(1) مصیبت کے بعد نعمت کا مطلب ہے۔ تنگی، قحط سالی اور آلام و مصائب کے بعد، رزق کی فروانی، اسباب معیشت کی ارزانی وغیرہ۔
(2) اس کا مطلب ہے کہ ہماری ان نعمتوں کی قدر اور ان پر اللہ کا شکر ادا نہیں کرتے بلکہ کفر اور شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔ یعنی ان کی وہ بری تدبیر ہے جو اللہ کی نعمتوں کے مقابلے میں اختیار کرتے ہیں۔
(3) یعنی اللہ کی تدبیر ان سے کہیں زیادہ تیز ہے جو وہ اختیار کرتے ہیں۔ اور وہ یہ ہے کہ ان کا مواخذہ کرنے پر قادر ہے، وہ جب چاہے ان کی گرفت کر سکتا ہے، فوراً بھی اور اس کی حکمت تاخیر کا تقاضا کرنے والی ہو تو بعد میں بھی۔ مکر، عربی زبان میں خفیہ تدبیر اور حکمت عملی کو کہتے ہیں، جو اچھی بھی ہوسکتی ہے اور بری بھی۔ یہاں اللہ کی عقوبت اور گرفت کو مکر سے تعبیر کیا گیا ہے۔
(1) يُسَيِّرُكُمْ وہ تمہیں چلاتا یا چلنے پھرنے اور سیر کرنے کی توفیق دیتا ہے " خشکی میں " یعنی اس نے تمہیں قدم عطا کئے جن سے تم چلتے ہو، سواریاں مہیا کیں، جن پر سوار ہو کر دور دراز کے سفر کرتے ہو " اور سمندر میں " یعنی اللہ نے تمہیں کشتیاں اور جہاز بنانے کی عقل اور سمجھ دی، تم نے وہ بنائیں اور ان کے ذریعے سے سمندر کا سفر کرتے ہو۔
(2) أُحِيطَ بِهِمْ کا مطلب ہے، جس طرح دشمن کسی قوم یا شہر کا احاطہ یعنی محاصرہ کر لیتا ہے اور وہ دشمن کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں، اسی طرح وہ جب سخت ہواؤں کے تھپیڑوں اور تلاطم خیز موجوں میں گھر جاتے ہیں اور موت ان کو سامنے نظر آتی ہے۔
(3) یعنی پھر وہ دعا میں غیر اللہ کی ملاوٹ نہیں کرتے جس طرح عام حالات میں کرتے ہیں۔ عام حالات میں تو کہتے ہیں کہ یہ بزرگ بھی اللہ کے بندے ہیں، انہیں بھی اللہ نے اختیارات سے نواز رکھا ہے اور انہی کے ذریعے سے ہم اللہ کا قرب تلاش کرتے ہیں۔ لیکن جب اس طرح شدائد میں گھر جاتے ہیں تو یہ سارے شیطانی فلسفے بھول جاتے ہیں اور صرف اللہ یاد رہ جاتا ہے اور پھر صرف اسی کو پکارتے ہیں۔ اس سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ انسان کی فطرت میں اللہ واحد کی طرف رجوع کا جذبہ ودیعت کیا گیا ہے۔ انسان ماحول سے متاثر ہو کر اس جذبے یا فطرت کو دبا دیتا ہے لیکن مصیبت میں یہ جذبہ ابھر آتا ہے اور یہ فطرت عود کر آتی ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ توحید، فطرت انسانی کی آواز اور اصل چیز ہے، جس سے انسان کو انحراف نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ اس سے انحراف فطرت سے انحراف جو سراسر گمراہی ہے، دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ مشرکین، جب اس طرح مصائب میں گھر جاتے تو وہ اپنے خود ساختہ معبودوں کے بجائے، صرف ایک اللہ کو پکارتے تھے چنانچہ حضرت عکرمہ بن ابی جہل (رضي الله عنه) کے بارے میں آتا ہے کہ جب مکہ فتح کیا تو یہ وہاں سے فرار ہوگئے۔ باہر کسی جگہ جانے کے لیے کشتی میں سوار ہوئے، تو کشتی طوفانی ہواؤں کی زد میں آگئی۔ جس پر ملاح نے کشتی میں سوار لوگوں سے کہا کہ آج اللہ واحد سے دعا کرو، تمہیں اس طوفان سے اس کے سوا کوئی نجات دینے والا نہیں ہے۔ حضرت عکرمہ (رضي الله عنه) کہتے ہیں، میں نے سوچا اگر سمندر میں نجات دینے والا صرف ایک اللہ ہے تو خشکی میں بھی یقینا نجات دینے والا وہی ہے۔ اور یہی بات محمد کہتے ہیں۔ چنانچہ انہوں فیصلہ کر لیا اگر یہاں سے میں زندہ بچ کر نکل گیا تو مکہ واپس جا کر اسلام قبول کرلوں گا۔ چنانچہ یہ نبی (صلى الله عليه وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مسلمان ہوگئے۔ (رضي الله عنه) (سنن نسائي، أبو داود- نمبر 2683۔ وذكر الألباني في الصحيحة نمبر1723) لیکن افسوس! امت محمدیہ کے عوام اس طرح شرک میں پھنسے ہوئے ہیں کہ شدائد و آلام میں بھی وہ اللہ کی طرف رجوع کرنے کے بجائے فوت شدہ بزرگوں کو ہی مشکل کشا سمجھتے اور انہی کو مدد کے لیے پکارتے ہیں۔ فَإِنَّا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ آہ! فَلْيَبْكِ عَلَى الإسْلامِ مَنْ كَانَ بَاكِيًا
(1) یہ انسان کی ناشکری کی عادت کا ذکر ہے جس کا تذکرہ ابھی آیت 12 میں بھی گزرا، اور قرآن میں اور بھی متعدد مقامات پر اللہ نے اس کا ذکر فرمایا ہے۔
(2) اللہ تعالٰی نے فرمایا، تم یہ ناشکری اور سرکشی کرلو، چار روزہ متاع زندگی سے فائدہ اٹھا کر بالآخر تمہیں ہمارے ہی پاس آنا ہے، پھر تمہیں، جو کچھ تم کرتے رہے ہو گے، بتلائیں گے یعنی ان پر سزا دیں گے۔
(1) حَصِيدًا فعیل بمعنی مفعول ہے أَيْ: مَحْصُودًا یعنی محصود دنیا کی زندگی اس طرح کھیتی سے تشبیہ دے کر اس کے عارضی پن اور ناپائیداری کو واضح کیا گیا ہے کہ کھیتی بھی بارش کے پانی سے نشمونما پاتی اور سر سبز و شداب ہوتی ہے لیکن اس کے بعد اسے کاٹ کر فنا کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔