(1) یعنی جس کو قبول حق اور خیر کا راستہ اپنانے کی توفیق اللہ تعالیٰ کی طرف سے مل جائے پس وہ اس شرح صدر کی وجہ سے رب کی روشنی پر ہو، کیا یہ اس جیسا ہو سکتا ہے جس کا دل اسلام کے لئے سخت اور اس کا سینہ تنگ ہو اور وہ گمراہی کی تاریکیوں میں بھٹک رہاہو۔
(1) أَحْسَنُ الْحَدِيثِ سے مراد قرآن مجید ہے، ملتی جلتی کا مطلب، اس کے سارے حصےحسن کلام، اعجازوبلاغت، صحت معانی وغیرہ خوبیوں میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ یا یہ بھی سابقہ کتب آسمانی سے ملتا ہے یعنی ان کی مشابہ ہے۔ مثانی، جس میں قصص وواقعات اور مواعظ واحکام کو بار بار دہرایا گیا ہے۔
(2) کیونکہ وہ ان وعیدوں کو اور تخویف وتہدید کو سمجھتے ہیں جو نافرمانوں کے لئے اس میں ہے۔
(3) یعنی جب اللہ کی رحمت اور اس کے لطف وکرم کی امید ان کے دلوں میں پیدا ہوتی ہے تو ان کے اندر سوز وگداز پیدا ہو جاتا ہے اور وہ اللہ کے ذکر میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ حضرت قتادہ (رضي الله عنه) فرماتے ہیں کہ اس میں اولیاء اللہ کی صفت بیان کی گئی ہے کہ اللہ کے خوف سے ان کے دل کانﭗ اٹھتے، ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے ہیں اور ان کے دلوں کو اللہ کے ذکر سے اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ وہ مدہوش اور حواس باختہ ہو جائیں اور عقل و ہوش باقی نہ رہے، کیونکہ یہ بدعتیوں کی صفت ہے اور اس میں شیطان کا دخل ہوتا ہے۔ (ابن کثیر) جیسے آج بھی بدعتیوں کی قوالی میں اس طرح کی شیطانی حرکتیں عام ہیں، جسے وہ وجد وحال یا سکر ومستی سے تعبیر کرتے ہیں۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں، اہل ایمان کا معاملہ اس بارے میں کافروں سے بوجوہ مختلف ہے۔ ایک یہ کہ اہل ایمان کا سماع، قرآن کریم کی تلاوت ہے، جب کہ کفار کا سماع، بے حیا مغنیات کی آوازوں میں گانا بجانا، سننا ہے۔ (جیسے اہل بدعت کا سماع مشرکانہ غلو پر مبنی قوالیاں اور نعتیں ہیں) دوسرے، یہ کہ اہل ایمان قرآن سن کر ادب وخشیت سے رجا ومحبت سے اور علم وفہم سے رو پڑتے ہیں اور سجدہ ریز ہو جاتے ہیں، جب کہ کفار شور کرتے اور کھیل کود میں مصروف رہتے ہیں۔ تیسرے، اہل ایمان سماع قرآن کے وقت ادب وتواضع اختیار کرتے ہیں، جیسے صحابہ کرام کی عادت مبارکہ تھی، جس سے ان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے اور ان کے دل اللہ کی طرف جھک جاتے تھے۔ (ابن کثیر)۔
(1) یعنی کیا یہ شخص، اس شخص کے برابر ہو سکتا ہے جو قیامت والے دن بالکل بے خوف اور امن میں ہوگا؟ یعنی محذوف عبارت ملا کر اس کا یہ مفہوم ہوگا۔
(1) یہ کفار مکہ کو تنبیہ ہے کہ گزشتہ قوموں نے پیغمبروں کو جھٹلایا، تو ان کا یہ حال ہوا، اور تم اشرف الرسل اور افضل الناس کی تکذیب کر رہے ہو، تمہیں بھی اس تکذیب کےانجام سے ڈرنا چاہیئے۔
(1) یعنی لوگوں کو سمجھانے کے لئے ہر طرح کی مثالیں بیان کی ہیں تاکہ لوگوں کے ذہنوں میں باتیں بیٹھ جائیں اور وہ نصیحت حاصل کریں۔
(1) یعنی قرآن واضح عربی زبان میں ہے، جس میں کوئی کجی، انحراف اور التباس نہیں ہے تاکہ لوگ اس میں بیان کردہ وعیدوں سے ڈریں اور اس میں بیان کیے گئے وعدوں کا مصداق بننے کے لئے عمل کریں۔
(1) اس میں مشرک (اللہ کا شریک ٹھہرانے والے) اور مخلص (صرف ایک اللہ کے لئے عبادت کرنے والے) کی مثال بیان کی گئی ہے۔ یعنی ایک غلام ہے جو کئی شخصوں کے درمیان مشترکہ ہے، چنانچہ وہ آپس میں جھگڑتے رہتے ہیں اور ایک غلام ہے، جس کا مالک صرف ایک ہی شخص ہے، اس کی ملکیت میں اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے۔ کیا یہ دونوں غلام برابر ہو سکتے ہیں؟ نہیں، یقیناً نہیں۔ اسی طرح وہ مشرک جو اللہ کے ساتھ دوسرے معبودوں کی بھی عبادت کرتا ہے۔ اور وہ مخلص مومن، جو صرف ایک اللہ کی عبادت کرتا ہے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا۔ برابر نہیں ہو سکتے۔
(2) اس بات ہر کہ اس نے حجت قائم کر دی ۔
(3) اسی لئے اللہ کے ساتھ شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔
(1) یعنی اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم آپ بھی اور آپ کے مخالف بھی، سب موت سے ہم کنار ہوکر اس دنیا سے ہمارےپاس آخرت میں آئیں گے۔ دنیا میں تو توحید اور شرک کا فیصلہ تمہارے درمیان نہیں ہو سکا اور تم اس بارے میں جھگڑتے ہی رہے۔ لیکن یہاں میں اس کا فیصلہ کروں گا اور مخلص موحدین کو جنت میں اور مشرکین وجاحدین اور مکذبین کو جہنم میں داخل کروں گا۔ اس آیت سے بھی وفات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اثبات ہوتا ہے، جس طرح کہ سورۃ آل عمران کی آیت 144 سے بھی ہوتا ہے اور انہی آیات سے استدلال کرتے ہوئے حضرت ابوبکر صدیق (رضي الله عنه) نے بھی لوگوں میں آپ ﹲ کی موت کا تحقق فرمایا تھا۔ اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت یہ عقیدہ رکھنا کہ آپ کو برزخ میں بالکل اسی طرح زندگی حاصل ہےجس طرح دنیا میں حاصل تھی، قرآن کی نصوص کے خلاف ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی دیگر انسانوں ہی کی طرح موت طاری ہوئی، اسی لئے آپ کو دفن کیا گیا، قبر میں آپ کو برزخی زندگی تو یقیناً حاصل ہے، جس کی کیفیت کا ہمیں علم نہیں، لیکن دوبارہ قبر میں آپ کودنیوی زندگی عطا نہیں کی گئی۔ ﹲ۔صلیٰ اللہ علیہ و سلم