ترجمهٔ معانی قرآن کریم - ترجمه‌ى اردو - محمد جوناكرهى

شماره صفحه:close

external-link copy
79 : 10

وَقَالَ فِرْعَوْنُ ائْتُوْنِیْ بِكُلِّ سٰحِرٍ عَلِیْمٍ ۟

اور فرعون نے کہا کہ میرے پاس تمام ماہر جادوگروں کو حاضر کرو. info
التفاسير:

external-link copy
80 : 10

فَلَمَّا جَآءَ السَّحَرَةُ قَالَ لَهُمْ مُّوْسٰۤی اَلْقُوْا مَاۤ اَنْتُمْ مُّلْقُوْنَ ۟

پھر جب جادوگر آئے تو موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا کہ ڈالو جو کچھ تم ڈالنے والے ہو. info
التفاسير:

external-link copy
81 : 10

فَلَمَّاۤ اَلْقَوْا قَالَ مُوْسٰی مَا جِئْتُمْ بِهِ ۙ— السِّحْرُ ؕ— اِنَّ اللّٰهَ سَیُبْطِلُهٗ ؕ— اِنَّ اللّٰهَ لَا یُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِیْنَ ۟

سو جب انہوں نے ڈاﻻ تو موسی﴿علیہ السلام﴾ نے فرمایا کہ یہ جو کچھ تم ﻻئے ہو جادو ہے۔ یقینی بات ہے کہ اللہ اس کو ابھی درہم برہم کیے دیتا ہے(1) ، اللہ ایسے فسادیوں کا کام بننے نہیں دیتا.(2) info

(1) چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ بھلا جھوٹ بھی، سچ کے مقابلے میں کامیاب ہو سکتا ہے؟ جادوگروں نے، چاہے وہ اپنی فن میں کتنے ہی درجہ کمال کو پہنچے ہوئے تھے، جو کچھ پیش کیا، وہ جادو ہی تھا اور نظر کی شعبدہ بازی ہی تھی اور جب حضرت موسیٰ (عليه السلام) نے اللہ کے حکم سے اپنا عصا پھینکا تو اس نے ساری شعبدہ بازیوں کو آن واحد میں ختم کر دیا۔
(2) اور یہ جادوگر بھی مفسدین تھے، جنہوں نے محض دنیا کمانے کے لئے جادوگری کا فن سیکھا ہوا تھا اور جادو کے کرتب دکھا کر لوگوں کو بیوقوف بناتے تھے، اللہ تعالٰی ان کے اس عمل فساد کو کس طرح سنوار سکتا تھا؟۔

التفاسير:

external-link copy
82 : 10

وَیُحِقُّ اللّٰهُ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِهٖ وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُوْنَ ۟۠

اور اللہ تعالیٰ حق کو اپنے فرمان سے(1) ﺛابت کردیتا ہے گو مجرم کیسا ہی ناگوار سمجھیں. info

(1) یا کلمات سے مراد وہ دلائل و براہین ہیں، جو اللہ تعالٰی اپنی کتابوں میں اتارتا رہا جو پیغمبروں کو وہ عطا فرماتا تھا۔ یا وہ معجزات ہیں جو اللہ تعالٰی کے حکم سے انبیاء کے ہاتھوں سے صادر ہوتے تھے، یا اللہ کا وہ حکم ہے جو لفظ کُنْ سے صادر فرماتا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
83 : 10

فَمَاۤ اٰمَنَ لِمُوْسٰۤی اِلَّا ذُرِّیَّةٌ مِّنْ قَوْمِهٖ عَلٰی خَوْفٍ مِّنْ فِرْعَوْنَ وَمَلَاۡىِٕهِمْ اَنْ یَّفْتِنَهُمْ ؕ— وَاِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِی الْاَرْضِ ۚ— وَاِنَّهٗ لَمِنَ الْمُسْرِفِیْنَ ۟

پس موسیٰ (علیہ السلام) پر ان کی قوم میں سے صرف قدرے قلیل آدمی ایمان ﻻئے (1) وه بھی فرعون سے اور اپنے حکام سے ڈرتے ڈرتے کہ کہیں ان کو تکلیف پہنچائے (2)اور واقع میں فرعون اس ملک میں زور رکھتا تھا، اور یہ بھی بات تھی کہ وه حد سے باہر ہو جاتا تھا.(3) info

(1) قَوْمِهِ کے ”ہ“ ضمیر کے مرجع میں مفسرین کا اختلاف ہے، بعض نے اس کا مرجع حضرت موسیٰ (عليه السلام) کو قرار دیا ہے۔ کیونکہ آیت میں ضمیر سے پہلے انہی کا ذکر ہے یعنی فرعون کی قوم میں سے تھوڑے سے لوگ ایمان لائے، ان کی دلیل یہ ہے کہ بنی اسرائیل کے لوگ تو ایک رسول اور نجات دہندہ کے انتظار میں تھے جو حضرت موسیٰ (عليه السلام) کی صورت میں انہیں مل گئے اور اس اعتبار سے سارے بنی اسرائیل (سوائے قارون کے) ان پر ایمان رکھتے تھے۔ اس لئے صحیح بات یہی ہے کہ «ذُرِّيَّةٌ مِنْ قَوْمِهِ» سے مراد، فرعون کی قوم سے تھوڑے سے لوگ ہیں، جو حضرت موسیٰ (عليه السلام) پر ایمان لائے۔ انہیں میں سے اس کی بیوی (حضرت آسیہ) بھی ہیں۔
(2) قرآن کریم کی یہ صراحت بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہ ایمان لانے والے تھوڑے سے لوگ فرعون کی قوم میں سے تھے، کیونکہ انہی کو فرعون اس کے درباریوں اور حکام سے تکلیف پہنچانے کا ڈر تھا۔ بنی اسرئیل، ویسے تو فرعون کی غلامی و محکومی کی ذلت ایک عرصے سے برداشت کر رہے تھے۔ لیکن موسیٰ (عليه السلام) پر ایمان لانے سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا، نہ انہیں اس وجہ سے مزید تکالیف کا اندیشہ تھا۔
(3) اور ایمان لانے والے اس کے اسی ظلم و ستم کی عادت سے خوف زدہ تھے۔

التفاسير:

external-link copy
84 : 10

وَقَالَ مُوْسٰی یٰقَوْمِ اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰهِ فَعَلَیْهِ تَوَكَّلُوْۤا اِنْ كُنْتُمْ مُّسْلِمِیْنَ ۟

اور موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اے میری قوم! اگر تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو تو اسی پر توکل کرو اگر تم مسلمان ہو. info

(1) بنی اسرائیل، فرعون کی طرف سے جس ذلت اور رسوائی کا شکار تھے، حضرت موسیٰ (عليه السلام) کے آنے کے بعد بھی اس میں کمی نہیں آئی، اس لئے وہ سخت پریشان تھے، بلکہ حضرت موسیٰ (عليه السلام) سے انہوں نے یہ تک کہہ دیا، اے موسٰی، جس طرح تیرے آنے سے پہلے ہم فرعون اور اس کی قوم کی طرف سے تکلیفوں میں مبتلا تھے، تیرے آنے کے بعد بھی ہمارا یہی حال ہے۔ جس پر حضرت موسیٰ (عليه السلام) نے انہیں کہا تھا کہ امید ہے کہ میرا رب جلدی تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے گا۔ لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ تم صرف ایک اللہ سے مدد چاہو اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑو (ملاحظہ ہو سورۃ الاعراف آیات 128-129) یہاں بھی حضرت موسیٰ (عليه السلام) نے انہیں تلقین کی کہ اگر تم اللہ کے سچے فرمانبردار ہو تو اسی پر توکل کرو۔

التفاسير:

external-link copy
85 : 10

فَقَالُوْا عَلَی اللّٰهِ تَوَكَّلْنَا ۚ— رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ۟ۙ

انہوں نے عرض کیا کہ ہم نے اللہ ہی پر توکل کیا۔ اے ہمارے پروردگار! ہم کو ان ﻇالموں کے لئے فتنہ نہ بنا. info
التفاسير:

external-link copy
86 : 10

وَنَجِّنَا بِرَحْمَتِكَ مِنَ الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَ ۟

اور ہم کو اپنی رحمت سے ان کافر لوگوں سے نجات دے.(1) info

(1) اللہ پر توکل کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے بارگاہ الٰہی میں دعائیں بھی کیں۔ اور یقینا اہل ایمان کے لئے یہ ایک بہت بڑا ہتھیار بھی ہے اور سہارا بھی۔

التفاسير:

external-link copy
87 : 10

وَاَوْحَیْنَاۤ اِلٰی مُوْسٰی وَاَخِیْهِ اَنْ تَبَوَّاٰ لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُیُوْتًا وَّاجْعَلُوْا بُیُوْتَكُمْ قِبْلَةً وَّاَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ ؕ— وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ ۟

اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کے پاس وحی بھیجی کہ تم دونوں اپنے ان لوگوں کے لیے مصر میں گھر برقرار رکھو اور تم سب اپنے انہی گھروں کو نماز پڑھنے کی جگہ قرار دے لو(1) اور نماز کے پابند رہو اور آپ مسلمانوں کو بشارت دے دیں. info

(1) اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے گھروں کو ہی مسجدیں بنا لو اور ان کا رخ اپنے قبلے (بیت المقدس) کی طرف کر لو تاکہ تمہیں عبادت کرنے کے لئے باہر عبادت خانوں غیرہ میں جانے کی ضرورت ہی نہ رہے، جہاں تمہیں فرعون کے کارندوں کے ظلم و ستم کا ڈر رہتا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
88 : 10

وَقَالَ مُوْسٰی رَبَّنَاۤ اِنَّكَ اٰتَیْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلَاَهٗ زِیْنَةً وَّاَمْوَالًا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ۙ— رَبَّنَا لِیُضِلُّوْا عَنْ سَبِیْلِكَ ۚ— رَبَّنَا اطْمِسْ عَلٰۤی اَمْوَالِهِمْ وَاشْدُدْ عَلٰی قُلُوْبِهِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْا حَتّٰی یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ ۟

اور موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا اے ہمارے رب! تو نے فرعون کو اور اس کے سرداروں کو سامان زینت اور طرح طرح کے مال دنیاوی زندگی میں دیئے۔ اے ہمارے رب! (اسی واسطے دیئے ہیں کہ) وه تیری راه سے گمراه کریں۔ اے ہمارے رب! ان کے مالوں کو نیست ونابود کر دے اور ان کے دلوں کو سخت کردے (1) سو یہ ایمان نہ ﻻنے پائیں یہاں تک کہ دردناک عذاب کو دیکھ لیں.(2) info

(1) جب موسیٰ (عليه السلام) نے دیکھا کہ فرعون اور اس کی قوم پر وعظ نصیحت کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا اور اس طرح معجزات دیکھ کر بھی ان کے اندر کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ تو پھر ان کے حق میں بد دعا فرمائی۔ جسے اللہ نے یہاں نقل فرمایا ہے۔
(2) یعنی اگر یہ ایمان لائیں بھی تو عذاب دیکھنے کے بعد لائیں، جو ان کے لئے نفع بخش نہیں ہوگا۔ یہاں ذہن میں یہ اشکال نہیں آنا چاہیے کہ پیغمبر تو ہدایت کی دعا کرتے ہیں نہ کہ ہلاکت کی بد دعا۔ اس لئے کہ دعوت و تبلیغ اور ہر طرح سے اتمام حجت کے بعد، جب یہ واضح ہو جائے کہ اب ایمان لانے کی کوئی امید باقی نہیں رہی، تو پھر آخری چارہ کار یہی رہ جاتا ہے کہ اس قوم کے معاملے کو اللہ کے سپرد کر دیا جائے، یہ گو اللہ کی مشیت ہی ہوتی ہے جو بے اختیار پیغمبر کی زبان پر جاری ہو جاتی ہے جس طرح حضرت نوح (عليه السلام) نے بھی ساڑھے نو سو سال تبلیغ کرنے کے بعد بالآخر اپنی قوم کے بارے بد دعا فرمائی۔«رَبِّ لا تَذَرْ عَلَى الأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا» ”اے رب زمین پر ایک کافر کو بھی بسا نہ رہنے دے“۔

التفاسير: