(1) یعنی پیغمبر کی بات ماننے کے بجائے، کہتے ہیں کہ اگر تو سچا ہے تو ہم پر عذاب نازل کروا دے۔
(2) یعنی ان کے اعمال واقوال تو یقیناً اس لائق ہیں کہ انہیں فوراً صفحۂ ہستی سے ہی مٹا دیا جائے۔ لیکن ہماری سنت ہے کہ ہر قوم کو ایک وقت خاص تک مہلت دیتے ہیں، جب وہ مہلت عمل ختم ہو جاتی ہے تو ہمارا عذاب آجاتا ہے۔
(3) یعنی جب عذاب کا وقت مقرر آجائے گا تو اس طرح اچانک آئے گا کہ انہیں پتہ بھی نہیں چلےگا، یہ وقت مقرر وہ ہےجو اس نے اہل مکہ کے لئے لکھ رکھا تھا، یعنی جنگ بدر میں اسارت وقتل، یا پھر قیامت کا وقوع ہے جس کے بعد کافروں کے لئے عذاب ہی عذاب ہے۔
(1) پہلا يَسْتَعْجِلُونَكَ بطور خبر کے تھا اور یہ دوسرا بطور تعجب کے ہے یعنی یہ امر تعجب انگیز ہے کہ عذاب کی جگہ (جہنم) ان کو اپنےگھیرے میں لئے ہوئے ہے۔ پھر بھی عذاب کے لئے جلدی مچا رہے ہیں؟ حالاں کہ ہرآنے والی چیز قریب ہی ہوتی ہے، اسے دور کیوں سمجھتے ہیں؟ یا پھر یہ تکرار بطور تاکید کے ہے۔
(1) يَقُولُ، کا فاعل اللہ ہے یا فرشتے، یعنی جب چاروں طرف سے ان پر عذاب ہو رہا ہوگا تو کہا جائے گا۔
(1) اس میں ایسی جگہ سے، جہاں اللہ کی عبادت کرنی مشکل ہو اور دین پر قائم رہنا دوبھر ہو رہا ہو، ہجرت کرنے کا حکم ہے، جس طرح مسلمانوں نے پہلے مکہ سے حبشہ کی طرف اور پھر بعد میں مدینہ کی طرف ہجرت کی۔
(1) یعنی موت کا جرعۂ تلخ تو لامحالہ ہر ایک کو پینا ہے، ہجرت کرو گے تب بھی اور نہ کرو گے تب بھی، اس لئےتمہارے لئےوطن کا، رشتے داروں کا، اور دوست احباب کا چھوڑنا مشکل نہیں ہونا چاہئے۔ موت تو تم جہاں بھی ہوں گے آجائے گی۔ البتہ اللہ کی عبادت کرتے ہوئے مرو گے تو تم اخروی نعمتوں سے شاد کام ہو گے، اس لئے کہ مر کر تو اللہ ہی کے پاس جانا ہے۔
(1) یعنی اہل جنت کے مکانات بلند ہوں گے، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ یہ نہریں پانی، شراب، شہد اور دودھ کی ہوں گی، علاوہ ازیں انہیں جس طرف پھیرنا چاہیں گے، ان کا رخ اسی طرف ہو جائے گا۔
(2) ان کے زوال کا خطرہ ہوگا، نہ انہیں موت کا اندیشہ نہ کسی اور جگہ پھر جانے کا خوف۔
(1) یعنی دین پر مضبوطی سے قائم رہے، ہجرت کی تکلیفیں برداشت کیں، اہل وعیال اور عزیز واقربا سےدوری کو محض اللہ کی رضا کے لئے گوارا کیا۔
(2) دین اور دنیا کے ہر معاملے اور حالات میں۔
(1) كَأَيِّنْ میں کاف تشبیہ کا ہے اور معنی ہیں کتنے ہی یا بہت سے۔
(2) کیونکہ اٹھا کر لے جانے کی ان میں ہمت ہی نہیں ہوتی، اسی طرح وہ ذخیرہ بھی نہیں کر سکتے۔ مطلب یہ ہے کہ رزق کسی خاص جگہ کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ اللہ کا رزق اپنی مخلوق کے لئے عام ہے وہ جو بھی ہو اور جہاں بھی ہو بلکہ اللہ تعالیٰ نےہجرت کو جانے والے صحابہ (رضي الله عنهم) کو پہلے سے کہیں زیادہ وسیع اور پاکیزہ رزق عطا فرمایا، نیز تھوڑے ہی عرصے کے بعد انہیں عرب کے متعدد علاقوں کا حکمران بنا دیا۔ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ أَجْمَعِينَ.
(3) یعنی کمزور ہے یا طاقت ور، اسباب ووسائل سے بہرہ ور ہے یا بے بہرہ، اپنے وطن میں ہے یا مہاجر اور بے وطن، سب کا روزی رساں وہی اللہ ہے جو چیونٹی کو زمین کے کونوں کھدروں میں، پرندوں کو ہواؤں میں اور مچھلیوں اور دیگر آبی جانوروں کو سمندر کی گہرائیوں میں روزی پہنچاتا ہے۔ اس موقع پر مطلب یہ ہے کہ فقر وفاقہ کا ڈر ہجرت میں رکاوٹ نہ بنے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری اور تمام مخلوقات کی روزی کا ذمے دار ہے۔
(4) وہ جاننے والا ہے تمہارے اعمال وافعال کو اور تمہارے ظاہر وباطن کو، اس لئے صرف اسی سے ڈرو، اس کے سوا کسی سے مت ڈرو! اسی کی اطاعت میں سعادت وکمال ہے اور اس کی معصیت میں شقاوت ونقصان۔
(1) یعنی یہ مشرکین، جو مسلمانوں کو محض توحید کی وجہ سے ایذائیں پہنچا رہے ہیں، ان سے اگر پوچھا جائے کہ آسمان وزمین کو عدم سےوجود میں لانے والا اور سورج اور چاند کو اپنے اپنے مدار پر چلانے والا کون ہے؟ تو وہاں یہ اعتراف کیے بغیر انہیں چارہ نہیں ہوتا کہ یہ سب کچھ کرنے والا اللہ ہے۔
(2) یعنی دلائل واعتراف کے باوجود حق سے یہ اعراض اور گریز باعث تعجب ہے۔
(1) یہ مشرکین کے اعتراض کا جواب ہے جو وہ مسلمانوں پر کرتے تھے کہ اگر تم حق پر ہوتو پھر غریب اور کمزور کیوں ہو؟ اللہ نے فرمایا کہ رزق کی کشادگی اور کمی اللہ کے اختیار میں ہے وہ اپنی حکمت ومشیت کے مطابق جس کو چاہتا ہے کم یا زیادہ دیتا ہے، اس کا تعلق اس کی رضا مندی یا غضب سے نہیں ہے۔
(2) اس کو بھی وہی جانتا ہے کہ زیادہ رزق کس کے لئے بہتر ہے اور کس کے لئے نہیں؟
(1) کیونکہ عقل ہوتی تو اپنے رب کےساتھ پتھروں کو اور مردوں کو رب نہ بناتے۔ نہ ان کے اندر یہ تناقض ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کی خالقیت وربوبیت کے اعتراف کے باوجود، بتوں کو حاجت روا اور لائق عبادت سمجھ رہے ہیں۔