(1) یعنی با حفاظت آپ تک پہنچ گیا، اس میں راستے میں کوئی کمی بیشی اور کوئی تبدیلی اور آمیزش نہیں کی گئی اس لئے کہ اس کو لانے والا فرشتہ۔ شَدِيدُ الْقُوَى، الأَمِينُ، الْمَكِينُ اور الْمُطَاعُ فِي الْمَلإِ الأَعْلَى ہے۔ یہ وہ صفات ہیں جو حضرت جبرائیل (عليه السلام) کے متعلق قرآن میں بیان کی گئی ہیں۔
(2) مُبَشِّرٌ اطاعت گزار مومن کے لئے اور نَذِيرٌ نافرمان کے لئے۔
(1) فَرَقْنَاهُ کے ایک دوسرے معنی بَيَّنَّاهُ وَأَوْضَحْنَاهُ (ہم نے اسے کھول کر وضاحت سے بیان کر دیا) بھی کئے گئے ہیں۔
(1) یعنی وہ علماء جنہوں نے نزول قرآن سے قبل کتب سابقہ پڑھی ہیں اور وہ وحی کی حقیقت اور رسالت کی علامات سے واقف ہیں، وہ سجدہ ریز ہوتے ہیں، اس بات پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہ انہیں آخری رسول (صلى الله عليه وسلم) کی پہچان کی توفیق دی اور قرآن و رسالت پر ایمان لانے کی سعادت نصیب فرمائی۔
(1) مطلب یہ ہے کہ یہ کفار مکہ جو ہرچیز سے ناواقف ہیں اگر یہ ایمان نہیں لاتے تو آپ پروا نہ کریں اس لیے کہ جو اہل علم ہیں اور وحی ورسالت کی حقیقت سے آشنا ہیں وہ اس پر ایمان لے آئے ہیں بلکہ قرآن سن کر وہ بارگاہ الہی میں سجدہ ریز ہوگئے ہیں اور اس کی پاکیزگی بیان کرتے اور رب کے وعدوں پر یقین رکھتے ہیں۔
(1) ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر پڑنے کا دوبارہ ذکر کیا، کیونکہ پہلا سجدہ اللہ کی تعظیم کے لئے اور بطور شکر تھا اور قرآن سن کر جو خشیت و رقت ان پر طاری ہوئی اور اس کی تاثیر و اعجاز سے جس درجہ وہ متأثر ہوئے، اس نے دوبارہ انہیں سجدہ ریز کر دیا۔
(1) جس طرح کہ پہلے گزر چکا ہے کہ مشرکین مکہ کے لئے اللہ کا صفتی نام ”رحمٰن“ یا ”رحیم“ نامانوس تھا اور بعض آثار میں آتا ہے کہ بعض مشرکین نے نبی (صلى الله عليه وسلم) کی زبان مبارک سے یا رحمٰن و رحیم کے الفاظ سنے تو کہا کہ ہمیں تو یہ کہتا ہے کہ صرف ایک اللہ کو پکارو اور خود دو معبودوں کو پکار رہا ہے۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی (ابن کثیر)
(2) اس کی شان نزول میں حضرت ابن عباس (رضي الله عنه) بیان فرماتے ہیں کہ مکے میں رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) چھپ کر رہتے تھے، جب اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھاتے تو آواز قدرے بلند فرما لیتے، مشرکین قرآن سن کر قرآن کو اور اللہ کو گالی گلوچ کرتے، اللہ تعالٰی نے فرمایا، اپنی آواز کو اتنا اونچا نہ کرو کہ مشرکین سن کر قرآن کو برا بھلا کہیں اور نہ آواز اتنی پست کرو کہ صحابہ (رضي الله عنهم) بھی نہ سن سکیں( البخاري- التوحيد، باب قول الله تعالى أنزله بعلمه والملائكة يشهدون- ومسلم، الصلاة، باب التوسط في القراءة )، خود نبی (صلى الله عليه وسلم) کا واقعہ ہے کہ ایک رات نبی (صلى الله عليه وسلم) کا گزر حضرت ابو بکر صدیق (رضي الله عنه) کی طرف سے ہوا تو وہ پست آواز سے نماز پڑھ رہے ہیں، پھر حضرت عمر (رضي الله عنه) کو بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا تو وہ اونچی آواز سے نماز پڑھ رہے تھے۔ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے دونوں سے پوچھا تو حضرت ابو بکر صدیق (رضي الله عنه)نے فرمایا میں جس سے مصروف مناجات تھا، وہ میری آواز سن رہا تھا، حضرت عمر (رضي الله عنه) نے جواب دیا کہ میرا مقصد سوتوں کو جگانا اور شیطان کو بھگانا تھا۔ آپ نے صدیق اکبر (رضي الله عنه) سے فرمایا ”اپنی آواز قدرے بلند کرو“ اور حضرت عمر (رضي الله عنه) سے کہا ”اپنی آواز کچھ پست رکھو“ ( مشكاة باب صلاة الليل، بحواله أبو داود ترمذي )۔ حضرت عائشہ (رضی الله عنها) فرماتی ہیں کہ یہ آیت دعا کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ (بخاری و مسلم، بحوالہ فتح القدیر)