કુરઆન મજીદના શબ્દોનું ભાષાંતર - ઉર્દુ ભાષામાં અનુવાદ - મુહમ્મદ જૂનાગઢી

પેજ નંબર:close

external-link copy
76 : 17

وَاِنْ كَادُوْا لَیَسْتَفِزُّوْنَكَ مِنَ الْاَرْضِ لِیُخْرِجُوْكَ مِنْهَا وَاِذًا لَّا یَلْبَثُوْنَ خِلٰفَكَ اِلَّا قَلِیْلًا ۟

یہ تو آپ کے قدم اس سرزمین سے اکھاڑنے ہی لگے تھے کہ آپ کو اس سے نکال دیں(1) ۔ پھر یہ بھی آپ کے بعد بہت ہی کم ٹھہر پاتے.(2) info

(1) یہ اس سازش کی طرف اشارہ ہے جو نبی (صلى الله عليه وسلم) کو مکے سے نکالنے کے لئے قریش مکہ نے تیار کی تھی، جس سے اللہ نے آپ کو بچا لیا۔
(2) یعنی اگر اپنے منصوبے کے مطابق یہ آپ کو مکے سے نکال دیتے تو یہ بھی اس کے بعد زیادہ دیر نہ رہتے یعنی عذاب الٰہی کی گرفت میں آجاتے۔

التفاسير:

external-link copy
77 : 17

سُنَّةَ مَنْ قَدْ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنْ رُّسُلِنَا وَلَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِیْلًا ۟۠

ایسا ہی دستور ان کا تھا جو آپ سے پہلے رسول ہم نے بھیجے(1) اور آپ ہمارے دستور میں کبھی ردوبدل نہ پائیں گے.(2) info

(1) یعنی یہ دستور پرانا چلا آرہا ہے جو آپ (صلى الله عليه وسلم) سے پہلے رسولوں کے لئے بھی برتا جاتا رہا ہے کہ جب ان قوموں نے انہیں اپنے وطن سے نکال دیا یا انہیں نکلنے پر مجبور کر دیا تو پھر وہ قومیں بھی اللہ کے عذاب سے محفوظ نہ رہیں۔
(2) چنانچہ اہل مکہ کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ رسول اللہ نبی (صلى الله عليه وسلم) کی ہجرت کے ڈیڑھ سال بعد ہی میدان بدر میں وہ عبرت ناک ذلت و شکست سے دو چار ہوئے اور چھ سال بعد ٨ ہجری میں مکہ ہی فتح ہوگیا اور اس ذلت و ہزیمیت کے بعد وہ سر اٹھانے کے قابل نہ رہے۔

التفاسير:

external-link copy
78 : 17

اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ اِلٰی غَسَقِ الَّیْلِ وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ ؕ— اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُوْدًا ۟

نماز کو قائم کریں آفتاب کے ڈھلنے سے لے کر رات کی تاریکی تک(1) اور فجر کا قرآن پڑھنا بھی یقیناً فجر کے وقت کا قرآن پڑھنا حاضر کیا گیا ہے.(2) info

(1) دُلُوكٌ کے معنی زوال کے اور غَسَق کے معنی تاریکی کے ہیں۔ آفتاب کے ڈھلنے کے بعد، ظہر اور عصر کی نماز اور رات کی تاریکی تک سے مراد مغرب اور عشاء کی نمازیں ہیں اور قرآن الفجر سے مراد فجر کی نماز ہے۔ قرآن، نماز کے معنی میں ہے۔ اس کو قرآن سے اس لئے تعبیر کیا گیا ہے کہ فجر میں قراءت لمبی ہوتی ہے۔ اس طرح اس آیت میں پانچوں فرض نمازوں کا اجمالی ذکر آجاتا ہے۔ جن کی تفیصلات احادیث میں ملتی ہیں اور جو امت کے لئے عملی تواتر سے بھی ثابت ہیں۔
(2) یعنی اس وقت فرشتے حاضر ہوتے ہیں بلکہ دن کے فرشتوں اور رات کے فرشتوں کا اجتماع ہوتا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے (صحیح بخاری، تفسیر بنی اسرائیل) ایک اور حدیث میں ہے کہ رات والے فرشتے جب اللہ کے پاس جاتے ہیں تو اللہ تعالٰی ان سے پوچھتا ہے حالانکہ وہ خود خوب جانتا ہے ”تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟“ فرشتے کہتے ہیں ”جب ہم ان کے پاس گئے تھے، اس وقت بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ہم ان کے پاس سے آئے ہیں تو انہیں نماز پڑھتے ہوئے ہی چھوڑ کر آئے ہیں“۔ ( البخاري كتاب المواقيت، باب فضل صلاة العصر ومسلم باب فضل صلاتي الصبح والعصر والمحافظة عليهما )

التفاسير:

external-link copy
79 : 17

وَمِنَ الَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ ۖۗ— عَسٰۤی اَنْ یَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا ۟

رات کے کچھ حصے میں تہجد کی نماز میں قرآن کی تلاوت کریں(1) یہ زیادتی آپ کے لئے ہے(2) عنقریب آپ کا رب آپ کو مقام محمود میں کھڑا کرے گا.(3) info

(1) بعض کہتے ہیں ”تھجد“ اضداد میں سے ہے جس کے معنی سونے کے بھی ہیں اور نیند سے بیدار ہونے کے بھی۔ اور یہاں یہی دوسرے معنی ہیں کہ رات کو سو کر اٹھیں اور نوافل پڑھیں۔ بعض کہتے ہیں کہ ”ھجود“ کے اصل معنی تو رات کو سونے کے ہی ہیں، لیکن باب تفعّل میں جانے سے اس میں تجنّب کے معنی پیدا ہوگئے جیسے تأثم کے معنی ہیں اس نے گناہ سے اجتناب کیا، یا بچا، اس طرح تھجد کے معنی ہونگے، سونے سے بچنا جو رات کو سونے سے بچا اور قیام کیا۔ بہرحال تھجد کا مفہوم رات کے پچھلے پہر اٹھ کر نوافل پڑھنا۔ ساری رات قیام اللیل کرنا خلاف سنت ہے۔ نبی رات کے پہلے حصے میں سوتے اور پچھلے حصے میں اٹھ کر تہجد پڑھتے۔ یہی طریقہ سنت ہے۔
(2) بعض نے اس کے معنی کئے ہیں یہ ایک زائد فرض ہے جو آپ کے لئے خاص ہے، اس طرح وہ کہتے ہیں کہ نبی (صلى الله عليه وسلم) پر تہجد بھی اسی طرح فرض تھی، جس طرح پانچ نمازیں فرض تھیں۔ البتہ امت کے لئے تہجد کی نماز فرض نہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ تہجد آپ پر فرض تھی نہ آپ کی امت پر۔ یہ ایک زائد عبادت ہے جس کی فضیلت یقینا بہت ہے اور اس وقت اللہ اپنی عبادت سے بڑا خوش ہوتا ہے۔ تاہم یہ نماز فرض و واجب نہ نبی (صلى الله عليه وسلم) پر تھی اور نہ آپ (صلى الله عليه وسلم) کی امت پر ہی فرض ہے۔
(3) یہ وہ مقام ہے جو قیامت والے دن اللہ تعالٰی نبی کو عطا فرمائے گا اور اس مقام پر ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ شفاعت عظمٰی فرمائیں گے، جس کے بعد لوگوں کا حساب کتاب ہوگا۔

التفاسير:

external-link copy
80 : 17

وَقُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّاجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًا ۟

اور دعا کیا کریں کہ اے میرے پروردگار مجھے جہاں لے جا اچھی طرح لے جا اور جہاں سے نکال اچھی طرح نکال اور میرے لئے اپنے پاس سے غلبہ اور امداد مقرر فرما دے.(1) info

(1) بعض کہتے ہیں کہ یہ ہجرت کے موقع پر نازل ہوئی جب آپ کو مدینے میں داخل ہونے اور مکہ سے نکلنے کا مسئلہ درپیش تھا، بعض کہتے ہیں اس کے معنی ہیں مجھے سچائی کے ساتھ موت دینا اور سچائی کے ساتھ قیامت والے دن اٹھانا۔ بعض کہتے ہیں کہ مجھے قبر میں سچا داخل کرنا اور قیامت کے دن جب قبر سے اٹھائے تو سچائی کے ساتھ قبر سے نکالنا وغیرہ۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ چونکہ یہ دعا ہے اس لئے اس کے عموم میں سب باتیں آجاتی ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
81 : 17

وَقُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ؕ— اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا ۟

اور اعلان کردے کہ حق آچکا اور ناحق نابود ہوگیا۔ یقیناً باطل تھا بھی نابود ہونے واﻻ.(1) info

(1) حدیث میں آتا ہے کہ فتح مکہ کے بعد جب نبی (صلى الله عليه وسلم) خانہ کعبہ میں داخل ہوئے تو وہاں تین سو ساٹھ بت تھے، آپ کے ہاتھ میں چھڑی تھی، آپ چھڑی کی نوک سے ان بتوں کو مارتے جاتے اور «جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ» (الاسراء:81)۔ اور «جَاءَ الْحَقُّ وَمَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيدُ» پڑھتے جاتے۔ (صحيح بخاري، تفسير بني إسرائيل وكتاب المظالم، باب هل تكسر الدنان التي فيها الخمر ومسلم- الجهاد، باب إزالة الأصنام من حول الكعبة )

التفاسير:

external-link copy
82 : 17

وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ ۙ— وَلَا یَزِیْدُ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا خَسَارًا ۟

یہ قرآن جو ہم نازل کر رہے ہیں مومنوں کے لئے تو سراسر شفا اور رحمت ہے۔ ہاں ﻇالموں کو بجز نقصان کے اور کوئی زیادتی نہیں ہوتی.(1) info

(1) اس مفہوم کی آیت سورۂ یونس:57 میں گزر چکی ہے، اس کا حاشیہ ملاحظہ فرما لیا جائے۔

التفاسير:

external-link copy
83 : 17

وَاِذَاۤ اَنْعَمْنَا عَلَی الْاِنْسَانِ اَعْرَضَ وَنَاٰ بِجَانِبِهٖ ۚ— وَاِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ كَانَ یَـُٔوْسًا ۟

اور انسان پر جب ہم اپنا انعام کرتے ہیں تو وه منھ موڑ لیتا ہے اور کروٹ بدل لیتا ہے اور جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وه مایوس ہوجاتا ہے.(1) info

(1) اس میں انسان کی حالت و کیفیت کا ذکر ہے جس میں وہ عام طور پر خوش حالی کے وقت اور تکلیف کے وقت مبتلا ہوتا ہے، خوشحالی میں وہ اللہ کو بھول جاتا ہے اور تکلیف میں مایوس ہو جاتا ہے، لیکن اہل ایمان کا معاملہ دونوں حالتوں میں اس سے مختلف ہوتا ہے۔ دیکھئے سورۂ ھود کی آیات 9-11 کے حواشی۔

التفاسير:

external-link copy
84 : 17

قُلْ كُلٌّ یَّعْمَلُ عَلٰی شَاكِلَتِهٖ ؕ— فَرَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ اَهْدٰی سَبِیْلًا ۟۠

کہہ دیجئیے! کہ ہر شخص اپنے طریقہ پر عامل ہے جو پوری ہدایت کے راستے پر ہیں انہیں تمہارا رب ہی بخوبی جاننے(1) واﻻ ہے. info

(1) اس میں مشرکین کے لئے تہدید ووعید ہے اور اس کا وہی مفہوم ہے جو سورہ ھود کی آیت 121-122 کا ہے۔ «وَقُلْ لِلَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ اعْمَلُوا عَلَى مَكَانَتِكُمْ إِنَّا عَامِلُونَ»... شَاكِلَةٌ کے معنی نیت، دین، طریقے اور مزاج وطبیعت کے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ اس میں کافر کے لیے ذم اور مومن کے لیے مدح کا پہلو ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان ایسا عمل کرتا ہے جو اس کے اخلاق و کردار پر مبنی ہوتا ہے جو اس کی عادت و طبیعت ہوتی ہے۔

التفاسير:

external-link copy
85 : 17

وَیَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ ؕ— قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَمَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا ۟

اور یہ لوگ آپ سے روح کی بابت سوال کرتے ہیں، آپ جواب دے دیجئیے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمہیں بہت ہی کم علم دیا گیا ہے.(1) info

(1) روح وہ لطیف شے ہے جو کسی کو نظر نہیں آتی لیکن ہر جاندار کی قوت و توانائی اسی روح کے اندر مضمر ہے اس کی حقیقت و ماہیت کیا ہے؟ کوئی نہیں جانتا۔ یہودیوں نے بھی ایک مرتبہ نبی (صلى الله عليه وسلم) سے اس کی بابت پوچھا تو یہ آیت اتری ( صحيح بخاري، تفسير سورة بني إسرائيل ومسلم، كتاب صفة القيامة والجنة- والنار، باب سؤال اليهود النبي صلى الله عليه وسلم عن الروح ) آیت کا مطلب یہ ہے کہ تمہارا علم، اللہ کے علم کے مقابلے میں قلیل ہے، اور یہ روح، جس کے بارے میں تم سے پوچھ رہے ہو، اس کا علم تو اللہ نے انبیاء سمیت کسی کو بھی نہیں دیا ہے اتنا سمجھو کہ یہ میرے رب کا امر (حکم) ہے۔ یا میرے رب کی شان میں سے ہے، جس کی حقیقت کو صرف وہی جانتا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
86 : 17

وَلَىِٕنْ شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ بِهٖ عَلَیْنَا وَكِیْلًا ۟ۙ

اور اگر ہم چاہیں تو جو وحی آپ کی طرف ہم نے اتاری ہے سب سلب کرلیں(1) ، پھر آپ کو اس کے لئے ہمارے مقابلے میں کوئی حمایتی میسر نہ آسکے.(2) info

(1) یعنی وحی کے ذریعے سے جو تھوڑا بہت علم دیا گیا ہے اگر اللہ تعالٰی چاہے تو اسے بھی سلب کرلے یعنی دل سے محو کر دے یا کتاب سے ہی مٹا دے۔
(2) جو دوبارہ اس وحی کو آپ کی طرف لوٹا دے۔

التفاسير: