કુરઆન મજીદના શબ્દોનું ભાષાંતર - ઉર્દુ ભાષામાં અનુવાદ - મુહમ્મદ જૂનાગઢી

પેજ નંબર:close

external-link copy
24 : 29

فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوا اقْتُلُوْهُ اَوْ حَرِّقُوْهُ فَاَنْجٰىهُ اللّٰهُ مِنَ النَّارِ ؕ— اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ ۟

ان کی قوم کا جواب بجز اس کے کچھ نہ تھا کہ کہنے لگے کہ اسے مار ڈالو یا اسے جلا دو(1) ۔ آخر اللہ نے انہیں آگ سے بچا لیا(2)، اس میں ایمان والے لوگوں کے لیے تو بہت سی نشانیاں ہیں. info

(1) ان آیات سے قبل حضرت ابراہیم (عليه السلام) کا قصہ بیان ہو رہا تھا، اب پھر اس کا بقیہ بیان کیا جارہا ہے۔ درمیان میں جملہ معترضہ کے طور پر اللہ کی توحید اور اس کی قدرت وطاقت کو بیان کیا گیا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ سب حضرت ابراہیم (عليه السلام) ہی کے وعظ کا حصہ ہے، جس میں انہوں نے توحید ومعاد کے اثبات میں دلائل دیئے ہیں، جن کا کوئی جواب جب ان کی قوم سےنہیں بنا تو انہوں نے اس کا جواب ظلم وتشدد کی اس کارروائی سے دیا، جس کا ذکر اس آیت میں ہے کہ اسے قتل کر دو یا جلا ڈالو۔ چنانچہ انہوں نے آگ کا ایک بہت بڑا الاؤ تیار کرکے حضرت ابراہیم (عليه السلام) کو منجنیق کے ذریعے سے اس میں پھینک دیا۔
(2) یعنی اللہ نے اس آگ کو گلزار کی صورت میں بدل کر اپنے بندے کو بچا لیا، جیسا کہ سورہ انبیاء میں گزرا۔

التفاسير:

external-link copy
25 : 29

وَقَالَ اِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْثَانًا ۙ— مَّوَدَّةَ بَیْنِكُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ۚ— ثُمَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یَكْفُرُ بَعْضُكُمْ بِبَعْضٍ وَّیَلْعَنُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا ؗ— وَّمَاْوٰىكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ ۟ۗۖ

(حضرت ابراہیم علیہ السلام نے) کہا کہ تم نے جن بتوں کی پرستش اللہ کے سوا کی ہے انہیں تم نے اپنی آپس کی دنیوی دوستی کی بنا ٹھہرا لی ہے(1) ، تم سب قیامت کے دن ایک دوسرے سے کفر کرنے لگو گے(2) اور ایک دوسرے پر لعنت کرنے لگو گے۔ اور تمہارا سب کا ٹھکانہ دوزخ ہوگا اور تمہارا کوئی مددگار نہ ہوگا. info

(1) یعنی یہ تمہارے قومی بت ہیں جو تمہاری اجتماعیت اور آپس کی دوستی کی بنیاد ہیں۔ اگر تم ان کی عبادت چھوڑ دو تو تمہاری قومیت اور دوستی کا شیرازہ بکھر جائے گا۔
(2) یعنی قیامت کے دن تم ایک دوسرے کا انکار اور دوستی کے بجائے ایک دوسرے پر لعنت کرو گے اور تابع ، متبوع کو ملامت اور متبوع، تابع سے بیزاری کا اظہار کریں گے۔

التفاسير:

external-link copy
26 : 29

فَاٰمَنَ لَهٗ لُوْطٌ ۘ— وَقَالَ اِنِّیْ مُهَاجِرٌ اِلٰی رَبِّیْ ؕ— اِنَّهٗ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ ۟

پس حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر حضرت لوط (علیہ السلام) ایمان ﻻئے(1) اور کہنے لگے کہ میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرنے واﻻ ہوں(2)۔ وه بڑا ہی غالب اور حکیم ہے. info

(1) حضرت لوط (عليه السلام) ، حضرت ابراہیم (عليه السلام) کے برادر زاد تھے، یہ حضرت ابراہیم (عليه السلام) پر ایمان لائے، بعد میں ان کو بھی (سدوم) کے علاقے میں نبی بنا کر بھیجا گیا۔
(2) یہ حضرت ابراہیم (عليه السلام) نے کہا اور بعض کے نزدیک حضرت لوط (عليه السلام) نے۔ اور بعض کہتے ہیں دونوں نے ہی ہجرت کی۔ یعنی جب ابراہیم (عليه السلام) اور ان پر ایمان لانے والے لوط (عليه السلام) کے لیے اپنے علاقے، (كوثى) میں، جو حران کی طرف جاتے ہوئے کوفے کی ایک بستی تھی، اللہ کی عبادت کرنی مشکل ہوگئی تو وہاں سے ہجرت کرکےشام کے علاقےمیں چلے گئے۔ تیسری، ان کے ساتھ حضرت ابراہیم (عليه السلام) کی اہلیہ سارہ تھیں۔

التفاسير:

external-link copy
27 : 29

وَوَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ وَجَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتٰبَ وَاٰتَیْنٰهُ اَجْرَهٗ فِی الدُّنْیَا ۚ— وَاِنَّهٗ فِی الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ ۟

اور ہم نے انھیں (ابراہیم کو) اسحاق ویعقوب (علیہما السلام) عطا کیے اور ہم نے نبوت اور کتاب ان کی اوﻻد میں ہی کر دی(1) اور ہم نے دنیا میں بھی اسے ﺛواب دیا (2)اور آخرت میں تو وه صالح لوگوں میں سے ہیں.(3) info

(1) یعنی حضرت اسحاق (عليه السلام) سے یعقوب (عليه السلام) ہوئے ، جن سے بنی اسرائیل کی نسل چلی اور انہی میں سارے انبیا ہوئے، اور کتابیں آئیں۔ آخر میں حضرت نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) حضرت ابراہیم (عليه السلام) کے دوسرے بیٹے حضرت اسماعیل (عليه السلام) کی نسل سے نبی ہوئے اور آپ (صلى الله عليه وسلم) پر قرآن نازل ہوا۔
(2) اس اجر سے مراد رزق دنیا بھی ہے اور ذکر خیر بھی۔ یعنی دنیا میں ہر مذہب کے لوگ (عیسائی، یہودی وغیرہ حتیٰ کہ مشرکیں بھی) حضرت ابراہیم (عليه السلام) کی عزت وتکریم کرتے ہیں اورمسلمان تو ہیں ہی ملت ابراہیمی کےپیرو، ان کے ہاں وہ محترم کیوں نہ ہوں گے؟
(3) یعنی آخرت میں بھی وہ بلند درجات کے حامل اور زمرہ صالحین میں ہوں گے۔ اسی مضمون کو دوسرے مقام پراس طرح بیان فرمایا «وَآتَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَإِنَّهُ فِي الآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ» (سورة النحل: 122)

التفاسير:

external-link copy
28 : 29

وَلُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ ؗ— مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ ۟

اور حضرت لوط (علیہ السلام) کا بھی ذکر کرو جب کہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم تو اس بدکاری پر اتر آئے(1) ہو جسے تم سے پہلے دنیا بھر میں سے کسی نے نہیں کیا. info

(1) اس بدکاری سے مراد وہی لواطت ہے جس کا ارتکاب قوم لوط (عليه السلام) نے ہی سب سے پہلے کیا، جیسا کہ قرآن نے صراحت کی ہے۔

التفاسير:

external-link copy
29 : 29

اَىِٕنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُوْنَ السَّبِیْلَ ۙ۬— وَتَاْتُوْنَ فِیْ نَادِیْكُمُ الْمُنْكَرَ ؕ— فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوا ائْتِنَا بِعَذَابِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ ۟

کیا تم مردوں کے پاس بدفعلی کے لیے آتے ہو(1) اور راستے بند کرتے ہو(2) اور اپنی عام مجلسوں میں بے حیائیوں کا کام کرتے ہو(3)؟ اس کے جواب میں اس کی قوم نے بجز اس کے اور کچھ نہیں کہا کہ بس(4) جا اگر سچا ہے تو ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کا عذاب لے آ. info

(1) یعنی تمہاری شہوت پرستی اس انتہا کو پہنچ گئی ہے کہ اس کے لیے طبعی طریقے تمہارے لیے ناکافی ہوگئے ہیں اور غیر طبعی طریقہ تم نے اختیار کر لیا ہے۔ جنسی شہوت کی تسکین کے لیے طبعی طریقہ اللہ تعالیٰ نے بیویوں سے مباشرت کی صورت میں رکھا ہے۔ اسے چھوڑ کر اس کام کے لیے مردوں کی دبر استعمال کرنا غیر فطری اور غیر طبعی طریقہ ہے۔
(2) اس کے ایک معنی تو یہ کیے گئے ہیں کہ آنے جانے والے مسافروں، نوواردوں اور گزرنے والوں کو زبردستی پکڑ پکڑ کر تم ان سے بےحیائی کا کام کرتے ہو، جس سے لوگوں کے لیے راستوں سے گزرنا مشکل ہوگیا اور لوگ گھروں میں بیٹھے رہنے میں عافیت سمجھتے ہیں۔ دوسرے معنی ہیں کہ تم آنے جانے والوں کو لوٹ لیتے اور قتل کر دیتے ہو یا ازراہ شرارت انہیں کنکریاں مارتے ہو۔ تیسرے معنی کیے گئے ہیں کہ سرراہ ہی بےحیائی کا ارتکاب کرتے ہو جس سے وہاں سے گزرتے ہوئے لوگ شرم محسوس کرتے ہیں۔ ان تمام صورتوں سے راستے بند ہو جاتے ہیں۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ کسی ایک خاص سبب کی تعیین تو مشکل ہے تاہم وہ ایسا کام ضرور کرتے تھے ، جس سے عملاً راستہ بند ہو جاتا تھا۔ قطع طریق کے ایک معنی قطع نسل کے بھی کیے گئے ہیں۔ یعنی عورتوں کی شرم گاہوں کو استعمال کرنے کے بجائے مردوں کی دبر استعمال کرکے تم اپنی نسل بھی منقطع کرنے میں لگے ہوئےہو۔ (فتح القدیر)
(3) یہ بےحیائی کیا تھی؟ اس میں بھی مختلف اقوال ہیں، مثلاً لوگوں کو کنکریاں مارنا ، اجنبی مسافر کا استہزا واستخفاف ، مجلسوں میں پاد مارنا، ایک دوسرے کے سامنے اغلام بازی، شطرنج وغیرہ قسم کی قمار بازی، رنگے ہوئے کپڑے پہننا، وغیرہ۔ امام شوکانی فرماتے ہیں (کوئی بعید نہیں کہ وہ یہ تمام ہی منکرات کرتے رہے ہوں)۔
(4) حضرت لوط (عليه السلام) نے جب انہیں ان منکرات سے منع کیا تو اس کے جواب میں کہا . . .۔

التفاسير:

external-link copy
30 : 29

قَالَ رَبِّ انْصُرْنِیْ عَلَی الْقَوْمِ الْمُفْسِدِیْنَ ۟۠

حضرت لوط (علیہ السلام) نے دعا کی(1) کہ پروردگار! اس مفسد قوم پر میری مدد فرما. info

(1) یعنی جب حضرت لوط (عليه السلام) قوم کی اصلاح سے ناامید ہوگئے تو اللہ سے مدد کی دعا فرمائی . . .۔

التفاسير: