क़ुरआन के अर्थों का अनुवाद - उर्दू अनुवाद - मुहम्मद जूनागढ़ी

اعراف

external-link copy
1 : 7

الٓمّٓصٓ ۟ۚ

المص info
التفاسير:

external-link copy
2 : 7

كِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَیْكَ فَلَا یَكُنْ فِیْ صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْهُ لِتُنْذِرَ بِهٖ وَذِكْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ ۟

یہ ایک کتاب ہے جو آپ کے پاس اس لئے بھیجی گئی ہے کہ آپ اس کے ذریعہ سے ڈرائیں، سو آپ کے دل میں اس سے بالکل تنگی نہ ہو(1) اور نصیحت ہے ایمان والوں کے لئے۔ info

(1) یعنی اس کے ابلاغ سے آپ کا دل تنگ نہ ہو کہ کہیں کافر میری تکذیب نہ کریں اور مجھے ایذا نہ پہنچائیں اس لئے کہ اللہ آپ کا حافظ و ناصر ہے یا حرج شک کے معنی میں ہے یعنی اس کے منزّل من اللہ ہونے کے بارے میں آپ اپنے سینے میں شک محسوس نہ کریں۔ یہ نہی بطور تعریض ہے اور اصل مخاطب امّت ہے کہ وہ شک نہ کرے۔

التفاسير:

external-link copy
3 : 7

اِتَّبِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اَوْلِیَآءَ ؕ— قَلِیْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ ۟

تم لوگ اس کا اتباع کرو جو تمہارے رب کی طرف سے آئی ہے(1) اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر من گھڑت سرپرستوں کی اتباع مت کرو تم لوگ بہت ہی کم نصیحت پکڑتے ہو۔ info

(1) جو اللہ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے یعنی قرآن، اور جو رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا یعنی حدیث، کیونکہ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا کہ ”میں قرآن اور اس کی مثل اس کے ساتھ دیا گیا ہوں“۔ ان دونوں کا اتباع ضروری ہے۔ ان کے علاوہ کسی کا اتباع ضروری نہیں بلکہ ان کا انکار لازمی ہے۔ جیسا کہ اگلے فقرے میں فرمایا کہ ”اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دوسروں کی پیروی مت کرو“۔ جس طرح زمانۂ جاہلیت میں سرداروں اور نجومیوں کاہنوں کی بات کو ہی اہمیت دی جاتی حتیٰ کہ حلال وحرام میں بھی ان کو سند تسلیم کیا جاتا تھا۔

التفاسير:

external-link copy
4 : 7

وَكَمْ مِّنْ قَرْیَةٍ اَهْلَكْنٰهَا فَجَآءَهَا بَاْسُنَا بَیَاتًا اَوْ هُمْ قَآىِٕلُوْنَ ۟

اور بہت بستیوں کو ہم نے تباه کردیا اور ان پر ہمارا عذاب رات کے وقت پہنچا یا ایسی حالت میں کہ وه دوپہر کے وقت آرام میں تھے۔(1) info

(1) ”قَائِلُونَ“ قَيْلُولَةٌ سے ہے، جو دوپہر کے وقت استراحت (آرام کرنے) کو کہا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہمارا عذاب اچانک ایسے وقتوں میں آیا جب وہ آرام و راحت کے لئے بے خبر بستروں میں آسودۂ خواب تھے۔

التفاسير:

external-link copy
5 : 7

فَمَا كَانَ دَعْوٰىهُمْ اِذْ جَآءَهُمْ بَاْسُنَاۤ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوْۤا اِنَّا كُنَّا ظٰلِمِیْنَ ۟

سو جس وقت ان پر ہمارا عذاب آیا اس وقت ان کے منھ سے بجز اس کے اور کوئی بات نہ نکلی کہ واقعی ہم ﻇالم تھے۔(1) info

(1) لیکن عذاب آجانے کے بعد ایسے اعتراف کا کوئی فائدہ نہیں۔ جیسا کہ پہلے وضاحت گذر چکی ہے «فَلَمْ يَكُ يَنْفَعُهُمْ إِيمَانُهُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا» (المؤمن: 85) ”جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا تو اس وقت ان کا ایمان لانا، ان کے لئے نفع مند نہیں ہوا“۔

التفاسير:

external-link copy
6 : 7

فَلَنَسْـَٔلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْهِمْ وَلَنَسْـَٔلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَ ۟ۙ

پھر ہم ان لوگوں سے ضرور پوچھیں گے جن کے پاس پیغمبر بھیجے گئے تھے اور ہم پیغمبروں سے ضرور پوچھیں گے۔(1) info

(1) امتوں سے یہ پوچھا جائے گا کہ تمہارے پاس پیغمبر آئے تھے؟ انہوں نے تمہیں ہمارا پیغام پہنچایا تھا؟ وہاں وہ جواب دیں گے کہ ہاں! یااللہ تیرے پیغمبر تو یقیناً ہمارے پاس آئے تھے لیکن ہماری ہی قسمت پھوٹی تھی کہ ہم نے ان کی پروا نہیں کی اور پیغمبروں سے پوچھا جائے گا کہ تم نے ہمارا پیغام اپنی امتوں کو پہنچایا تھا؟ اور انہوں نے اس کے مقابلے میں کیا رویّہ اختیار کیا؟ پیغمبر اس سوال کا جواب دیں گے۔ جس کی تفصیل قرآن مجید کے مختلف مقامات پر موجود ہے۔

التفاسير:

external-link copy
7 : 7

فَلَنَقُصَّنَّ عَلَیْهِمْ بِعِلْمٍ وَّمَا كُنَّا غَآىِٕبِیْنَ ۟

پھر ہم چونکہ پوری خبر رکھتے ہیں ان کے روبرو بیان کردیں گے(1) ۔ اور ہم کچھ بے خبر نہ تھے۔ info

(1) چونکہ ہر ظاہر اور پوشیدہ بات کا علم رکھتے ہیں اس لئے ہم پھر دونوں (امتیوں اور پیغمبروں) کے سامنے ساری باتیں بیان کریں گے اور جو کچھ انہوں نے کیا ہوگا، ان کے سامنے رکھ دیں گے۔

التفاسير:

external-link copy
8 : 7

وَالْوَزْنُ یَوْمَىِٕذِ ١لْحَقُّ ۚ— فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ۟

اور اس روز وزن بھی برحق ہے پھر جس شخص کا پلا بھاری ہوگا سو ایسے لوگ کامیاب ہوں گے۔ info
التفاسير:

external-link copy
9 : 7

وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ ۟

اور جس شخص کا پلا ہلکا ہوگا سو یہ وه لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنا نقصان کرلیا بسبب اس کے کہ ہماری آیتوں کے ساتھ ﻇلم کرتے تھے۔(1) info

(1) ان آیات میں وزن اعمال کا مسئلہ بیان کیا گیا ہے جو قیامت والے دن ہوگا اور جسے قرآن کریم میں بھی متعدد جگہ اور احادیث میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ترازو میں اعمال تولے جائیں گے، جس کا نیکیوں والا پلڑا بھاری ہوگا، وہ کامیاب ہوگا اور جس کا بدیوں والا پلڑا بھاری ہوگا، وہ ناکام ہوگا۔ یہ اعمال کس طرح تولے جائیں گے جب کہ یہ اعراض ہیں یعنی ان کا ظاہری وجود اور جسم نہیں ہے؟ اس بارے میں ایک رائے تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت والے دن ان کو اجسام میں تبدیل فرما دے گا اور ان کا وزن ہوگا۔ دوسری رائے تو یہ ہے کہ وہ صحیفے اور رجسٹر تو لے جائیں گے جن میں انسان کے اعمال درﺝ ہوں گے۔ تیسری رائے یہ ہے کہ خود صاحب عمل کو تولا جائے گا۔ تینوں مسلکوں والوں کے پاس اپنے مسلک کی حمایت میں صحیح احادیث و آثار موجود ہیں، اس لئے امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ تینوں ہی باتیں صحیح ہوسکتی ہیں ممکن ہے کبھی اعمال، کبھی صحیفے اور کبھی صاحب عمل کو تولا جائے (دلائل کے لئے دیکھئے تفسیر ابن کثیر) بہرحال میزان اور وزن اعمال کا مسئلہ قرآن وحدیث سے ثابت ہے۔ اس کا انکار یا اس کی تاویل گمراہی ہے۔ اور موجودہ دور میں تو اس کے انکار کی اب مزید کوئی گنجائش نہیں کہ بے وزن چیزیں بھی تولی جانے لگی ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
10 : 7

وَلَقَدْ مَكَّنّٰكُمْ فِی الْاَرْضِ وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِیْهَا مَعَایِشَ ؕ— قَلِیْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ ۟۠

اور بے شک ہم نے تم کو زمین پر رہنے کی جگہ دی اور ہم نے تمہارے لئے اس میں سامان رزق پیدا کیا، تم لوگ بہت ہی کم شکر کرتے ہو۔ info
التفاسير:

external-link copy
11 : 7

وَلَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ ۖۗ— فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ ؕ— لَمْ یَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ ۟

اور ہم نے تم کو پیدا کیا(1) ، پھر ہم ہی نے تمہاری صورت بنائی پھر ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجده کرو سو سب نے سجده کیا بجز ابلیس کے، وه سجده کرنے والوں میں شامل نہ ہوا۔ info

(1) خَلَقْنَاكُمْ میں ضمیر اگرچہ جمع کی ہے لیکن مراد ابوالبشر حضرت آدم (عليه السلام) ہیں۔

التفاسير: