(1) جب موسیٰ علیہ السلام طور پر گئے اور وہاں اللہ نے ان سے براہ راست گفتگو کی، تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دل میں اللہ کو دیکھنے کا بھی شوق پیدا ہوا، اور اپنے اس شوق کا اظہار ربِّ أرِنِي کہہ کر کیا ۔ جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لَنْ تَرَانِي (تو مجھے ہر گز نہیں دیکھ سکتا) اس سے استدلال کرتے ہوئے معتزلہ نے کہا کہ لَنْ نَفْيُ تَأْبِيدٍ (ہمیشہ کی نفی) کے لیے آتا ہے۔ اس لیے اللہ کا دیدار نہ دنیا میں ممکن ہے نہ آخرت میں۔ لیکن معتزلہ کا یہ مسلک صحیح احادیث کے خلاف ہے۔ متواتر، صحیح اور قوی روایات سے ثابت ہے کہ قیامت والے دن اہل ایمان اللہ کو دیکھیں گے اور جنت میں بھی دیدار الہیٰ سے مشرف ہوں گے۔ تمام اہل سنت کا یہی عقیدہ ہے۔ اس نفی رویت کا تعلق صرف دنیا سے ہے۔ دنیا میں کوئی انسانی آنکھ اللہ کو دیکھنے پرقادر نہیں ہے۔ لیکن آخرت میں اللہ تعالیٰ ان آنکھوں میں اتنی قوت پیدا فرما دے گا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے جلوے کو برداشت کرسکے۔
(2) یعنی وہ پہاڑ بھی رب کی تجلی کو برداشت نہ کرسکا اور موسیٰ علیہ السلام بےہوش ہوکر گر پڑے ۔ حدیث میں آتا ہے کہ ”قیامت والے دن سب لوگ بےہوش ہوں گے، (یہ بےہوشی امام ابن کثیر کے بقول میدان محشر میں اس وقت ہوگی جب اللہ تعالیٰ فیصلے کرنے کے لیے نزول اجلال فرمائے گا) اور جب ہوش میں آئیں گے تو میں ہوش میں آنے والوں میں سب سے پہلا شخص ہوں گا، میں دیکھوں گا کہ موسیٰ (عليه السلام) عرش کا پایہ تھامے کھڑے ہیں، مجھے نہیں معلوم کہ وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آئے یا انہیں کوہ طور کی بے ہوشی کے بدلے میں میدان محشر کی بےہوشی سے مستثنیٰ رکھا گیا“۔ (صحيح بخاري- تفسير سورة الأعراف - صحيح مسلم، باب فضائل موسى عليه السلام)
(3) تیری عظمت وجلالت کا اور اس بات کا کہ میں تیرا عاجز بندہ ہوں، دنیا میں تیرے دیدار کا متحّمل نہیں ہوسکتا۔