Terjemahan makna Alquran Alkarim - Terjemahan Berbahasa Urdu - Muhammad Jonakri

Nomor Halaman:close

external-link copy
65 : 5

وَلَوْ اَنَّ اَهْلَ الْكِتٰبِ اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْ وَلَاَدْخَلْنٰهُمْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ ۟

اور اگر یہ اہل کتاب ایمان ﻻتے اور تقویٰ اختیار کرتے(1) تو ہم ان کی تمام برائیاں معاف فرما دیتے اور ضرور انہیں راحت و آرام کی جنتوں میں لے جاتے۔ info

(1) یعنی وہ ایمان، جس کا مطالبہ اللہ تعالیٰ کرتا ہے، ان میں سب سے اہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لانا ہے، جیسا کہ ان پر نازل شدہ کتابوں میں بھی ان کو اس کا حکم دیا گیا ہے۔ ”وَاتَّقَوْا“ اور اللہ کی معاصی سے بچتے، جن میں سب سے اہم وہ شرک ہے جس میں وہ مبتلا ہیں اور وہ جحود ہے جو آخری رسول کے ساتھ وہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
66 : 5

وَلَوْ اَنَّهُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِیْلَ وَمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِمْ مِّنْ رَّبِّهِمْ لَاَكَلُوْا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمْ ؕ— مِنْهُمْ اُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌ ؕ— وَكَثِیْرٌ مِّنْهُمْ سَآءَ مَا یَعْمَلُوْنَ ۟۠

اور اگر یہ لوگ تورات وانجیل اور ان کی جانب جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل فرمایا گیا ہے، ان کے پورے پابند رہتے(1) تو یہ لوگ اپنے اوپر سے اور نیچے سے روزیاں پاتے اور کھاتے(2)، ایک جماعت تو ان میں سے درمیانہ روش کی ہے، باقی ان میں سے بہت سے لوگوں کے برے اعمال ہیں۔(3) info

(1) تورات اور انجیل کے پابند رہنے کا مطلب، ان کے ان احکام کی پابندی ہے جو ان میں انہیں دیئے گئے، اور انہی میں ایک حکم آخری نبی پر ایمان لانا بھی تھا۔ اور ”وَمَا أُنْزِلَ“ سے مراد تمام آسمانی کتب پر ایمان لانا ہے جن میں قرآن کریم بھی شامل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ اسلام قبول کرلیتے۔
(2) اوپر نیچے کا ذکر یا تو بطور مبالغہ ہے، یعنی کثرت سے اور انواع واقسام کے رزق اللہ تعالیٰ مہیا فرماتا۔ یا اوپر سے مراد آسمان ہے یعنی حسب ضرورت خوب بارشیں برساتا اور نیچے سے مراد زمین ہے۔ یعنی زمین اس بارش کو اپنے اندر جذب کرکے خوب پیداوار دیتی۔ نتیجتاً شادابی اور خوش حالی کا دور دورہ ہو جاتا۔ جس طرح ایک دوسرے مقام پر فرمایا ”وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ“ (الأعراف: 96) ”اگر بستیوں والے ایمان لائے ہوتے اور انہوں نے تقویٰ اختیار کیا ہوتا تو ہم ان پر آسمان وزمین کی برکات کے (دروازے) کھول دیتے“۔
(3) لیکن ان کی اکثریت نے ایمان کا یہ راستہ اختیار نہیں کیا اور وہ اپنے کفر پر مصر اور رسالت محمدی سے انکار پر اڑے ہوئے ہیں۔ اسی اصرار اور انکار کو یہاں برے اعمال سے تعبیر کیا گیا ہے۔ درمیانہ روش کی ایک جماعت سے مراد عبداللہ بن سلام (رضي الله عنه) جیسے 8 ،9 افراد ہیں جو یہود مدینہ میں سے مسلمان ہوئے۔

التفاسير:

external-link copy
67 : 5

یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ ؕ— وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ ؕ— وَاللّٰهُ یَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ؕ— اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكٰفِرِیْنَ ۟

اے رسول جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے پہنچا دیجیئے۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی(1) ، اور آپ کو اللہ تعالیٰ لوگوں سے بچا لے گ(2)ا بےشک اللہ تعالیٰ کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ info

(1) اس حکم کا مفاد یہ ہے کہ جو کچھ آپ (صلى الله عليه وسلم) پر نازل کیا گیا ہے، بلاکم وکاست اور بلاخوف لومۃ لائم آپ لوگوں تک پہنچا دیں، چنانچہ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے ایسا ہی کیا۔ حضرت عائشہ (رضی الله عنها) فرماتی ہیں کہ ”جو شخص یہ گمان کرے کہ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے کچھ چھپا لیا، اس نے یقیناً جھوٹ کہا۔“ (صحيح بخاري۔ 4855) اور حضرت علی (رضي الله عنه) سے بھی جب سوال کیا گیا کہ تمہارے پاس قرآن کے علاوہ وحی کے ذریعے سے نازل شدہ کوئی بات ہے؟ تو انہوں نے قسم کھا کر نفی فرمائی اور فرمایا ”الا فَهْمًا يُعْطِيهِ اللهُ رَجُلا“ (البتہ قرآن کا فہم ہے جسے اللہ تعالیٰ کسی کو بھی عطا فرما دے) (صحيح بخاري -نمبر3-69) اورحجۃ الوداع کے موقع پر آپ (صلى الله عليه وسلم) نے صحابہ کے ایک لاکھ یا ایک لاکھ چالیس ہزار کے جم غفیر میں فرمایا ”تم میرے بارے میں کیا کہو گے ؟ انہوں نے کہا: نَشْهَدُ أَنَّكَ قَدْ بَلَّغْتَ، وَأَدَّيْتَ، وَنَصَحْتَ ( ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے اللہ کا پیغام دیا اور ادا کردیا اور خیرخواہی فرما دی)، آپ (صلى الله عليه وسلم) نے آسمان کی طرف انگلی کا اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ”اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ“ ( تین مرتبہ) یا ”اللَّهُمَّ فَاشْهَدْ“ ( تین مرتبہ) (صحيح مسلم، كتاب الحج، باب حجة النبي صلى الله عليه وسلم) یعنی اے اللہ! میں نے تیرا پیغام پہنچا دیا، تو گواہ رہ، تو گواہ رہ، تو گواہ رہ۔
(2) یہ حفاظت اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طریقہ پر بھی فرمائی اور دنیاوی اسباب کے تحت بھی دنیاوی اسباب کے تحت اس آیت کے نزول سے بہت قبل اللہ تعالیٰ نے پہلے آپ کے چچا ابوطالب کے دل میں آپ کی طبعی محبت ڈال دی، اور وہ آپ کی حفاظت کرتے رہے، ان کا کفر پر قائم رہنا بھی شاید انہی اسباب کا ایک حصہ معلوم ہوتا ہے۔ کیوں کہ اگر وہ مسلمان ہوجاتے تو شاید سرداران قریش کے دل میں ان کی وہ ہیبت وعظمت نہ رہتی جو ان کے ہم مذہب ہونے کی صورت میں آخر وقت تک رہی۔ پھر ان کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نے بعض سرداران قریش کے ذریعہ پھر انصار مدینہ کے ذریعے سے آپ کا تحفظ فرمایا۔ پھر جب یہ آیت نازل ہوگئی تو آپ نے تحفظ کے ظاہری اسباب (پہرے وغیرہ) اٹھوا دیئے۔ اس کے بعد بارہا سنگین خطرے پیش آئے لیکن اللہ نے حفاظت فرمائی۔ چنانچہ وحی کے ذریعے سے اللہ نے وقتاً فوقتاً یہودیوں کے مکر وکید سے مطلع فرماکر خاص خطرے کے مواقع پر بچایا اور گھمسان کی جنگوں میں کفار کے انتہائی پرخطر حملوں سے بھی آپ کو محفوظ رکھا۔ ذَلِكَ مِنْ قُدْرَةِ اللهِ وَقَدَّرَهُ بِمَا شَاءَ، وَلا يَرُدُّ قَدَرَ اللهِ وَقَضَاءَهُ أَحَدٌ وَلا يَغْلِبُهُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْعَلِيمُ.

التفاسير:

external-link copy
68 : 5

قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰی شَیْءٍ حَتّٰی تُقِیْمُوا التَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِیْلَ وَمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ ؕ— وَلَیَزِیْدَنَّ كَثِیْرًا مِّنْهُمْ مَّاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ طُغْیَانًا وَّكُفْرًا ۚ— فَلَا تَاْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَ ۟

آپ کہہ دیجیئے کہ اے اہل کتاب! تم دراصل کسی چیز پر نہیں جب تک کہ تورات وانجیل کو اور جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کی سے طرف اتارا گیا ہے قائم نہ کرو، جو کچھ آپ کی جانب آپ کے رب کی طرف سے اترا ہے وه ان میں سے بہتوں کو شرارت اور انکار میں اور بھی بڑھائے گا ہی(1) ، تو آپ ان کافروں پر غمگین نہ ہوں۔ info

(1) یہ ہدایت اور گمراہی اس اصول کے مطابق ہے جو سنت اللہ رہی ہے۔ یعنی جس طرح بعض اعمال واشیا سے اہل ایمان کے ایمان وتصدیق، عمل صالح اور علم نافع میں اضافہ ہوتا ہے، اسی طرح معاصی اور تمرد سے کفر وطغیان میں زیادتی ہوتی ہے۔ اس مضمون کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد جگہ بیان فرمایا ہے۔ مثلاً ”قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاءٌ وَالَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ فِي آذَانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى أُولَئِكَ يُنَادَوْنَ مِنْ مَكَانٍ بَعِيدٍ“ (حم السجدة: 44) ”فرما دیجئے یہ قرآن ایمان والوں کے لئے ہدایت اور شفا ہے اور جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کے کانوﮞ میں گرانی (بہراپن) ہے اور یہ ان پر اندھاپن ہے۔ گرانی کے سبب ان کو (گویا) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے“۔ ”وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ وَلا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلا خَسَارًا“ (بني إسرائيل: 82) ”اور ہم قرآن کے ذریعے سے وہ چیز نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لئے شفا اور رحمت ہے اور ظالموں کے حق میں تو نقصان ہی کا بڑھانا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
69 : 5

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ هَادُوْا وَالصّٰبِـُٔوْنَ وَالنَّصٰرٰی مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ ۟

مسلمان، یہودی، ستاره پرست اور نصرانی کوئی ہو، جو بھی اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ﻻئے اور نیک عمل کرے وه محض بےخوف رہے گا اور بالکل بےغم ہوجائے گا۔(1) info

(1) یہ وہی مضمون ہے جو سورۂ بقرۃ کی آیت 62 میں بیان ہوا ہے، اسے دیکھ لیا جائے۔

التفاسير:

external-link copy
70 : 5

لَقَدْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ وَاَرْسَلْنَاۤ اِلَیْهِمْ رُسُلًا ؕ— كُلَّمَا جَآءَهُمْ رَسُوْلٌۢ بِمَا لَا تَهْوٰۤی اَنْفُسُهُمْ ۙ— فَرِیْقًا كَذَّبُوْا وَفَرِیْقًا یَّقْتُلُوْنَ ۟ۗ

ہم نے بالیقین بنیاسرائیل سے عہد وپیمان لیا اور ان کی طرف رسولوں کو بھیجا، جب کبھی رسول ان کے پاس وه احکام لے کر آئے جو ان کی اپنی منشا کے خلاف تھے تو انہوں نے ان کی ایک جماعت کی تکذیب کی اور ایک جماعت کو قتل کردیا۔ info
التفاسير: