Firo maanaaji al-quraan tedduɗo oo - Eggo maanaaji Alkur'aana e haala Urdu - Muhammad Gunakry.

Tonngoode hello ngoo:close

external-link copy
17 : 68

اِنَّا بَلَوْنٰهُمْ كَمَا بَلَوْنَاۤ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ ۚ— اِذْ اَقْسَمُوْا لَیَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِیْنَ ۟ۙ

بیشک ہم نے انہیں اسی طرح آزما لیا(1) جس طرح ہم نے باغ والوں کو(2) آزمایا تھا جبکہ انہوں نے قسمیں کھائیں کہ صبح ہوتے ہی اس باغ کے پھل اتار لیں گے.(3) info

(1) مراد اہل مکہ ہیں یعنی ہم نے ان کو مال و دولت سے نوازا تاکہ وہ اللہ کا شکر کریں نہ کہ کفر وتکبر لیکن انہوں نے کفر و استکبار کیا تو ہم نے انہیں بھوک اور قحط کی آزمائش میں ڈال دیا جس میں وہ نبی کی بددعا کی وجہ سے کچھ عرصہ مبتلا رہے۔
(2) باغ والوں کا قصہ عربوں میں مشہور تھا۔ یہ باغ (یمن) سے دو فرسخ کے فاصلے پر تھا اس کا مالک اس کی پیداوار غربا و مساکین پر بھی خرچ کرتا تھا، لیکن اس کے مرنے کے بعد جب اس کی اولاد اس کی وارث بنی تو انہوں نے کہا کہ ہمارے تو اپنے اخراجات بمشکل پورے ہوتے ہیں، ہم اس کی آمدنی میں سے مساکین اور سائلین کو کس طرح دیں؟ چنانچہ اللہ تعالٰی نے اس باغ کو تباہ کر دیا، کہتے ہیں یہ واقعہ حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کے آسمان پر اٹھائے جانے کے تھوڑے عرصے بعد پیش آیا (فتح القدیر) یہ ساری تفصیل تفسیری روایات کی ہے۔
(3) صزم کے معنی ہے کاٹ ڈالنا ،پھل اور کھیتی کا کاٹ دالنا ،مصبحین ضال ہے یعنی صبح ہوتے ہی پھل اتار لیں گے اور پیداوار کاٹ لیں گے۔

التفاسير:

external-link copy
18 : 68

وَلَا یَسْتَثْنُوْنَ ۟

اور انشاءاللہ نہ کہا. info
التفاسير:

external-link copy
19 : 68

فَطَافَ عَلَیْهَا طَآىِٕفٌ مِّنْ رَّبِّكَ وَهُمْ نَآىِٕمُوْنَ ۟

پس اس پر تیرے رب کی جانب سے ایک بلا چاروں طرف گھوم گئی اور یہ سو ہی رہے تھے.(1) info

(1) بعض کہتے ہیں، راتوں رات اسے آگ لگ گئی، بعض کہتے ہیں، جبرائیل (عليه السلام) نے آکر اسے تہس نہس کر دیا۔

التفاسير:

external-link copy
20 : 68

فَاَصْبَحَتْ كَالصَّرِیْمِ ۟ۙ

پس وه باغ ایسا ہو گیا جیسے کٹی ہوئی کھیتی.(1) info

(1) یعنی جس طرح کھیتی کٹنے کے بعد خشک ہو جاتی ہے، اس طرح سارا باغ اجڑ گیا، بعض نے ترجمہ یہ کیا ہے، سیاہ رات کی طرح ہوگیا، یعنی جل کر۔

التفاسير:

external-link copy
21 : 68

فَتَنَادَوْا مُصْبِحِیْنَ ۟ۙ

اب صبح ہوتے ہی انہوں نے ایک دوسرے کو آوازیں دیں. info
التفاسير:

external-link copy
22 : 68

اَنِ اغْدُوْا عَلٰی حَرْثِكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰرِمِیْنَ ۟

کہ اگر تمہیں پھل اتارنے ہیں تو اپنی کھیتی پر سویرے ہی سویرے چل پڑو. info
التفاسير:

external-link copy
23 : 68

فَانْطَلَقُوْا وَهُمْ یَتَخَافَتُوْنَ ۟ۙ

پھر یہ سب چپکے چپکے یہ باتیں کرتے ہوئے چلے.(1) info

(1) یعنی باغ کی طرف جانے کے لئے ایک تو صبح صبح نکلے دوسرے آہستہ آہستہ باتیں کرتے ہوئے گئے تاکہ کسی کو ان کے جانے کا علم نہ ہو۔

التفاسير:

external-link copy
24 : 68

اَنْ لَّا یَدْخُلَنَّهَا الْیَوْمَ عَلَیْكُمْ مِّسْكِیْنٌ ۟ۙ

کہ آج کے دن کوئی مسکین تمہارے پاس نہ آنے پائے.(1) info
التفاسير:

external-link copy
25 : 68

وَّغَدَوْا عَلٰی حَرْدٍ قٰدِرِیْنَ ۟

اور لپکے ہوئے صبح صبح گئے۔ (سمجھ رہے تھے) کہ ہم قابو پاگئے.(1) info

(1) یعنی وہ ایک دوسرے کو کہتے رہے کہ آج کوئی باغ میں آکر ہم سے کچھ نہ مانگے جس طرح ہمارے باپ کے زمانے میں آیا کرتے تھے اور وہ اپنا حصہ لے جاتے تھے۔
(2) حرد کے ایک معنی تو قوت و شدت 'کیے گئے ہیں جس کو مترجم مرحوم نے ”لپکے ہوئے“ سے تعبیر کیا ہے ۔بعض نے غصہ اور حسد کئے ہیں 'یعنی مساکین پر غیظ و غضب کا اظہار یا حسد کرتے ہوئے قادرین حال ہےیعنی اپنے معاملے کا انہوں نے اندازہ کر لیا، یا اپنے ارادے سے انہوں نے باغ پر قدرت حاصل کر لی، یا مطلب ہے مساکین پر انہوں نے قابو پا لیا۔

التفاسير:

external-link copy
26 : 68

فَلَمَّا رَاَوْهَا قَالُوْۤا اِنَّا لَضَآلُّوْنَ ۟ۙ

جب انہوں نے باغ دیکھا(1) تو کہنے لگے یقیناً ہم راستہ(2) بھول گئے. info

(1) یعنی باغ والی جگہ کو راکھ کا ڈھیر یا اسے تباہ برباد دیکھا۔
(2) یعنی پہلے پہل تو ایک دوسرے کو کہا۔

التفاسير:

external-link copy
27 : 68

بَلْ نَحْنُ مَحْرُوْمُوْنَ ۟

نہیں نہیں بلکہ ہماری قسمت پھوٹ گئی.(1) info

(1) پھر جب غور کیا تو جان گئے کہ یہ آفت زدہ اور تباہ شدہ باغ ہمارا ہی ہے جسے اللہ نے ہمارے طرز عمل کی پاداش میں ایسا کر دیا اور واقعی یہ ہماری بد نصیبی ہے۔ٍ

التفاسير:

external-link copy
28 : 68

قَالَ اَوْسَطُهُمْ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ لَوْلَا تُسَبِّحُوْنَ ۟

ان سب میں جو بہتر تھا اس نے کہا کہ میں تم سے نہ کہتا تھا کہ تم اللہ کی پاکیزگی کیوں نہیں بیان کرتے؟(1) info

(1) بعض نے تسبیح سے مراد ان شاء اللہ کہنا مراد لیا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
29 : 68

قَالُوْا سُبْحٰنَ رَبِّنَاۤ اِنَّا كُنَّا ظٰلِمِیْنَ ۟

تو سب کہنے لگے ہمارا رب پاک ہے بیشک ہم ہی ﻇالم تھے.(1) info

(1) یعنی اب انہیں احساس ہوا کہ ہم نے اپنے باپ کے طرز عمل کے خلاف قدم اٹھا کر غلطی کا ارتکاب کیا ہے جس کی سزا اللہ نے ہمیں دی ہے اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ معصیت کا عزم اور اس کے لیے ابتدائی اقدامات بھی ارتکاب معصیت کی طرح جرم ہے جس پر مؤاخذہ ہوسکتا ہے صرف وہ ارادہ معاف ہے جو وسوسے کی حد تک رہتا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
30 : 68

فَاَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰی بَعْضٍ یَّتَلَاوَمُوْنَ ۟

پھر وه ایک دوسرے کی طرف رخ کر کے آپس میں ملامت کرنے لگے. info
التفاسير:

external-link copy
31 : 68

قَالُوْا یٰوَیْلَنَاۤ اِنَّا كُنَّا طٰغِیْنَ ۟

کہنے لگے ہائے افسوس! یقیناً ہم سرکش تھے. info
التفاسير:

external-link copy
32 : 68

عَسٰی رَبُّنَاۤ اَنْ یُّبْدِلَنَا خَیْرًا مِّنْهَاۤ اِنَّاۤ اِلٰی رَبِّنَا رٰغِبُوْنَ ۟

کیا عجب ہے کہ ہمارا رب ہمیں اس سے بہتر بدلہ دے دے ہم تو اب(1) اپنے رب سے ہی آرزو رکھتے ہیں. info

(1) کہتے ہیں کہ انہوں نے آپس میں عہد کیا کہ اب اگر اللہ نے ہمیں مال دیا تو اپنے باپ کی طرح اس میں سے غربا اور مساکین کا حق ادا کریں گے۔ اسلئے ندامت اور توبہ کے ساتھ رب سے امیدیں بھی وابستہ کیں۔

التفاسير:

external-link copy
33 : 68

كَذٰلِكَ الْعَذَابُ ؕ— وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَرُ ۘ— لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ ۟۠

یوں ہی آفت آتی ہے(1) اور آخرت کی آفت بہت بڑی ہے۔ کاش انہیں سمجھ ہوتی.(2) info

(1) یعنی اللہ کے حکم کی مخالفت اور اللہ کے دیے مال میں بخل کرنے والوں کو ہم دنیا میں اسی طرح عذاب دیتے ہیں۔
(2) لیکن افسوس وہ اس حقیقت کو نہیں سمجھتے، اس لئے پروا نہیں کرتے۔

التفاسير:

external-link copy
34 : 68

اِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ ۟

پرہیزگاروں کے لیے ان کے رب کے پاس نعمتوں والی جنتیں ہیں. info
التفاسير:

external-link copy
35 : 68

اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِیْنَ كَالْمُجْرِمِیْنَ ۟ؕ

کیا ہم مسلمانوں کو مثل گناه گاروں کے کردیں گے.(1) info

(1) مشرکین مکہ کہتے تھے کہ اگر قیامت ہوئی تو وہاں بھی ہم مسلمانوں سے بہتر ہی ہونگے، جیسے دنیا میں ہم مسلمانوں سے زیادہ آسودہ حال ہیں۔ اللہ تعالٰی نے ان کے جواب میں فرمایا، یہ کس طرح ممکن ہے ہم مسلمانوں کو یعنی اپنے فرماں برداروں کو مجرموں یعنی نافرمانوں کی طرح کر دیں گے مطلب یہ ہے کہ یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالٰی عدل وانصاف کے خلاف دونوں کو یکساں کردے۔

التفاسير:

external-link copy
36 : 68

مَا لَكُمْ ۫— كَیْفَ تَحْكُمُوْنَ ۟ۚ

تمہیں کیا ہوگیا، کیسے فیصلے کر رہے ہو؟ info
التفاسير:

external-link copy
37 : 68

اَمْ لَكُمْ كِتٰبٌ فِیْهِ تَدْرُسُوْنَ ۟ۙ

کیا تمہارے پاس کوئی کتاب(1) ہے جس میں تم پڑھتے ہو؟ info

(1) جس میں یہ بات لکھی ہوئی ہے جس کا تم دعویٰ کر رہے ہو، کہ وہاں بھی تمہارے لئے وہ کچھ ہو جسے تم پسند کرتے ہو۔

التفاسير:

external-link copy
38 : 68

اِنَّ لَكُمْ فِیْهِ لَمَا تَخَیَّرُوْنَ ۟ۚ

کہ اس میں تمہاری من مانی باتیں ہوں؟ info
التفاسير:

external-link copy
39 : 68

اَمْ لَكُمْ اَیْمَانٌ عَلَیْنَا بَالِغَةٌ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَةِ ۙ— اِنَّ لَكُمْ لَمَا تَحْكُمُوْنَ ۟ۚ

یا تم نے ہم سے کچھ قسمیں لی ہیں؟ جو قیامت تک باقی رہیں کہ تمہارے لیے وه سب ہے جو تم اپنی طرف سے مقرر کر لو.(1) info

(1) یا ہم نے تم سے پکا عہد کر رکھا ہے، جو قیامت تک باقی رہنے والا ہے کہ تمہارے لئے وہی کچھ ہوگا جس کا تم اپنی بابت فیصلہ کرو گے۔`

التفاسير:

external-link copy
40 : 68

سَلْهُمْ اَیُّهُمْ بِذٰلِكَ زَعِیْمٌ ۟ۚۛ

ان سے پوچھو تو کہ ان میں سے کون اس بات کا ذمہدار (اور دعویدار) ہے؟(1) info

(1) کہ وہ قیامت والے دن ان کے لئے وہی کچھ فیصلہ کروائے گا، جو اللہ تعالٰی مسلمانوں کے لئے فرمائے گا۔

التفاسير:

external-link copy
41 : 68

اَمْ لَهُمْ شُرَكَآءُ ۛۚ— فَلْیَاْتُوْا بِشُرَكَآىِٕهِمْ اِنْ كَانُوْا صٰدِقِیْنَ ۟

کیا ان کے کوئی شریک ہیں؟ تو چاہئے کہ اپنے اپنے شریکوں کو لے آئیں اگر یہ سچے ہیں.(1) info

(1) یا جن کو انہوں نے شریک ٹھہرا رکھا ہے وہ ان کی مدد کر کے ان کو اچھا مقام دلوا دیں گے؟ اگر ان کے شریک ایسے ہیں تو ان کو سامنے لائیں تاکہ ان کی صداقت واضح ہو۔

التفاسير:

external-link copy
42 : 68

یَوْمَ یُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّیُدْعَوْنَ اِلَی السُّجُوْدِ فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ۟ۙ

جس دن پنڈلی کھول دی جائے گی اور سجدے کے لیے بلائے جائیں گے تو (سجده) نہ کر سکیں گے.(1) info

(1) بعض نے کشف ساق سے مراد قیامت کی ہولناکیاں لی ہیں لیکن ایک صحیح حدیث اس کی تفسیر اس طرح بیان ہوئی ہے کہ قیامت والے دن اللہ تعالٰی اپنی پنڈلی کھولے گا (جس طرح اس کی شان کے لائق ہے) تو ہر مومن مرد اور عورت اس کے سامنے سجدہ ریز ہو جائیں گے البتہ وہ لوگ باقی رہ جائیں گے جو دکھلاوے اور شہرت کے لئے سجدہ کرتے تھے وہ سجدہ کرنا چاہیں گے لیکن ان کی ریڑھ کی ہڈی کے منکے، تختے کی طرح ایک ہڈی بن جائیں گے جس کی وجہ سے ان کے لئے جھکنا ناممکن ہو جائے گا (صحیح بخاری) اللہ تعالٰی کی پنڈلی کس طرح کی ہوگی؟ اسے وہ کس طرح کھولے گا؟ اس کیفیت ہم نہ جان سکتے ہیں نہ بیان کر سکتے ہیں۔ اس لئے جس طرح ہم بلا کیف و بلاشبہ اس کی آنکھوں، کان، ہاتھ وغیرہ پر ایمان رکھتے ہیں، اسی طرح پنڈلی کا ذکر بھی قرآن اور حدیث میں ہے، اس پر بلاکیف ایمان رکھنا ضروری ہے۔ یہی سلف اور محدثین کا مسلک ہے۔

التفاسير: