क़ुरआन के अर्थों का अनुवाद - उर्दू अनुवाद - मुहम्मद जूनागढ़ी

पृष्ठ संख्या:close

external-link copy
63 : 11

قَالَ یٰقَوْمِ اَرَءَیْتُمْ اِنْ كُنْتُ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّیْ وَاٰتٰىنِیْ مِنْهُ رَحْمَةً فَمَنْ یَّنْصُرُنِیْ مِنَ اللّٰهِ اِنْ عَصَیْتُهٗ ۫— فَمَا تَزِیْدُوْنَنِیْ غَیْرَ تَخْسِیْرٍ ۟

اس نے جواب دیا کہ اے میری قوم کے لوگو! ذرا بتاؤ تو اگر میں اپنے رب کی طرف سے کسی مضبوط دلیل پر ہوا اور اس نے مجھے اپنے پاس کی رحمت عطا کی ہو(1) ، پھر اگر میں نے اس کی نافرمانی کر(2) لی تو کون ہے جو اس کے مقابلے میں میری مدد کرے؟ تم تو میرا نقصان ہی بڑھا رہے ہو.(3) info

(1) بِیْنَۃٍ سے مراد وہ ایمان و یقین ہے، جو اللہ تعالٰی پیغمبر کو عطا فرماتا ہے اور رحمت سے نبوت، جیسا کہ پہلے وضاحت گزر چکی ہے۔
(2) نافرمانی سے مراد یہ ہے کہ اگر میں تمہیں حق کی طرف اور اللہ واحد کی عبادت کی طرف بلانا چھوڑ دوں، جیسا کہ تم چاہتے ہو۔
(3) یعنی اگر میں ایسا کروں تو مجھے کوئی فائدہ تو نہیں پہنچا سکتے، البتہ اس طرح تم میرے نقصان و خسارے میں ہی اضافہ کرو گے۔

التفاسير:

external-link copy
64 : 11

وَیٰقَوْمِ هٰذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ لَكُمْ اٰیَةً فَذَرُوْهَا تَاْكُلْ فِیْۤ اَرْضِ اللّٰهِ وَلَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْٓءٍ فَیَاْخُذَكُمْ عَذَابٌ قَرِیْبٌ ۟

اور اے میری قوم والو! یہ اللہ کی بھیجی ہوئی اونٹنی ہے جو تمہارے لئے ایک معجزه ہے اب تم اسے اللہ کی زمین میں کھاتی ہوئی چھوڑ دو اور اسے کسی طرح کی ایذا نہ پہنچاؤ ورنہ ايک قریب عذاب تمہیں پکڑ لے گا .(1) info

(1) یہ وہی اونٹنی جو اللہ تعالٰی نے ان کے کہنے پر ان کی آنکھوں کے سامنے ایک پہاڑ یا ایک چٹان سے برآمد فرمائی اس لئے اسے ”نَاقَةُ اللهِ“ (اللہ کی اونٹنی) کہا گیا ہے کیونکہ یہ خالص اللہ کے حکم سے معجزانہ طور پر مذکورہ خلاف عادت طریقے سے ظاہر ہوئی تھی۔ اس کی بابت انہیں تاکید کر دی گئی تھی کہ اسے ایذا نہ پہنچانا ورنہ تم عذاب الٰہی کی گرفت میں آ جاؤ گے۔

التفاسير:

external-link copy
65 : 11

فَعَقَرُوْهَا فَقَالَ تَمَتَّعُوْا فِیْ دَارِكُمْ ثَلٰثَةَ اَیَّامٍ ؕ— ذٰلِكَ وَعْدٌ غَیْرُ مَكْذُوْبٍ ۟

پھر بھی ان لوگوں نے اس اونٹنی کے پاؤں کاٹ ڈالے، اس پر صالح نے کہا کہ اچھا تم اپنے گھروں میں تین تین دن تک تو ره سہ لو، یہ وعده جھوٹا نہیں ہے.(1) info

(1) لیکن ان ظالموں نے اس زبردست معجزے کے باوجود نہ صرف ایمان لانے سے گریز کیا بلکہ حکم الٰہی سے صریح سرتابی کرتے ہوئے اسے مار ڈالا، جس کے بعد انہیں تین دن کی مہلت دے دی گئی کہ تین دن کے بعد تمہیں عذاب کے ذریعے سے ہلاک کر دیا جائے گا۔

التفاسير:

external-link copy
66 : 11

فَلَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا نَجَّیْنَا صٰلِحًا وَّالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَمِنْ خِزْیِ یَوْمِىِٕذٍ ؕ— اِنَّ رَبَّكَ هُوَ الْقَوِیُّ الْعَزِیْزُ ۟

پھر جب ہمارا فرمان آپہنچا(1) ، ہم نے صالح کو اور ان پر ایمان ﻻنے والوں کو اپنی رحمت سے اس سے بھی بچا لیا اور اس دن کی رسوائی سے بھی۔ یقیناً تیرا رب نہایت توانا اور غالب ہے. info

(1) اس سے مراد وہی عذاب ہے جو وعدے کے مطابق چوتھے دن آیا اور حضرت صالح (عليه السلام) اور ان پر ایمان لانے والوں کے سوا، سب کو ہلاک کر دیا گیا۔

التفاسير:

external-link copy
67 : 11

وَاَخَذَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا الصَّیْحَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دِیَارِهِمْ جٰثِمِیْنَ ۟ۙ

اور ﻇالموں کو بڑے زور کی چنگھاڑ نے آدبوچا(1) ، پھر تو وه اپنے گھروں میں اوندھے پڑے ہوئے ره گئے.(2) info

(1) یہ عذاب صَيْحَةٌ (چیخ زور کی کڑک) کی صورت میں آیا، بعض کے نزدیک یہ حضرت جبرائیل (عليه السلام) کی چیخ تھی اور بعض کے نزدیک آسمان سے آئی تھی۔ جس سے ان کے دل پارہ پارہ ہوگئے اور ان کی موت واقعہ ہو گئی، اس کے بعد یا اس کے ساتھ ہی بھونچال (رَجْفَةٌ) بھی آیا، جس نے سب کچھ تہ بالا کر دیا۔ جیسا کہ سورہ اعراف ۷۸ میں «فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ» کے الفاظ ہیں۔
(2) جس طرح پرندہ مرنے کے بعد زمین پر مٹی کے ساتھ پڑا ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ موت سے ہم کنار ہو کر منہ کے بل زمین پر پڑے رہے۔

التفاسير:

external-link copy
68 : 11

كَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْهَا ؕ— اَلَاۤ اِنَّ ثَمُوْدَاۡ كَفَرُوْا رَبَّهُمْ ؕ— اَلَا بُعْدًا لِّثَمُوْدَ ۟۠

ایسے کہ گویا وه وہاں کبھی آباد ہی نہ تھے(1) ، آگاه رہو کہ قوم ﺛمود نے اپنے رب سے کفر کیا۔ سن لو! ان ﺛمودیوں پر پھٹکار ہے. info

(1) ان کی بستی یا خود یہ لوگ یا دونوں ہی، اس طرح حرف غلط کی طرح مٹا دیئے گئے، گویا وہ کبھی وہاں آباد ہی نہ تھے۔

التفاسير:

external-link copy
69 : 11

وَلَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ بِالْبُشْرٰی قَالُوْا سَلٰمًا ؕ— قَالَ سَلٰمٌ فَمَا لَبِثَ اَنْ جَآءَ بِعِجْلٍ حَنِیْذٍ ۟

اور ہمارے بھیجے ہوئے پیغامبر ابراہیم کے پاس خوشخبری لے کر پہنچے(1) اور سلام کہا(2)، انہوں نے بھی جواب سلام دیا(3) اور بغیر کسی تاخیر کے گائے کا بھنا ہوا بچھڑا لے آئے.(4) info

(1) یہ دراصل حضرت لوط (عليه السلام) اور ان کی قوم کے قصے کا ایک حصہ ہے۔ حضرت لوط علیہ السلام، حضرت ابراہیم (عليه السلام) کے چچا زاد بھائی تھے۔ حضرت لوط (عليه السلام) کی بستی بحرہ، میت کے جنوب مشرق میں تھی، جبکہ حضرت ابراہیم (عليه السلام) فلسطین میں مقیم تھے۔ جب حضرت لوط (عليه السلام) کی قوم کو ہلاک کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ تو ان کی طرف سے فرشتے بھیجے گئے۔ یہ فرشتے قوم لوط (عليه السلام) کی طرف جاتے ہوئے راستے میں حضرت ابراہیم (عليه السلام) کے پاس ٹھہرے اور انہیں بیٹے کی بشارت دی۔
(2) یعنی سَلَّمْنَا عَلَيْكَ سَلامًا ”ہم آپ کو سلام عرض کرتے ہیں“۔
(3) جس طرح پہلا سلام ایک فعل مقدر کے ساتھ منصوب تھا۔ اس طرح یہ سالم مبتدا یا خبر ہونے کی بنا پر مرفوع ہے عبادت ہوگی: أَمْرُكُمْ سَلامٌ یا عَلَيْكُمْ سَلامٌ۔
(4) حضرت ابرا ہیم (عليه السلام) بڑے مہمان نواز تھے وہ یہ نہیں سمجھ پائے کہ یہ فرشتے ہیں جو انسانی صورت میں آئے ہیں اور کھانے پینے سے معزور ہیں، بلکہ انہوں نے انہیں مہمان سمجھا اور فورا مہمانوں کی خاطر تواضع کے لئے بھنا ہوا بچھڑا لا کر ان کی خدمت میں پیش کر دیا۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مہمان سے پوچھنے کی ضرورت نہیں بلکہ جو موجود ہو حاضر خدمت کر دیا جائے۔

التفاسير:

external-link copy
70 : 11

فَلَمَّا رَاٰۤ اَیْدِیَهُمْ لَا تَصِلُ اِلَیْهِ نَكِرَهُمْ وَاَوْجَسَ مِنْهُمْ خِیْفَةً ؕ— قَالُوْا لَا تَخَفْ اِنَّاۤ اُرْسِلْنَاۤ اِلٰی قَوْمِ لُوْطٍ ۟ؕ

اب جو دیکھا کہ ان کے تو ہاتھ بھی اس کی طرف نہیں پہنچ رہے تو ان سے اجنبیت محسوس کرکے دل ہی دل میں ان سے خوف کرنے لگے(1) ، انہوں نے کہا ڈرو نہیں ہم تو قوم لوط کی طرف بھیجے ہوئے آئے ہیں.(2) info

(1) حضرت ابرا ہیم (عليه السلام) نے جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہیں بڑھ رہے تو انہوں کو خوف محسوس ہوا۔ کہتے ہیں کہ ان کے ہاں یہ چیز معروف تھی کہ آئے ہوئے مہمان اگر ضیافت سے فائدہ نہ اٹھاتے تو سمجھا جاتا تھا کی آنے والے مہمان کسی اچھی نیت سے نہیں آئے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ کے پیغمبروں کو غیب کا علم نہیں ہوتا۔ اگر ابراہیم (عليه السلام) غیب دان ہوتے تو بھنا ہوا بچھڑا بھی نہ لاتے اور ان سے خوف بھی محسوس نہ کرتے۔
(2) اس خوف کو فرشتوں نے محسوس کیا، یا ان کے آثار سے جو ایسے موقع پر انسان کے چہرے پر ظاہر ہوتے ہیں یا اپنی گفتگو میں حضرت ابراہیم (عليه السلام) نے اظہار فرمایا، جیسا کہ دوسرے مقام پر وضاحت ہے «إِنَّا مِنْكُمْ وَجِلُونَ» (الحجر:52) ”ہمیں تو تم سے ڈر لگتا ہے“، چنانچہ فرشتوں نے کہا ڈرو نہیں، آپ جو سمجھ رہے ہیں، ہم وہ نہیں ہیں بلکہ اللہ کی طرف سے بھیجے گئے ہیں اور ہم قوم لوط (عليه السلام) کی طرف جا رہے ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
71 : 11

وَامْرَاَتُهٗ قَآىِٕمَةٌ فَضَحِكَتْ فَبَشَّرْنٰهَا بِاِسْحٰقَ ۙ— وَمِنْ وَّرَآءِ اِسْحٰقَ یَعْقُوْبَ ۟

اس کی بیوی جو کھڑی ہوئی تھی وه ہنس پڑی(1) ، تو ہم نے اسے اسحاق کی اور اسحاق کے پیچھے یعقوب کی خوشخبری دی. info

(1) حضرت ابراہیم کی اہلیہ کیوں ہنسیں؟ بعض کہتے ہیں کہ قوم لوط (عليه السلام) کی فساد انگیزیوں سے وہ بھی آگاہ تھیں، ان کی ہلاکت کی خبر سے انہوں نے مسرت کی۔ بعض کہتے ہیں اس لئے ہنسی آئی کہ دیکھو آسمانوں سے ان کی ہلاکت کا فیصلہ ہو چکا ہے اور یہ قوم غفلت کا شکار ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ تقدیم و تاخیر ہے۔ اور اس ہنسنے کا تعلق اس بشارت سے ہے جو فرشتوں نے بوڑھے جوڑے کو دی۔ واللہ اعلم۔

التفاسير: