو کلیتاً صرف اللہ ہی کو ہے۔ اسی لئے وہ کہیں گے علام الغیوب تو، توہی ہے نہ کہ ہم۔ اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء ورسل عالم الغیب نہیں ہوتے، عالم الغیب صرف ایک اللہ کی ذات ہے۔ انبیاء کو جتنا کچھ بھی علم ہوتا ہے، اولاً تو اس کا تعلق ان امور سے ہوتا ہے جو فرائض رسالت کی ادائیگی کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔ ثانیاً ان سے بھی ان کو بذریعہ وحی ہی آگاہ کیا جاتا ہے۔ حالانکہ عالم الغیب وہ ہوتا ہے جس کو ہر چیز کا علم ذاتی طور پر ہو، نہ کسی کے بتلانے پر اور جس کو بتلانے پر کسی چیز کا علم حاصل ہوا اسے عالم الغیب نہیں کہا جاتا، نہ وہ عالم الغیب ہوتا ہے۔ فَافْهَمْ وَتَدَبَّرْ وَلا تَكُنْ مِنَ الْغَافِلِينَ

التفاسير:

external-link copy
110 : 5

اِذْ قَالَ اللّٰهُ یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِیْ عَلَیْكَ وَعَلٰی وَالِدَتِكَ ۘ— اِذْ اَیَّدْتُّكَ بِرُوْحِ الْقُدُسِ ۫— تُكَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَكَهْلًا ۚ— وَاِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِیْلَ ۚ— وَاِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّیْنِ كَهَیْـَٔةِ الطَّیْرِ بِاِذْنِیْ فَتَنْفُخُ فِیْهَا فَتَكُوْنُ طَیْرًا بِاِذْنِیْ وَتُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَالْاَبْرَصَ بِاِذْنِیْ ۚ— وَاِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتٰی بِاِذْنِیْ ۚ— وَاِذْ كَفَفْتُ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ عَنْكَ اِذْ جِئْتَهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ اِنْ هٰذَاۤ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ ۟

جب کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا کہ اے عیسیٰ بن مریم! میرا انعام یاد کرو جو تم پر اور تمہاری والده پر ہوا ہے، جب میں نے تم کو روح القدس(1) سے تائید دی۔ تم لوگوں سے کلام کرتے تھے گود میں بھی(2) اور بڑی عمر میں بھی اور جب کہ میں نے تم کو کتاب اور حکمت کی باتیں اور تورات اور انجیل کی تعلیم دی(3) اور جب کہ تم میرے حکم سے گارے سے ایک شکل بناتے تھے جیسے پرنده کی شکل ہوتی ہے پھر تم اس کے اندر پھونک مار دیتے تھے جس سے وه پرند بن جاتا تھا میرے حکم سے اور تم اچھا کر دیتے تھے مادرزاد اندھے کو اور کوڑھی کو میرے حکم سے اور جب کہ تم مردوں کو نکال کر کھڑا کرلیتے تھے میرے حکم سے(4) اور جب کہ میں نے بنی اسرائیل کو تم سے باز رکھا جب تم ان کے پاس دلیلیں لے کر آئے تھے(5) پھر ان میں جو کافر تھے انہوں نے کہا تھا کہ بجز کھلے جادو کے یہ اور کچھ بھی نہیں۔(6) info

(1) اس سے مراد حضرت جبریل (عليه السلام) ہیں جیسا کہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 87 میں گزرا۔
(2) گود میں اس وقت کلام کیا، جب حضرت مریم علیہا السلام اپنے اس نومولود (بچے) کو لے کر اپنی قوم میں آئیں اور انہوں نے اس بچے کو دیکھ کر تعجب کا اظہار اور اس کی بابت استفسار کیا تو اللہ کے حکم سے حضرت عیسیٰ (عليه السلام) نے شیرخوارگی کے عالم میں کلام کیا اور بڑی عمر میں کلام سے مراد، نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد دعوت وتبلیغ ہے۔
(3) اس کی وضاحت سورۃ آل عمران کی آیت 48 میں گزرچکی ہے۔
(4) ان معجزات کا ذکر بھی مذکورہ سورت کی آیت 49 میں گزرچکا ہے۔
(5) یہ اشارہ ہے اس سازش کی طرف جو یہودیوں نے حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کے قتل کرنے اور سولی دینے کے لئے تیار کی تھی۔ جس سے اللہ نے بچا کر انہیں آسمان پر اٹھا لیا تھا۔ ملاحظہ ہو حاشیہ سورۃ آل عمران آیت 54۔
(6) ہر نبی کے مخالفین، آیات الٰہی اور معجزات دیکھ کر انہیں جادو ہی قرار دیتے رہے ہیں۔ حالانکہ جادو تو شعبدہ بازی کا ایک فن ہے، جس سے انبیاء علیہم السلام کو کیا تعلق ہوسکتا ہے؟ علاوہ ازیں انبیاء کے ہاتھوں ظاہر ہونے والے معجزات قادر مطلق، اللہ تبارک وتعالیٰ کی قدرت وطاقت کا مظہر ہوتے تھے، کیونکہ وہ اللہ ہی کے حکم سے اور اس کی مشیت وقدرت سے ہوتے تھے۔ کسی نبی کے اختیار میں یہ نہیں تھا کہ وہ جب چاہتا اللہ کے حکم اور مشیت کے بغیر کوئی معجزہ صادر کرکے دکھا دیتا، اسی لئے یہاں بھی دیکھ لیجئے کہ حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کے ہر معجزے کے ساتھ اللہ نے چار مرتبہ یہ فرمایا ”بِإِذْنِي“ کہ (ہر معجزہ میرے حکم سے ہوا ہے)۔ یہی وجہ ہے کہ جب نبی (صلى الله عليه وسلم) سے مشرکین مکہ نے مختلف معجزات کے دکھانے کا مطالبہ کیا جس کی تفصیل سورۂ بنی اسرائیل آیت نمبر 91۔93 میں ذکر کی گئی ہے تو اس کے جواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا ”سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلاَّ بَشَرًا رَسُولاً“ (میرا رب پاک ہے (یعنی وہ تو اس کمزوری سے پاک ہے کہ وہ یہ چیزیں نہ دکھا سکے، وہ تو دکھا سکتا ہے لیکن اس کی حکمت اس کی مقتضی ہے یا نہیں؟ یا کب مقتضی ہوگی؟ اس کا علم اسی کو ہے اور اسی کے مطابق وہ فیصلہ کرتا ہے) لیکن میں تو صرف بشر اور رسول ہوں) یعنی میرے اندر یہ معجزات دکھانے کی اپنے طور پر طاقت نہیں ہے۔ بہرحال انبیاء کے معجزات کا جادو سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اگر ایسا ہوتا تو جادوگر اس کا توﮌ مہیا کرلیتے۔ لیکن حضرت موسیٰ (عليه السلام) کے واقعے سے ثابت ہے کہ دنیا بھر کے جمع شدہ بڑے بڑے جادوگر بھی حضرت موسیٰ(عليه السلام) کے معجزے کا توڑ نہ کرسکے اور جب ان کو معجزہ اور جادو کا فرق واضح طور پر معلوم ہوگیا تو وہ مسلمان ہوگئے۔

التفاسير:

external-link copy
111 : 5

وَاِذْ اَوْحَیْتُ اِلَی الْحَوَارِیّٖنَ اَنْ اٰمِنُوْا بِیْ وَبِرَسُوْلِیْ ۚ— قَالُوْۤا اٰمَنَّا وَاشْهَدْ بِاَنَّنَا مُسْلِمُوْنَ ۟

اور جب کہ میں نے حواریین کو حکم دیا(1) کہ تم مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان ﻻؤ، انہوں نے کہا کہ ہم ایمان ﻻئے اور آپ شاہد رہیئے کہ ہم پورے فرماں بردار ہیں۔ info

(1) ”حَوَارِيِّينَ“ سے مراد حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کے وہ پیروکار ہیں جو ان پر ایمان لائے اور ان کے ساتھی اور مددگار بنے۔ ان کی تعداد بیان کی جاتی ہے۔ وحی سے مراد یہاں وہ وحی نہیں جو بذریعہ فرشتہ انبیا علیہم السلام پر نازل ہوتی تھی بلکہ یہ وحی الہام ہے، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بعض لوگوں کے دلوں میں القا کردی جاتی ہے، جیسے حضرت موسیٰ (عليه السلام) کی والدہ اور حضرت مریم علیہا السلام کو اسی قسم کا الہام ہوا جسے قرآن نے وحی ہی سے تعبیر کیا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
112 : 5

اِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ هَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّكَ اَنْ یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآىِٕدَةً مِّنَ السَّمَآءِ ؕ— قَالَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ۟

وه وقت یاد کے قابل ہے جب کہ حواریوں نے عرض کیا کہ اے عیسیٰ بن مریم! کیا آپ کا رب ایسا کرسکتا ہے کہ ہم پر آسمان سے ایک خوان ﴿دسترخوان﴾ نازل فرما دے؟(1) آپ نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اگر تم ایمان والے ہو۔(2) info

”مَائِدَةً“ ایسے برتن (سینی، پلیٹ یا ٹرے وغیرہ) کو کہتے ہیں جس میں کھانا ہو۔ اسی لئے دسترخوان بھی اس کا ترجمہ کرلیا جاتا ہے کیونکہ اس پر بھی کھانا چنا ہوتا ہے۔ سورت کا نام بھی اسی مناسبت سے ہے کہ اس میں اس کا ذکر ہے حَوَارِيِّينَ نے مزید اطمینان قلب کے لئے یہ مطالبہ کیا جس طرح حضرت ابراہیم (عليه السلام) نے احیائے موتی کے مشاہدے کی خواہش ظاہر فرمائی تھی۔
(2) یعنی یہ سوال مت کرو، ممکن ہے یہ تمہاری آزمائش کا سبب بن جائے کیونکہ حسب طلب معجزہ دکھائے جانے کے بعد اس قوم کی طرف سے ایمان میں کمزوری عذاب کا باعث بن سکتی ہے۔ اس لئے حضرت عیسیٰ (عليه السلام) نے انہیں اس مطالبے سے روکا اور انہیں اللہ سے ڈرایا۔
اس سے معلوم ہوا کہ جن لوگوں نے وحی کے لفظ سے یہ استدلال کیا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ اور حضرت مریم نَبِيَّةٌ تھیں، اس لئے کہ ان پر بھی اللہ کی طرف سے وحی آئی تھی، صحیح نہیں۔ اس لئے کہ یہ وحی، وحی الہام ہی تھی، جیسے یہاں «أَوْحَيْتُ إِلَى الْحَوَارِيِّينَ» میں ہے یہ وحی رسالت نہیں ہے۔

التفاسير:

external-link copy
113 : 5

قَالُوْا نُرِیْدُ اَنْ نَّاْكُلَ مِنْهَا وَتَطْمَىِٕنَّ قُلُوْبُنَا وَنَعْلَمَ اَنْ قَدْ صَدَقْتَنَا وَنَكُوْنَ عَلَیْهَا مِنَ الشّٰهِدِیْنَ ۟

وه بولے کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس میں سے کھائیں اور ہمارے دلوں کو پورا اطمینان ہوجائے اور ہمارا یہ یقین اور بڑھ جائے کہ آپ نے ہم سے سچ بوﻻ ہے اور ہم گواہی دینے والوں میں سے ہوجائیں۔ info
التفاسير: