ترجمهٔ معانی قرآن کریم - ترجمه‌ى اردو - محمد جوناكرهى

شماره صفحه:close

external-link copy
38 : 20

اِذْ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰۤی اُمِّكَ مَا یُوْحٰۤی ۟ۙ

جبکہ ہم نے تیری ماں کو وه الہام کیا جس کا ذکر اب کیا جا رہا ہے. info
التفاسير:

external-link copy
39 : 20

اَنِ اقْذِفِیْهِ فِی التَّابُوْتِ فَاقْذِفِیْهِ فِی الْیَمِّ فَلْیُلْقِهِ الْیَمُّ بِالسَّاحِلِ یَاْخُذْهُ عَدُوٌّ لِّیْ وَعَدُوٌّ لَّهٗ ؕ— وَاَلْقَیْتُ عَلَیْكَ مَحَبَّةً مِّنِّیْ ۚ۬— وَلِتُصْنَعَ عَلٰی عَیْنِیْ ۟ۘ

کہ تو اسے صندوق میں بند کرکے دریا میں چھوڑ دے، پس دریا اسے کنارے ﻻ ڈالے گا اور میرا اور خود اس کا دشمن اسے لے لے گا(1) ، اور میں نے اپنی طرف کی خاص محبت ومقبولیت تجھ پر ڈال دی(2)۔ تاکہ تیری پرورش میری آنکھوں کے سامنے(3) کی جائے. info

(1) مراد فرعون ہے جو اللہ کا بھی دشمن اور حضرت موسیٰ (عليه السلام) کا بھی دشمن تھا۔ یعنی لکڑی کا وہ تابوت تیرتا ہواجب شاہی محل کے کنارے پہنچا تو اسے باہر نکال کر دیکھا گیا، تو اس میں ایک معصوم بچہ تھا، فرعون نے اپنی بیوی کی خواہش پر پرورش کے لئے شاہی محل میں رکھ لیا۔
(2) یعنی فرعون کے دل میں ڈال دی یا عام لوگوں کے دلوں میں تیری محبت ڈال دی۔
(3) چنانچہ اللہ کی قدرت کا اور اس کی حفاظت و نگہبانی کا کمال اور کرشمہ دیکھئے کہ جس بچے کی خاطر، فرعون بیشمار بچوں کو قتل کروا چکا، تاکہ وہ زندہ نہ رہے، اسی بچے کو اللہ تعالٰی اس کی گود میں پلوا رہا ہے، اور ماں اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہے، لیکن اس کی اجرت بھی اسی دشمن موسیٰ (عليه السلام) سے وصول کر رہی ہے۔ (فَسُبْحَانَ ذِي الْجَبَرُوتِ وَالْمَلَكُوتِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظَمَةِ)

التفاسير:

external-link copy
40 : 20

اِذْ تَمْشِیْۤ اُخْتُكَ فَتَقُوْلُ هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰی مَنْ یَّكْفُلُهٗ ؕ— فَرَجَعْنٰكَ اِلٰۤی اُمِّكَ كَیْ تَقَرَّ عَیْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ ؕ۬— وَقَتَلْتَ نَفْسًا فَنَجَّیْنٰكَ مِنَ الْغَمِّ وَفَتَنّٰكَ فُتُوْنًا ۫۬— فَلَبِثْتَ سِنِیْنَ فِیْۤ اَهْلِ مَدْیَنَ ۙ۬— ثُمَّ جِئْتَ عَلٰی قَدَرٍ یّٰمُوْسٰی ۟

(یاد کر) جبکہ تیری بہن چل رہی تھی اور کہہ رہی تھی کہ اگر تم کہو تو میں اسے بتا دوں جو اس کی نگہبانی کرے(1) ، اس تدبیر سے ہم نے تجھے پھر تیری ماں کے پاس پہنچایا کہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور وه غمگین نہ ہو۔ اور تو نے ایک شخص کو مار ڈاﻻ تھا(2) اس پر بھی ہم نے تجھے غم سے بچا لیا، غرض ہم نے تجھے اچھی طرح آزما لیا(3)۔ پھر تو کئی سال تک مدین کے لوگوں میں ٹھہرا رہا(4)، پھر تقدیر الٰہی کے مطابق اے(5) موسیٰ! تو آیا. info

(1) یہ اس وقت ہوا، جب ماں نے تابوت دریا میں پھینک دیا تو بیٹی سے کہا، ذرا دیکھتی رہو، یہ کہاں کنارے لگتا ہے اور اس کے ساتھ کیا معاملہ ہوتا ہے؟ جب اللہ کی مشیت سے موسیٰ (عليه السلام) فرعون کے محل میں پہنچ گئے، شیرخوارگی کا عالم تھا، چنانچہ دودھ پلانے والی عورتوں اور آیاؤں کو بلایا گیا لیکن موسیٰ (عليه السلام) کسی کا دودھ نہ پیتے موسیٰ (عليه السلام) کی بہن خاموشی سے سارا منظر دیکھ رہی تھی، بالآخر اس نے کہا میں تمہیں ایسی عورت بتاتی ہوں جو تمہاری یہ مشکل دور کر دے گی، انہوں نے کہا ٹھیک ہے، چنانچہ وہ اپنی ماں کو، جو موسیٰ (عليه السلام) کی بھی ماں تھی، بلا لائی، جب ماں نے بیٹے کو چھاتی سے لگایا تو موسیٰ (عليه السلام) نے اللہ کی تدبیر و مشیت سے غٹا غٹ دودھ پینا شروع کر دیا۔
(2) یہ ایک دوسرے احسان کا ذکر ہے، جب موسیٰ (عليه السلام) سے غیر ارادی طور پر ایک فرعونی کو صرف گھونسہ مارنے سے مر گیا، جس کا ذکر سورہ قصص میں آئے گا۔
(3) فُتُونٌ دخول اور خروج کی طرح مصدر ہے یعنی ابْتَلَيْنَاكَ ابْتِلاء ً یعنی ہم نے تجھے خوب آزمایا۔ یا یہ جمع ہے فتنہ کی جیسے حُجْرَةٌ کی حُجُورٌاور بَدْرٌ کی بُدُورٌکی جمع ہے یعنی ہم نے تجھے کئی مرتبہ یا بار بار آزمایا یا آزمائشوں سے نکالا مثلا جو سال بچوں کے قتل کا تھا تجھے پیدا کیا تیری ماں نے تجھے سمندر کی موجوں کے سپرد کر دیا تمام دایاؤں کا دودھ تجھ پر حرام کر دیا تو نے فرعون کی داڑھی پکڑ لی تھی جس پر اس نے تیرے قتل کا ارادہ کر لیا تھا تیرے ہاتھوں قبطی کا قتل ہوگیا وغیرہ ان تمام مواقع آزمائش میں ہم ہی تیری مدد اور چارہ سازی کرتے رہے۔
(4) یعنی فرعونی کے غیر ارادی قتل کے بعد تو یہاں سے نکل کر مدین چلا گیا اور وہاں کئی سال رہا۔
(5) یعنی ایسے وقت میں تو آیا جو وقت میں نے اپنے فیصلے اور تقدیر میں تجھ سے ہم کلامی اور نبوت کے لئے لکھا ہوا تھا۔ یا قَدَرٍ سے مراد، عمر ہے یعنی عمر کے اس مرحلے میں آیا جو نبوت کے لئے موزوں ہے۔ یعنی چالیس سال کی عمر میں۔

التفاسير:

external-link copy
41 : 20

وَاصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِیْ ۟ۚ

اور میں نے تجھے خاص اپنی ذات کے لئے پسند فرما لیا. info
التفاسير:

external-link copy
42 : 20

اِذْهَبْ اَنْتَ وَاَخُوْكَ بِاٰیٰتِیْ وَلَا تَنِیَا فِیْ ذِكْرِیْ ۟ۚ

اب تو اپنے بھائی سمیت میری نشانیاں ہمراه لئے ہوئے جا، اور خبردار میرے ذکر میں سستی نہ کرنا.(1) info

(1) اس میں داعیان الی اللہ کے لئے بڑا سبق ہے کہ انہیں کثرت سے اللہ کا ذکر کرنا چاہئے۔

التفاسير:

external-link copy
43 : 20

اِذْهَبَاۤ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰی ۟ۚۖ

تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ اس نے بڑی سرکشی کی ہے. info
التفاسير:

external-link copy
44 : 20

فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّهٗ یَتَذَكَّرُ اَوْ یَخْشٰی ۟

اسے نرمی(1) سے سمجھاؤ کہ شاید وه سمجھ لے یا ڈر جائے. info

(1) یہ وصف بھی داعیان کے لئے بہت ضروری ہے۔ کیونکہ سختی سے لوگ بدکتے ہیں اور دور بھاگتے ہیں اور نرمی سے قریب آتے ہیں اور متاثر ہوتے ہیں اگر وہ ہدایت قبول کرنے والے ہوتے ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
45 : 20

قَالَا رَبَّنَاۤ اِنَّنَا نَخَافُ اَنْ یَّفْرُطَ عَلَیْنَاۤ اَوْ اَنْ یَّطْغٰی ۟

دونوں نے کہا اے ہمارے رب! ہمیں خوف ہے کہ کہیں فرعون ہم پر کوئی زیادتی نہ کرے یا اپنی سرکشی میں بڑھ نہ جائے. info
التفاسير:

external-link copy
46 : 20

قَالَ لَا تَخَافَاۤ اِنَّنِیْ مَعَكُمَاۤ اَسْمَعُ وَاَرٰی ۟

جواب ملا کہ تم مطلقاً خوف نہ کرو میں تمہارے ساتھ ہوں اور سنتا دیکھتا رہوں گا.(1) info

(1) تم فرعون کو جا کر کہو گے اور اس کے جواب میں جو کہے گا، میں وہ سنتا اور تمہارے اور اس کے طرز عمل کو دیکھتا رہوں گا۔ اس کے مطابق میں تمہاری مدد اور اس کی چالوں کو ناکام کروں گا، اس لئے اس کے پاس جاؤ، تردد کی کوئی ضرورت نہیں۔

التفاسير:

external-link copy
47 : 20

فَاْتِیٰهُ فَقُوْلَاۤ اِنَّا رَسُوْلَا رَبِّكَ فَاَرْسِلْ مَعَنَا بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ ۙ۬— وَلَا تُعَذِّبْهُمْ ؕ— قَدْ جِئْنٰكَ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكَ ؕ— وَالسَّلٰمُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْهُدٰی ۟

تم اس کے پاس جا کر کہو کہ ہم تیرے پروردگار کے پیغمبر ہیں تو ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دے، ان کی سزائیں موقوف کر۔ ہم تو تیرے پاس تیرے رب کی طرف سے نشانی لے کر آئے ہیں اور سلامتی اسی کے لئے ہے جو ہدایت کا پابند(1) ہو جائے. info

(1) یہ سلام تحیہ نہیں ہے، بلکہ امن و سلامتی کی طرف دعوت ہے۔ جیسے نبی (صلى الله عليه وسلم) نے روم کے بادشاہ ہرقل کے نام مکتوب میں لکھا تھا، ”أَسْلِمْ تَسْلَمْ“ (اسلام قبول کر لے، سلامتی میں رہے گا) اس طرح مکتوب کے شروع میں آپ نے ”وَالسَّلامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى“ بھی تحریر فرمایا، (ابن کثیر) اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی غیر مسلم کو مکتوب یا مجلس میں مخاطب کرنا ہو تو اسے انہی الفاظ میں سلام کہا جائے، جو مشروط ہے ہدایت کے اپنانے کے ساتھ۔

التفاسير:

external-link copy
48 : 20

اِنَّا قَدْ اُوْحِیَ اِلَیْنَاۤ اَنَّ الْعَذَابَ عَلٰی مَنْ كَذَّبَ وَتَوَلّٰی ۟

ہماری طرف وحی کی گئی ہے کہ جو جھٹلائے اور روگردانی کرے اس کے لئے عذاب ہے. info
التفاسير:

external-link copy
49 : 20

قَالَ فَمَنْ رَّبُّكُمَا یٰمُوْسٰی ۟

فرعون نے پوچھا کہ اے موسیٰ تم دونوں کا رب کون ہے؟ info
التفاسير:

external-link copy
50 : 20

قَالَ رَبُّنَا الَّذِیْۤ اَعْطٰی كُلَّ شَیْءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰی ۟

جواب دیا کہ ہمارا رب وه ہے جس نے ہر ایک کو اس کی خاص صورت، شکل عنایت فرمائی پھر راه سجھا دی.(1) info

(1) مثلاً جو شکل صورت انسان کے مناسب حال تھی، وہ اسے، جو جانوروں کے مطابق تھی وہ جانوروں کو عطا فرمائی ”راہ سجھائی“ کا مطلب ہر مخلوق کو اس کی طبعی ضروریات کے مطابق رہن سہن، کھانے پینے اور بود و باش کا طریقہ سمجھا دیا، اس کے مطابق ہر مخلوق کا سامان زندگی فراہم کرتی اور حیات مستعار کے دن گزارتی ہے۔

التفاسير:

external-link copy
51 : 20

قَالَ فَمَا بَالُ الْقُرُوْنِ الْاُوْلٰی ۟

اس نے کہا اچھا یہ تو بتاؤ اگلے زمانے والوں کا حال کیا ہونا ہے.(1) info

(1) فرعون نے بات کا رخ دوسری طرف پھیرنے کے لئے یہ سوال کیا، یعنی پہلے لوگ جو غیر اللہ کی عبادت کرتے ہوئے دنیا سے چلے گئے، ان کا حال کیا ہوگا؟۔

التفاسير: