(1) یعنی یہ مکذبین اور مشرکین مکہ دیکھتے نہیں کہ ان سے پہلے کئی امتیں گزر چکی ہیں، جن کے جانشین ہیں اور ان کی رہائش گاہوں سے گزر کر آگے جاتے ہیں انہیں ہم اسکے جھٹلانے کی وجہ سے ہلاک کر چکے ہیں، جن کے عبرت ناک انجام میں اہل عقل و دانش کے لئے بڑی نشانیاں ہیں، لیکن اہل مکہ ان سے آنکھیں بند کئے ہوئے انہی کی روش اپنائے ہوئے ہیں۔ اگر اللہ تعالٰی نے پہلے سے یہ فیصلہ نہ کیا ہوتا کہ وہ تمام حجت کے بغیر اور اس مدت کے آنے سے پہلے جو وہ مہلت کے لئے کسی قوم کو عطا فرماتا ہے، کسی کو ہلاک نہیں کرتا۔ تو فورا انہیں عذاب الٰہی آ چمٹتا اور یہ ہلاکت سے دو چار ہو چکے ہوتے۔ مطلب یہ ہے کہ تکذیب رسالت کے باوجود اگر ان پر اب تک عذاب نہیں آیا تو یہ سمجھیں کہ آئندہ بھی نہیں آئے گا بلکہ ابھی ان کو اللہ کی طرف سے مہلت ملی ہوئی ہے، جیسا کہ وہ ہر قوم کو دیتا ہے۔ مہلت عمل ختم ہو جانے کے بعد ان کو عذاب الٰہی سے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا۔
(1) بعض مفسرین کے نزدیک تسبیح سے مراد نماز ہے اور وہ اسے پانچ نمازوں سے مراد لیتے ہیں۔ طلوع شمس سے قبل فجر، ٖغروب سے قبل، عصر رات کی گھڑیوں سے مغرب و عشاء اور اطراف النھار سے ظہر کی نماز مراد ہے کیونکہ ظہر کا وقت، یہ نماز اول کا طرف آخر اور نہار آخر کا طرف اول ہے۔ اور بعض کے نزدیک ان اوقات میں ایسے ہی اللہ کی تسبیح و توحید ہے، جس میں نماز، تلاوت، ذکر اذکار، دعا مناجات اور نوافل سب داخل ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ آپ ان مشرکین کی تکذیب سے بد دل نہ ہوں۔ اللہ کی تسبیح و تحمید کرتے رہیں۔ اللہ تعالٰی جب چاہے گا، ان کی گرفت فرما لے گا۔
(2) یہ متعلق ہے فَسَبِّحْ سے یعنی ان اوقات میں تسبیح کریں، یہ امید رکھتے ہوئے کہ اللہ کے ہاں آپ کو وہ مقام و درجہ حاصل ہو جائے گا جس سے آپ کا نفس راضی ہو جائے۔
(1) یہ وہی مضمون ہے جو اس سے قبل سورہ آل عمران: 196، 197، سورہ حجر: 87، 88 اور سورہ کہف: 7 وغیرہ میں بیان ہوا ہے۔
(2) اس سے مراد آخرت کا اجر و ثواب ہے جو دنیا کے مال و اسباب سے بہتر بھی ہے اور اس کے مقابلے میں باقی رہنے والا بھی۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عمر، نبی (صلى الله عليه وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے، دیکھا کہ آپ ایک کھردری چٹائی پر لیٹے ہوئے ہیں اور بے سرو سامانی کا یہ عالم ہے، کہ گھر میں چمڑے کی دو چیزوں کے علاوہ کچھ نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو آ گئے۔ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے پوچھا، عمر کیا بات ہے، روتے کیوں ہو؟ عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیصرو کسرٰی، کس طرح آرام و راحت کی زندگی گزار رہے ہیں اور آپ کا، باوجود اس بات کے کہ آپ افضل الخلق ہیں، یہ حال ہے، فرمایا، عمر کیا تم اب تک شک میں ہو۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو ان کے آرام کی چیزیں دنیا میں ہی دے دی گئی ہیں۔ یعنی آخرت میں ان کے لئے کچھ نہیں ہوگا (بخاري، سورة التحريم- مسلم- باب الإيلاء)
(1) اس خطاب میں ساری امت نبی (صلى الله عليه وسلم) کے تابع ہے۔ یعنی مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ خود بھی نماز کی پا بندی کرے اور اپنے گھر والوں کو بھی نماز کی تاکید کرتا رہے۔
(1) یعنی ان کی خواہش کے مطابق نشانی، جیسے ثمود کے لئے اونٹنی ظاہر کی گئی۔
(2) ان سے مراد تورات، انجیل اور زبور وغیرہ ہیں، یعنی کیا ان میں نبی (صلى الله عليه وسلم) کی صفات موجود نہیں، جن سے ان کی نبوت کی تصدیق ہوتی ہے۔ یا یہ مطلب ہے کہ کیا ان کے پاس پچھلی قوموں کے حالات نہیں پہنچے کہ انہوں نے جب اپنی حسب خواہش معجزے کا مطالبہ کیا اور وہ انہیں دکھا دیا گیا لیکن اس کے باوجود وہ ایمان نہیں لائے، تو انہیں ہلاک کر دیا گیا۔
(1) مراد آخر الزماں پیغمبر حضرت محمد رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) ہیں۔
(1) یعنی مسلمان اور کافر دونوں اس انتظار میں ہیں کہ دیکھو کفر غالب رہتا ہے یا اسلام غالب آتا ہے۔
(2) اس کا علم تمہیں اس سے ہو جائے گا کہ اللہ کی مدد سے کامیاب اور سرخرو کون ہوتا ہے؟ چنانچہ یہ کامیابی مسلمانوں کے حصے میں آئی، جس سے واضح ہوگیا کہ اسلام ہی سیدھا راستہ اور اس کے حاملین ہی ہدایت یافتہ ہیں۔