(1) مراد اہل مکہ ہیں یعنی ہم نے ان کو مال و دولت سے نوازا تاکہ وہ اللہ کا شکر کریں نہ کہ کفر وتکبر لیکن انہوں نے کفر و استکبار کیا تو ہم نے انہیں بھوک اور قحط کی آزمائش میں ڈال دیا جس میں وہ نبی کی بددعا کی وجہ سے کچھ عرصہ مبتلا رہے۔
(2) باغ والوں کا قصہ عربوں میں مشہور تھا۔ یہ باغ (یمن) سے دو فرسخ کے فاصلے پر تھا اس کا مالک اس کی پیداوار غربا و مساکین پر بھی خرچ کرتا تھا، لیکن اس کے مرنے کے بعد جب اس کی اولاد اس کی وارث بنی تو انہوں نے کہا کہ ہمارے تو اپنے اخراجات بمشکل پورے ہوتے ہیں، ہم اس کی آمدنی میں سے مساکین اور سائلین کو کس طرح دیں؟ چنانچہ اللہ تعالٰی نے اس باغ کو تباہ کر دیا، کہتے ہیں یہ واقعہ حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کے آسمان پر اٹھائے جانے کے تھوڑے عرصے بعد پیش آیا (فتح القدیر) یہ ساری تفصیل تفسیری روایات کی ہے۔
(3) صزم کے معنی ہے کاٹ ڈالنا ،پھل اور کھیتی کا کاٹ دالنا ،مصبحین ضال ہے یعنی صبح ہوتے ہی پھل اتار لیں گے اور پیداوار کاٹ لیں گے۔
(1) یعنی وہ ایک دوسرے کو کہتے رہے کہ آج کوئی باغ میں آکر ہم سے کچھ نہ مانگے جس طرح ہمارے باپ کے زمانے میں آیا کرتے تھے اور وہ اپنا حصہ لے جاتے تھے۔
(2) حرد کے ایک معنی تو قوت و شدت 'کیے گئے ہیں جس کو مترجم مرحوم نے ”لپکے ہوئے“ سے تعبیر کیا ہے ۔بعض نے غصہ اور حسد کئے ہیں 'یعنی مساکین پر غیظ و غضب کا اظہار یا حسد کرتے ہوئے قادرین حال ہےیعنی اپنے معاملے کا انہوں نے اندازہ کر لیا، یا اپنے ارادے سے انہوں نے باغ پر قدرت حاصل کر لی، یا مطلب ہے مساکین پر انہوں نے قابو پا لیا۔
(1) یعنی اب انہیں احساس ہوا کہ ہم نے اپنے باپ کے طرز عمل کے خلاف قدم اٹھا کر غلطی کا ارتکاب کیا ہے جس کی سزا اللہ نے ہمیں دی ہے اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ معصیت کا عزم اور اس کے لیے ابتدائی اقدامات بھی ارتکاب معصیت کی طرح جرم ہے جس پر مؤاخذہ ہوسکتا ہے صرف وہ ارادہ معاف ہے جو وسوسے کی حد تک رہتا ہے۔
(1) کہتے ہیں کہ انہوں نے آپس میں عہد کیا کہ اب اگر اللہ نے ہمیں مال دیا تو اپنے باپ کی طرح اس میں سے غربا اور مساکین کا حق ادا کریں گے۔ اسلئے ندامت اور توبہ کے ساتھ رب سے امیدیں بھی وابستہ کیں۔
(1) یعنی اللہ کے حکم کی مخالفت اور اللہ کے دیے مال میں بخل کرنے والوں کو ہم دنیا میں اسی طرح عذاب دیتے ہیں۔
(2) لیکن افسوس وہ اس حقیقت کو نہیں سمجھتے، اس لئے پروا نہیں کرتے۔
(1) مشرکین مکہ کہتے تھے کہ اگر قیامت ہوئی تو وہاں بھی ہم مسلمانوں سے بہتر ہی ہونگے، جیسے دنیا میں ہم مسلمانوں سے زیادہ آسودہ حال ہیں۔ اللہ تعالٰی نے ان کے جواب میں فرمایا، یہ کس طرح ممکن ہے ہم مسلمانوں کو یعنی اپنے فرماں برداروں کو مجرموں یعنی نافرمانوں کی طرح کر دیں گے مطلب یہ ہے کہ یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالٰی عدل وانصاف کے خلاف دونوں کو یکساں کردے۔
(1) یا ہم نے تم سے پکا عہد کر رکھا ہے، جو قیامت تک باقی رہنے والا ہے کہ تمہارے لئے وہی کچھ ہوگا جس کا تم اپنی بابت فیصلہ کرو گے۔`
(1) یا جن کو انہوں نے شریک ٹھہرا رکھا ہے وہ ان کی مدد کر کے ان کو اچھا مقام دلوا دیں گے؟ اگر ان کے شریک ایسے ہیں تو ان کو سامنے لائیں تاکہ ان کی صداقت واضح ہو۔
(1) بعض نے کشف ساق سے مراد قیامت کی ہولناکیاں لی ہیں لیکن ایک صحیح حدیث اس کی تفسیر اس طرح بیان ہوئی ہے کہ قیامت والے دن اللہ تعالٰی اپنی پنڈلی کھولے گا (جس طرح اس کی شان کے لائق ہے) تو ہر مومن مرد اور عورت اس کے سامنے سجدہ ریز ہو جائیں گے البتہ وہ لوگ باقی رہ جائیں گے جو دکھلاوے اور شہرت کے لئے سجدہ کرتے تھے وہ سجدہ کرنا چاہیں گے لیکن ان کی ریڑھ کی ہڈی کے منکے، تختے کی طرح ایک ہڈی بن جائیں گے جس کی وجہ سے ان کے لئے جھکنا ناممکن ہو جائے گا (صحیح بخاری) اللہ تعالٰی کی پنڈلی کس طرح کی ہوگی؟ اسے وہ کس طرح کھولے گا؟ اس کیفیت ہم نہ جان سکتے ہیں نہ بیان کر سکتے ہیں۔ اس لئے جس طرح ہم بلا کیف و بلاشبہ اس کی آنکھوں، کان، ہاتھ وغیرہ پر ایمان رکھتے ہیں، اسی طرح پنڈلی کا ذکر بھی قرآن اور حدیث میں ہے، اس پر بلاکیف ایمان رکھنا ضروری ہے۔ یہی سلف اور محدثین کا مسلک ہے۔