ترجمهٔ معانی قرآن کریم - ترجمه‌ى اردو - محمد جوناكرهى

شماره صفحه:close

external-link copy
26 : 10

لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰی وَزِیَادَةٌ ؕ— وَلَا یَرْهَقُ وُجُوْهَهُمْ قَتَرٌ وَّلَا ذِلَّةٌ ؕ— اُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ ۚ— هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ ۟

جن لوگوں نے نیکی کی ہے ان کے واسطے خوبی ہے اور مزید برآں بھی(1) اور ان کے چہروں پر نہ سیاہی چھائے گی اور نہ ذلت، یہ لوگ جنت میں رہنے والے ہیں وه اس میں ہمیشہ رہیں گے. info

(1) اس زیادہ کے کئی مفہوم بیان کئے گئے ہیں لیکن حدیث میں اس کی تفسیر دیدار باری تعالٰی سے کی گئی ہے جس سے اہل جنت کو جنت کی نعمتیں دینے کے بعد، مشرف کیا جائے گا (صحيح مسلم كتاب الإيمان، باب إثبات رؤية المؤمنين في الآخرة لربهم)

التفاسير:

external-link copy
27 : 10

وَالَّذِیْنَ كَسَبُوا السَّیِّاٰتِ جَزَآءُ سَیِّئَةٍ بِمِثْلِهَا ۙ— وَتَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ ؕ— مَا لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ عَاصِمٍ ۚ— كَاَنَّمَاۤ اُغْشِیَتْ وُجُوْهُهُمْ قِطَعًا مِّنَ الَّیْلِ مُظْلِمًا ؕ— اُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ— هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ ۟

اور جن لوگوں نے بدکام کیے ان کی بدی کی سزا اس کے برابر ملے گی(1) اور ان کو ذلت چھائے گی، ان کو اللہ تعالیٰ سے کوئی نہ بچا سکے گا(2)۔ گویا ان کے چہروں پر اندھیری رات کے پرت کے پرت لپیٹ دیے گئے ہیں(3)۔ یہ لوگ دوزخ میں رہنے والے ہیں، وه اس میں ہمیشہ رہیں گے. info

(1) گزشتہ آیت میں اہل جنت کا تذکرہ تھا، اس میں بتلایا گیا تھا کہ انہیں ان کے نیک اعمال کی جزا کئی کئی گنا ملے گی اور پھر مزید دیدار الٰہی سے نوازے جائیں گے۔ اس آیت میں بتلایا جا رہا ہے کہ برائی کا بدلہ برائی کے مثل ہی ملے گا ۔ سَيِّئَاتٌ سے مراد کفر اور شرک اور دیگر معاصی ہیں۔
(2) جس طرح اہل ایمان کو بچانے والا اللہ تعالٰی ہوگا اس طرح انہیں اس روز اپنے فضل خاص سے نوازے گا علاوہ ان کے لئے اللہ تعالٰی اپنے مخصوص بندوں کو شفاعت کی اجازت بھی دے گا، جن کی شفاعت بھی وہ قبول فرمائے گا۔
(3) یہ مبالغہ ہے کہ ان کے چہرے اتنے سخت سیاہ ہونگے۔ اس کے برعکس اہل ایمان کے چہرے ترو تازہ اور روشن ہونگے جس طرح سورۃ ال عمران، آیت 106 «يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ» الآية اور سورۃ عبس 38-41 اور سورہ قیامت میں ہے۔

التفاسير:

external-link copy
28 : 10

وَیَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِیْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا مَكَانَكُمْ اَنْتُمْ وَشُرَكَآؤُكُمْ ۚ— فَزَیَّلْنَا بَیْنَهُمْ وَقَالَ شُرَكَآؤُهُمْ مَّا كُنْتُمْ اِیَّانَا تَعْبُدُوْنَ ۟

اور وه دن بھی قابل ذکر ہے جس روز ہم ان سب کو جمع کریں(1) گے پھر مشرکین سے کہیں گے کہ تم اور تمہارے شریک اپنی جگہ ٹھہرو(2) پھر ہم ان کے آپس میں پھوٹ ڈال دیں گے (3)اور ان کے وه شرکا کہیں گے کہ تم ہماری عبادت نہیں کرتے تھے. info

(1) جَمِيعًا سے مراد، ازل سے ابد تک کے تمام اہل زمین انسان اور جنات ہیں، سب کو اللہ تعالٰی جمع فرمائے گا جس طرح کہ دوسرے مقام پر فرمایا «وَحَشَرْنَاهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ أَحَدًا» (الکہف:47) ”ہم ان سب کو اکھٹا کریں گے، کسی ایک کو بھی نہ چھوڑیں گے“۔
(2) ان کے مقابلے میں اہل ایمان کو دوسری طرف کر دیا جائے گا یعنی اہل ایمان اور اہل کفر و شرک کو الگ الگ ایک دوسرے سے ممتاز کر دیا جائے گا جیسے فرمایا «وَامْتَازُوا الْيَوْمَ اَيُّهَا الْمُجْرِمُوْنَ» (یس:59) «يَوْمَئِذٍ يَصَّدَّعُونَ» (الروم:43) «اس دن لوگ گروہوں میں بٹ جائیں گے ' یعنی دو گروہوں میں۔ أَيْ: يَصِيرُونَ صِدْعَيْنِ (ابن کثیر)
(3) یعنی دنیا میں ان کے درمیان آپس میں جو خصوصی تعلق تھا وہ ختم کر دیا جائے گا اور ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے اور ان کے معبود اس بات کا ہی انکار کریں گے کہ یہ لوگ ان کی عبادت کرتے تھے، ان کو مدد کے لئے پکارتے تھے، ان کے نام کی نذر نیاز دیتے تھے۔

التفاسير:

external-link copy
29 : 10

فَكَفٰی بِاللّٰهِ شَهِیْدًا بَیْنَنَا وَبَیْنَكُمْ اِنْ كُنَّا عَنْ عِبَادَتِكُمْ لَغٰفِلِیْنَ ۟

سو ہمارے تمہارے درمیان اللہ کافی ہے گواه کے طور پر، کہ ہم کو تمہاری عبادت کی خبر بھی نہ تھی.(1) info

(1) یہ انکار کی وجہ ہے کہ ہمیں تو کچھ پتہ ہی نہیں، تم کیا کچھ کرتے تھے اور ہم جھوٹ بول رہے ہوں تو ہمارے درمیان اللہ تعالٰی گواہ ہے اور وہ کافی ہے، اس کی گواہی کے بعد کسی اور ثبوت کی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی، یہ آیت اس بات پر نص صریح ہے کہ مشرکین جن کو مدد کے لئے پکارتے تھے،وہ محض پتھر کی مورتیاں نہیں تھیں (جس طرح کہ آج کل کے قبر پرست اپنی قبر پرستی کو جائز ثابت کرنے کے لئے کہتے ہیں کہ اس قسم کی آیات تو بتوں کے لئے ہیں) بلکہ وہ عقل و شعور رکھنے والے افراد ہی ہوتے تھے جن کے مرنے کے بعد لوگ ان کے مجسمے اور بت بنا کر پوجنا شروع کر دیتے تھے۔ جس طرح کہ حضرت نوح (عليه السلام) کی قوم کے طرز عمل سے ثابت ہے جس کی تصریح صحیح بخاری میں موجود ہے۔ دوسرا یہ بھی معلوم ہوا کہ مرنے کے بعد، انسان کتنا بھی نیک ہو، حتیٰ کہ نبی و رسول ہو۔ اسے دنیا کے حالات کا علم نہیں ہوتا، اس کے ماننے والے اور عقیدت مند اسے مدد کے لئے پکارتے ہیں اس کے نام کی نذر نیاز دیتے ہیں، اس کی قبر پر میلے ٹھیلے کا انتظام کرتے ہیں، لیکن وہ بےخبر ہوتا ہے اور ان تمام چیزوں کا انکار ایسے لوگ قیامت والے دن کریں گے۔ یہی بات سورۃ احقاف آیت 5-6 میں بھی بیان کی گئی ہے۔

التفاسير:

external-link copy
30 : 10

هُنَالِكَ تَبْلُوْا كُلُّ نَفْسٍ مَّاۤ اَسْلَفَتْ وَرُدُّوْۤا اِلَی اللّٰهِ مَوْلٰىهُمُ الْحَقِّ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ ۟۠

اس مقام پر ہر شخص اپنے اگلے کیے ہوئے کاموں کی جانچ کرلے گا (1) اور یہ لوگ اللہ کی طرف جو ان کا مالک حقیقی ہے لوٹائے جائیں گے اور جو کچھ جھوٹ باندھا کرتے تھے سب ان سے غائب ہوجائیں گے.(2) info

(1) یعنی جان لے گا یا مزہ چکھ لے گا۔
(2) یعنی کوئی معبود اور ”مشکل کشا“ وہاں کام نہیں آئے گا، کوئی کسی کی مشکل کشائی پر قادر نہیں ہوگا۔

التفاسير:

external-link copy
31 : 10

قُلْ مَنْ یَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ اَمَّنْ یَّمْلِكُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَمَنْ یُّخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَیُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ وَمَنْ یُّدَبِّرُ الْاَمْرَ ؕ— فَسَیَقُوْلُوْنَ اللّٰهُ ۚ— فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ ۟

آپ کہیے کہ وه کون ہے جو تم کو آسمان اور زمین سے رزق پہنچاتا ہے یا وه کون ہے جو کانوں اور آنکھوں پر پورا اختیار رکھتا ہے اور وه کون ہے جو زنده کو مرده سے نکالتا ہے اور مرده کو زنده سے نکالتا ہے اور وه کون ہے جو تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے؟ ضرور وه یہی کہیں گے کہ اللہ (1) تو ان سے کہیے کہ پھر کیوں نہیں ڈرتے. info

(1) اس آیت سے بھی واضح ہے کہ مشرکین اللہ تعالٰی کی مالکیت، خالقیت، ربویت اور اس کے مدبر الامور ہونے کو تسلیم کرتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود چونکہ وہ اس کی الوہیت میں دوسروں کو شریک ٹھہراتے تھے، اس لئے اللہ تعالٰی انہیں جہنم کا ایندھن قرار دیا۔ آج کل کے مدعیان ایمان بھی اسی توحید الوہیت کے منکر ہیں۔ فَتَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ (هَدَاهُمُ اللهُ تَعَالَى)

التفاسير:

external-link copy
32 : 10

فَذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ ۚ— فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ ۚ— فَاَنّٰی تُصْرَفُوْنَ ۟

سو یہ ہے اللہ تعالیٰ جو تمہارا رب حقیقی ہے۔ پھر حق کے بعد اور کیا ره گیا بجز گمراہی کے، پھر کہاں پھرے جاتے ہو؟(2) info

(1) یعنی رب اور اللہ (معبود) تو یہی ہے جس کے بارے میں تمہیں خود اعتراف ہے کہ ہرچیز کا خالق و مالک اور مدبر وہی ہے، پھر اس معبود کو چھوڑ کر جو تم دوسرے معبود بنائے پھرتے ہو، وہ گمراہی کے سوا کچھ نہیں تمہاری سمجھ میں یہ بات کیوں نہیں آتی؟ تم کہاں پھرے جاتے ہو؟

التفاسير:

external-link copy
33 : 10

كَذٰلِكَ حَقَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ عَلَی الَّذِیْنَ فَسَقُوْۤا اَنَّهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ ۟

اسی طرح آپ کے رب کی یہ بات کہ یہ ایمان نہ ﻻئیں گے، تمام فاسق لوگوں کے حق میں ﺛابت ہوچکی ہے.(1) info

(1) یعنی جس طرح مشرکین تمام تر اعتراف کے باوجود اپنے شرک پر قائم ہیں اور اسے چھوڑنے کے لئے تیار نہیں۔ اسی طرح تیرے رب کی بات ثابت ہوگئی کہ ایمان والے نہیں ہیں، کیونکہ یہ غلط راستہ چھوڑ کر صحیح راستہ اختیار کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں تو ہدایت اور ایمان انہیں کس طرح نصیب ہو سکتا ہے؟ یہ وہی بات ہے جسے دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا گیا ہے «وَلٰكِنْ حَقَّتْ كَلِمَةُ الْعَذَابِ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ»(الزمر:71) ”لیکن عذاب کی بات کافروں پر ثابت ہوگئی“۔

التفاسير: