क़ुरआन के अर्थों का अनुवाद - उर्दू अनुवाद - मुहम्मद जूनागढ़ी

पृष्ठ संख्या:close

external-link copy
38 : 7

قَالَ ادْخُلُوْا فِیْۤ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ فِی النَّارِ ؕ— كُلَّمَا دَخَلَتْ اُمَّةٌ لَّعَنَتْ اُخْتَهَا ؕ— حَتّٰۤی اِذَا ادَّارَكُوْا فِیْهَا جَمِیْعًا ۙ— قَالَتْ اُخْرٰىهُمْ لِاُوْلٰىهُمْ رَبَّنَا هٰۤؤُلَآءِ اَضَلُّوْنَا فَاٰتِهِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ ؕ۬— قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ ۟

اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جو فرقے تم سے پہلے گزر چکے ہیں(1) جنات میں سے بھی اور آدمیوں میں سے بھی، ان کے ساتھ تم بھی دوزخ میں جاؤ۔ جس وقت بھی کوئی جماعت داخل ہوگی اپنی دوسری جماعت کو لعنت کرے گی(2) یہاں تک کہ جب اس میں سب جمع ہوجائیں گے(3) تو پچھلے لوگ پہلے لوگوں کی نسبت کہیں گے(4) کہ ہمارے پروردگار ہم کو ان لوگوں نے گمراه کیا تھا سو ان کو دوزخ کا عذاب دو گنا دے(5)۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ سب ہی کا دوگنا ہے(6)، لیکن تم کو خبر نہیں۔ info

(1) ”أُمَم ٌ“ أمَّةٌ کی جمع ہے۔ مراد وہ فرقے اور گروہ ہیں جو کفروشقاق اور شرک وتکذیب میں ایک جیسے ہوں گے۔ ”فِي“ بمعنی ”مَعَ“ بھی ہوسکتا ہے۔ یعنی تم سے پہلے انسانوں اور جنوں میں جو گروہ تم جیسے یہاں آچکے ہیں، ان کے ساتھ جہنم میں داخل ہوجاوء یا ان میں شامل ہوجاؤ۔
(2) ”لَعَنَتْ أُخْتَهَا“ اپنی دوسری جماعت کو لعنت کرے گی۔ أُخْتٌ بہن کو کہتے ہیں۔ ایک جماعت (امت) کو دوسری جماعت (امت) کی بہن بہ اعتبار دین، یا گمراہی کے کہا گیا۔ یعنی دونوں ہی ایک غلط مذہب کے پیرو یا گمراہ تھے یا جہنم کے ساتھی ہونے کے اعتبار سے ان کو ایک دوسری کی بہن قرار دیا گیا ہے۔
(3) ”ادَّارَكُوا“ کے معنی ہیں تَدَارَكُوا جب ایک دوسرے کو ملیں گے اور باہم اکٹھے ہوں گے۔
(4) ”أُخْرَىٰ“ (پچھلے) سے مراد بعد میں داخل ہونے والے اور اولیٰ (پہلے) سے مراد ان سے پہلے داخل ہونے والے ہیں۔ یا أُخْرَىٰ سےأَتْبَاعٌ ( پیروکار) اور أُولَى سے مَتْبُوعٌ لیڈر اور سردار ہیں۔ ان کا جرم چونکہ زیادہ شدید ہے کہ خود بھی راہ حق سے دور رہے اور دوسروں کو بھی کوشش کرکے اس سے دور رکھا، اس لئے یہ اپنے اتباع سے پہلے جہنم میں جائیں گے۔
(5) جس طرح ایک دوسرے مقام پر فرمایا گیا۔ جہنمی کہیں گے «رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَ (1) رَبَّنَا آتِهِمْ ضِعْفَيْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْنًا كَبِيرًا» ( الاحزاب: 67۔ 68) ”اے ہمارے رب! ہم تو اپنے سرداروں اور بڑوں کے پیچھے لگے رہے، پس انہوں نے ہمیں سیدھے راستے سے گمراہ کیا، یااللہ ان کو دوگنا عذاب دے اور ان کو بڑی لعنت کر“۔
(6) یعنی اب ایک دوسرے کو طعنے دینے، کوسنے اور ایک دوسرے پر الزام دھرنے سے کوئی فائدہ نہیں، تم سب ہی اپنی اپنی جگہ بڑے مجرم ہو اور تم سب ہی دوگنے عذاب کے مستحق ہو۔ اتباع اور متبوعین کا یہ مکالمہ سورۂ سبا: 31، 32 میں بھی بیان کیا گیا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
39 : 7

وَقَالَتْ اُوْلٰىهُمْ لِاُخْرٰىهُمْ فَمَا كَانَ لَكُمْ عَلَیْنَا مِنْ فَضْلٍ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْسِبُوْنَ ۟۠

اور پہلے لوگ پچھلے لوگوں سے کہیں گے کہ پھر تم کو ہم پر کوئی فوقیت نہیں سو تم بھی اپنی کمائی کے بدلے میں عذاب کامزه چکھو۔ info
التفاسير:

external-link copy
40 : 7

اِنَّ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَاسْتَكْبَرُوْا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ اَبْوَابُ السَّمَآءِ وَلَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ حَتّٰی یَلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخِیَاطِ ؕ— وَكَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُجْرِمِیْنَ ۟

جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے تکبر کیا ان کے لئے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائیں گے(1) اور وه لوگ کبھی جنت میں نہ جائیں گے جب تک کہ اونٹ سوئی کے ناکہ کے اندر سے نہ چلا جائے(2) اور ہم مجرم لوگوں کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں۔ info

(1) اس سے بعض نے اعمال، بعض نے ارواح اور بعض نے دعا مراد لی ہے۔ یعنی ان کے عملوں، یا روحوں یا دعا کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے، یعنی اعمال اور دعا قبول نہیں ہوتی اور روحیں واپس زمین میں لوٹا دی جاتی ہیں (جیسا کہ مسند احمد، جلد 2، صفحہ 364، 365 کی ایک حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے) امام شوکانی فرماتے ہیں کہ تینوں ہی چیزیں مراد ہوسکتی ہیں۔
(2) یہ تعلیق بالمحال ہے جس طرح اونٹ کا سوئی کے ناکے سے گذرنا ممکن نہیں، اسی طرح اہل کفر کا جنت میں داخلہ ممکن نہیں۔ اونٹ کی مثال بیان فرمائی اس لئے کہ اونٹ عربوں میں متعارف تھا اور جسمانی اعتبار سے ایک بڑا جانور تھا۔ اور سوئی کا ناکہ (سوراخ) یہ اپنے باریک اور تنگ ہونے کے اعتبار سے بے مثال ہے۔ ان دونوں کے ذکر نے اس تعلیق بالمحال کے مفہوم کو غایت درجے واضح کردیا ہے۔ تعلیق بالمحال کا مطلب ہے، ایسی چیز کے ساتھ مشروط کر دینا جو ناممکن ہو۔ جیسے اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل نہیں ہوسکتا۔ اب کسی چیز کے وقوع کو، اونٹ کے سوئی کے ناکے میں داخل ہونے کے ساتھ مشروط کردینا، تعلیق بالمحال ہے۔

التفاسير:

external-link copy
41 : 7

لَهُمْ مِّنْ جَهَنَّمَ مِهَادٌ وَّمِنْ فَوْقِهِمْ غَوَاشٍ ؕ— وَكَذٰلِكَ نَجْزِی الظّٰلِمِیْنَ ۟

ان کے لئے آتش دوزخ کا بچھونا ہوگا اور ان کے اوپر (اسی کا) اوڑھنا ہوگا(1) اور ہم ایسے ﻇالموں کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں۔ info

(1) ”غَواشٍ“ غَاشِيَةٌ کی جمع ہے۔ ڈھانپ لینے والی۔ یعنی آگ ہی ان کا اوڑھنا ہوگا یعنی اوپر سے بھی آگ نے ان کو ڈھانپا یعنی گھیرا ہوگا۔

التفاسير:

external-link copy
42 : 7

وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَاۤ ؗ— اُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ ۚ— هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ ۟

اور جو لوگ ایمان ﻻئے اور انہوں نے نیک کام کئے ہم کسی شخص کو اس کی قدرت سے زیاده کسی کا مکلف نہیں بناتے(1) وہی لوگ جنت والے ہیں اور وه اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ info

(1) یہ جملہ معترضہ ہے جس سے مقصود یہ بتانا ہے کہ ایمان اور عمل صالح، یہ ایسی چیزیں نہیں ہیں کہ جو انسانی طاقت سے زیادہ ہوں اور انسان ان پر عمل کرنے کی قدرت نہ رکھتے ہوں۔ بلکہ ہر انسان ان کو بہ آسانی اپنا سکتا ہے اور ان کے مقتضیات کو بروئے عمل لاسکتا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
43 : 7

وَنَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهِمُ الْاَنْهٰرُ ۚ— وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ هَدٰىنَا لِهٰذَا ۫— وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِیَ لَوْلَاۤ اَنْ هَدٰىنَا اللّٰهُ ۚ— لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ ؕ— وَنُوْدُوْۤا اَنْ تِلْكُمُ الْجَنَّةُ اُوْرِثْتُمُوْهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ۟

اور جو کچھ ان کے دلوں میں (کینہ) تھا ہم اس کو دور کردیں گے(1) ۔ ان کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ اور وه لوگ کہیں گے کہ اللہ کا (لاکھ لاکھ) شکر ہے جس نے ہم کو اس مقام تک پہنچایا اور ہماری کبھی رسائی نہ ہوتی اگر اللہ تعالیٰ ہم کو نہ پہنچاتا(2)۔ واقعی ہمارے رب کے پیغمبر سچی باتیں لے کر آئے تھے۔ اور ان سے پکار کر کہا جائے گا کہ اس جنت کے تم وارث بنائے گئے ہو اپنے اعمال کے بدلے۔(3) info

(1) ”غِلٍّ“ اس کینے اور بغض کو کہا جاتا ہے جو سینوں میں مستور ہو۔ اللہ تعالیٰ اہل جنت پر یہ انعام بھی فرمائے گا کہ ان کے سینوں میں ایک دوسرے کے خلاف بغض وعداوت کے جو جذبات ہوں گے، وہ دور کردے گا، پھر ان کے دل ایک دوسرے کے بارے میں آئینے کی طرح صاف ہوجائیں گے، کسی کے بارے میں دل میں کوئی کدورت اور عداوت نہیں رہے گی۔ بعض نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اہل جنت کے درمیان درجات و منازل کا جو تفاوت ہوگا، اس پر وہ ایک دوسرے سے حسد نہیں کریں گے۔ پہلے مفہوم کی تائید ایک حدیث سے ہوتی ہے کہ جنتیوں کو، جنت اور دوزخ کے درمیان ایک پل پر روک لیا جائے گا اور ان کے درمیان آپس کی جو زیادتیاں ہوں گی، ایک دوسرے کو ان کا بدلہ دیا دلایا جائے گا، حتیٰ کہ جب وہ بالکل پاک صاف ہوجائیں گے تو پھر انہیں جنت میں داخلے کی اجازت دے دی جائے گی (صحیح بخاری۔ کتاب المظالم، باب قصاص المظالم۔) جیسے صحابہ کرام (رضي الله عنهم) کی باہمی رنجشیں ہیں جو سیاسی رقابت میں ان کے درمیان ہوئیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے مجھے امید ہے کہ میں، عثمان اور طلحہ وزبیر رضی اللہ عنہم، ان لوگوں میں سے ہوں گے جن کے بارے میں اللہ نے فرمایا ہے «وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ»( ابن کثیر)
(2) یعنی یہ ہدایت جس سے ہمیں ایمان اور عمل صالح کی زندگی نصیب ہوئی اور پھر انہیں بارگاہ الہیٰ میں قبولیت کا درجہ بھی حاصل ہوا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہے اور اس کا فضل ہے۔ اگر یہ رحمت اور فضل الٰہی نہ ہوتا تو ہم یہاں تک نہ پہنچ سکتے۔ اسی مفہوم کی یہ حدیث ہے جس میں نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا ”یہ بات اچھی طرح جان لو کہ تم میں سے کسی کو محض اس کا عمل جنت میں نہیں لے جائے گا، جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت نہ ہوگی۔ صحابہ (رضي الله عنهم) نے پوچھا یارسول اللہ! آپ (صلى الله عليه وسلم) بھی؟ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا ہاں میں بھی، اس وقت تک جنت میں نہیں جاؤں گا جب تک کہ رحمت الٰہی مجھے اپنے دامن میں نہیں سمیٹ لے گی۔“ (صحيح بخاري، كتاب الرقاق، باب القصد والمداومة على العمل - صحيح مسلم، كتاب صفة القيامة- باب لن يدخل أحد الجنة بعمله)۔
(3) یہ تصریح پچھلی بات اور حدیث مذکور کے منافی نہیں۔ اس لئے کہ نیک عمل کی توفیق بھی بجائے خود اللہ کا فضل و احسان ہے۔

التفاسير: