કુરઆન મજીદના શબ્દોનું ભાષાંતર - ઉર્દુ ભાષામાં અનુવાદ - મુહમ્મદ જૂનાગઢી

પેજ નંબર:close

external-link copy
89 : 10

قَالَ قَدْ اُجِیْبَتْ دَّعْوَتُكُمَا فَاسْتَقِیْمَا وَلَا تَتَّبِعٰٓنِّ سَبِیْلَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ ۟

حق تعالیٰ نے فرمایا کہ تم دونوں کی دعا قبول کرلی گئی، سو تم ﺛابت قدم رہو(1) اور ان لوگوں کی راه نہ چلنا جن کو علم نہیں.(2) info

(1) اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ اپنی بد دعا پر قائم رہنا، چاہے اس کے ظہور میں تاخیر ہو جائے۔ کیونکہ تمہاری دعا تو یقینا قبول کر لی گئی لیکن ہم اسے عملی جامہ کب پہنائیں گے؟ یہ خالص ہماری مشیت و حکمت پر موقوف ہے۔ چنانچہ بعض مفسرین نے بیان کیا کہ اس بد دعا کے چالیس سال بعد فرعون اور اس کی قوم ہلاک کی گئی اور بد دعا کے مطابق فرعون جب ڈوبنے لگا تو اس وقت اس نے ایمان لانے کا اعلان کیا، جس کا اسے کوئی فائدہ نہ ہوا۔ دوسرا مطلب یہ کہ تم اپنی تبلیغ و دعوت۔ بنی اسرائیل کی ہدایت و راہنمائی اور اس کو فرعون کی غلامی سے نجات دلانے کی جد و جہد جاری رکھو۔
(2) یعنی جو لوگ اللہ کی سنت، اس کے قانون، اور اس کی مصلحتوں اور حکمتوں کو نہیں جانتے، تم ان کی طرح مت ہونا بلکہ اب انتظار اور صبر کرو، اللہ تعالٰی اپنی حکمت و مصلحت کے مطابق جلد یا بہ دیر اپنا وعدہ ضرور پورا فرمائے گا۔ کیونکہ وہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔

التفاسير:

external-link copy
90 : 10

وَجٰوَزْنَا بِبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ الْبَحْرَ فَاَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُوْدُهٗ بَغْیًا وَّعَدْوًا ؕ— حَتّٰۤی اِذَاۤ اَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ اٰمَنْتُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا الَّذِیْۤ اٰمَنَتْ بِهٖ بَنُوْۤا اِسْرَآءِیْلَ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ۟

اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا (1) سے پار کردیا پھر ان کے پیچھے پیچھے فرعون اپنے لشکر کے ساتھ ﻇلم اور زیادتی کے اراده سے چلا یہاں تک کہ جب ڈوبنے لگا(2) تو کہنے لگا کہ میں ایمان ﻻتا ہوں کہ جس پر بنی اسرائیل ایمان ﻻئے ہیں، اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں. info

(1) یعنی سمندر کو پھاڑ کر، اس میں خشک راستہ بنا دیا۔ (جس طرح کہ سورہ بقرہ آیت 50میں گزرا اور مزید تفصیل سورہ شعرا میں آئے گی) اور تمہیں ایک کنارے سے دوسرے کنارے پر پہنچا دیا۔
(2) یعنی اللہ کے حکم سے معجزانہ طریق پر بنے ہوئے خشک راستے پر، جس پر چل کر موسیٰ (عليه السلام) اور ان کی قوم نے سمندر پار کیا تھا، فرعون اور اس کا لشکر بھی سمندر پار کرنے کی غرض سے چلنا شروع ہوگیا۔ مقصد یہ تھا کہ موسیٰ (عليه السلام) بنی اسرائیل کو جو میری غلامی سے نجات دلانے کے لئے راتوں رات لے آیا تو اسے دوبارہ قید غلامی میں لایا جائے۔ جب فرعون اور اس کا لشکر، اس سمندری راستے میں داخل ہوگیا تو اللہ نے سمندر کو حسب سابق جاری ہو جانے کا حکم دے دیا۔ نتیجتاً فرعون سمیت سب کے سب غرق دریا ہوگئے۔

التفاسير:

external-link copy
91 : 10

آٰلْـٰٔنَ وَقَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَكُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ ۟

(جواب دیا گیا کہ) اب ایمان ﻻتا ہے؟ اور پہلے سرکشی کرتا رہا اور مفسدوں میں داخل رہا.(1) info

(1) اللہ کی طرف سے جواب دیا گیا کہ اب ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ کیونکہ جب ایمان لانے کا وقت تھا، اس وقت تو نافرمانیوں اور فساد انگیزیوں میں مبتلا رہا۔

التفاسير:

external-link copy
92 : 10

فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُوْنَ لِمَنْ خَلْفَكَ اٰیَةً ؕ— وَاِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰیٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَ ۟۠

سو آج ہم صرف تیری ﻻش کو نجات دیں گے تاکہ تو ان کے لیے نشان عبرت ہو جو تیرے بعد ہیں(1) اور حقیقت یہ ہے کہ بہت سے آدمی ہماری نشانیوں سے غافل ہیں. info

(1) جب فرعون غرق ہوگیا تو اس کی موت کا بہت سے لوگوں کو یقین نہ آتا تھا۔ اللہ تعالٰی نے سمندر کو حکم دیا، کہ اس نے اس کی لاش کو باہر خشکی پر پھینک دیا، جس کا مشاہدہ پھر سب نے کیا۔ مشہور ہے کہ آج بھی یہ لاش مصر کے عجائب خانے میں محفوظ ہے۔ واللهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔

التفاسير:

external-link copy
93 : 10

وَلَقَدْ بَوَّاْنَا بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ مُبَوَّاَ صِدْقٍ وَّرَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ ۚ— فَمَا اخْتَلَفُوْا حَتّٰی جَآءَهُمُ الْعِلْمُ ؕ— اِنَّ رَبَّكَ یَقْضِیْ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فِیْمَا كَانُوْا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ ۟

اور ہم نے بنی اسرائیل کو بہت اچھا ٹھکانا رہنے کو دیا اور ہم نے انہیں پاکیزه چیزیں کھانے کو دیں۔ سو انہوں نے اختلاف نہیں کیا یہاں تک کہ ان کے پاس علم پہنچ گیا(1) ۔ یقینی بات ہے کہ آپ کا رب ان کے درمیان قیامت کے دن ان امور میں فیصلہ کرے گا جن میں وه اختلاف کرتے تھے. info

(1) یعنی ایک تو اللہ کا شکر ادا کرنے کی بجائے، آپس میں اختلاف شروع کر دیا، پھر یہ اختلاف بھی لا علمی اور جہالت کی وجہ سے نہیں کیا، بلکہ علم آجانے کے بعد کیا، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ اختلاف محض عناد اور تکبر کی بنیاد پر تھا۔

التفاسير:

external-link copy
94 : 10

فَاِنْ كُنْتَ فِیْ شَكٍّ مِّمَّاۤ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ فَسْـَٔلِ الَّذِیْنَ یَقْرَءُوْنَ الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكَ ۚ— لَقَدْ جَآءَكَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ ۟ۙ

پھر اگر آپ اس کی طرف سے شک میں ہوں جس کو ہم نے آپ کے پاس بھیجا ہے تو آپ ان لوگوں سے پوچھ دیکھیے جو آپ سے پہلی کتابوں کو پڑھتے ہیں۔ بیشک آپ کے پاس آپ کے رب کی طرف سے سچی کتاب آئی ہے۔ آپ ہرگز شک کرنے والوں میں سے نہ ہوں.(1) info

(1) یہ خطاب یا تو عام انسانوں کو ہے یا پھر نبی کے واسطے سے امت کو تعلیم دی جا رہی ہے۔ کیونکہ نبی کو تو وحی کے بارے میں کوئی شک ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ جو کتاب پڑھتے ہیں، ان سے پوچھ لیں ' کا مطلب ہے کہ قرآن مجید سے پہلے کی آسمانی کتابیں (تورات و انجیل وغیرہ) یعنی جن کے پاس یہ کتابیں موجود ہیں ان سے اس قرآن کی بابت معلوم کریں کیونکہ ان میں اس کی نشانیاں اور آخری پیغمبر کی صفات بیان کی گئی ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
95 : 10

وَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ فَتَكُوْنَ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ۟

اور نہ ان لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی آیتوں کو جھٹلایا، کہیں آپ خساره پانے والوں میں سے نہ ہوجائیں.(1) info

(1) یہ بھی دراصل مخاطب امت کو سمجھایا جا رہا ہے کہ تکذیب کا راستہ خسران اور تباہی کا راستہ ہے۔

التفاسير:

external-link copy
96 : 10

اِنَّ الَّذِیْنَ حَقَّتْ عَلَیْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ ۟ۙ

یقیناً جن لوگوں کے حق میں آپ کے رب کی بات ثابت ہوچکی ہے وه ایمان نہ ﻻئیں گے. info
التفاسير:

external-link copy
97 : 10

وَلَوْ جَآءَتْهُمْ كُلُّ اٰیَةٍ حَتّٰی یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ ۟

گو ان کے پاس تمام نشانیاں پہنچ جائیں جب تک کہ وه دردناک عذاب کو نہ دیکھ لیں.(1) info

(1) یہ وہی لوگ ہیں جو کفر و مصیت الٰہی میں اتنے غرق ہو چکے ہوتے ہیں کہ کوئی و عظ ان پر اثر نہیں کرتا اور کوئی دلیل ان کے کارگر نہیں ہوتی۔ اسلئے نافرمانیاں کرکے قبول حق کی فطری استعداد و صلاحیت کو وہ ختم کر لئے ہوتے ہیں، ان کی آنکھیں اگر کھلتی ہیں تو اس وقت، جب عذاب الٰہی ان کے سروں پر آجاتا ہے، تب وہ ایمان اللہ کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوتا «فَلَمْ يَكُ يَنْفَعُهُمْ اِيْمَانُهُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَـنَا» (المومن:85) ”جب وہ ہمارا عذاب دیکھ چکے (اس وقت) ان کے ایمان نے انہیں کوئی فائدہ نہیں دیا“۔

التفاسير: