Traducción de los significados del Sagrado Corán - Traducción al urdu - Muhammad Gunakry

Número de página: 162:151 close

external-link copy
96 : 7

وَلَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰۤی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ وَلٰكِنْ كَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ ۟

اور اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لے آتے اور پرہیزگاری اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتیں کھول دیتے لیکن انہوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کے اعمال کی وجہ سے ان کو پکڑ لیا۔ info
التفاسير:

external-link copy
97 : 7

اَفَاَمِنَ اَهْلُ الْقُرٰۤی اَنْ یَّاْتِیَهُمْ بَاْسُنَا بَیَاتًا وَّهُمْ نَآىِٕمُوْنَ ۟ؕ

کیا پھر بھی ان بستیوں کے رہنے والے اس بات سے بے فکر ہوگئے ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب شب کے وقت آپڑے جس وقت وه سوتے ہوں۔ info
التفاسير:

external-link copy
98 : 7

اَوَاَمِنَ اَهْلُ الْقُرٰۤی اَنْ یَّاْتِیَهُمْ بَاْسُنَا ضُحًی وَّهُمْ یَلْعَبُوْنَ ۟

اور کیا ان بستیوں کے رہنے والے اس بات سے بےفکر ہوگئے ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب دن چڑھے آپڑے جس وقت کہ وه اپنے کھیلوں میں مشغول ہوں۔ info
التفاسير:

external-link copy
99 : 7

اَفَاَمِنُوْا مَكْرَ اللّٰهِ ۚ— فَلَا یَاْمَنُ مَكْرَ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَ ۟۠

کیا پس وه اللہ کی اس پکڑ سے بےفکر ہوگئے۔ سو اللہ کی پکڑ سے بجز ان کے جن کی شامت ہی آگئی ہو اور کوئی بےفکر نہیں ہوتا۔(1) info

(1) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے پہلے یہ بیان فرمایا ہے کہ ایمان وتقویٰ ایسی چیز ہے کہ جس بستی کے لوگ اسے اپنا لیں تو ان پر اللہ تعالیٰ آسمان وزمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتا ہے یعنی حسب ضرورت انہیں آسمان سےبارش مہیا فرماتا ہے اور زمین اس سے سیراب ہوکر خوب پیداوار دیتی ہے ۔ نتیجتاً خوش حالی وفراوانی ان کا مقدر بن جاتی ہے ۔ لیکن اس کے برعکس تکذیب اور کفر کا راستہ اختیار کرنے پر قومیں اللہ کے عذاب کی مستحق ٹھہر جاتی ہیں، پھر پتہ نہیں ہو تاکہ شب وروز کی کس گھڑی میں عذاب آجائے اور ہنستی کھیلتی بستیوں کو آن واحد میں کھنڈر بنا کر رکھ دے۔ اس لیے اللہ کی ان تدبیروں سے بے خوف نہیں ہونا چاہیئے۔ اس بے خوفی کا نتیجہ سوائے خسارے کے اور کچھ نہیں ۔ مکر کے مفہوم کی وضاحت کے لیے دیکھئے سورہ آل عمران آیت ٥٤ کا حاشیہ ۔

التفاسير:

external-link copy
100 : 7

اَوَلَمْ یَهْدِ لِلَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْاَرْضَ مِنْ بَعْدِ اَهْلِهَاۤ اَنْ لَّوْ نَشَآءُ اَصَبْنٰهُمْ بِذُنُوْبِهِمْ ۚ— وَنَطْبَعُ عَلٰی قُلُوْبِهِمْ فَهُمْ لَا یَسْمَعُوْنَ ۟

اور کیا ان لوگوں کو جو زمین کے وارث ہوئے وہاں کے لوگوں کی ہلاکت کے بعد (ان واقعات مذکوره نے) یہ بات نہیں بتلائی کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے جرائم کے سبب ان کو ہلاک کر ڈالیں اور ہم ان کے دلوں پر بند لگا دیں، پس وه نہ سن سکیں۔(1) info

(1) یعنی گناہوں کے نتیجے میں عذاب ہی نہیں آتا، دلوں پر بھی قفل لگ جاتے ہیں، پھر بڑے بڑے عذاب بھی انہیں خواب غفلت سے بیدار نہیں کر پاتے۔ دیگر بعض مقامات کی طرح یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے ایک تو یہ بیان فرمایا ہے کہ جس طرح گزشتہ قوموں کو ہم نے ان کے گناہوں کی پاداش میں ہلاک کیا، ہم چاہیں تو تمہیں بھی تمہارے کرتوتوں کی وجہ سے ہلاک کر دیں اور دوسری بات یہ بیان فرمائی کہ مسلسل گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے لوگوں کے دلوں پر مہر لگا دی جاتی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حق کی آواز کے لیے ان کے کان بند ہو جاتے ہیں ۔ پھر انذار اور وعظ ونصیحت ان کے لیے بیکار ہو جاتے ہیں ۔ آیت میں ہدایت تَبْيِينٌ (وضاحت) کے معنی میں ہے، اسی لیے لام کے ساتھ متعدی ہے۔ أَوَلَمْ يَهْدِ للَّذِينَ، یعنی کیا ان پر یہ بات واضح نہیں ہوئی۔

التفاسير:

external-link copy
101 : 7

تِلْكَ الْقُرٰی نَقُصُّ عَلَیْكَ مِنْ اَنْۢبَآىِٕهَا ۚ— وَلَقَدْ جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ ۚ— فَمَا كَانُوْا لِیُؤْمِنُوْا بِمَا كَذَّبُوْا مِنْ قَبْلُ ؕ— كَذٰلِكَ یَطْبَعُ اللّٰهُ عَلٰی قُلُوْبِ الْكٰفِرِیْنَ ۟

ان بستیوں کے کچھ کچھ قصے ہم آپ سے بیان کر رہے ہیں اور ان سب کے پاس ان کے پیغمبر معجزات لے کر آئے(1) ، پھر جس چیز کو انہوں نے ابتدا میں جھوٹا کہہ دیا یہ بات نہ ہوئی کہ پھر اس کو مان لیتے(2)، اللہ تعالیٰ اسی طرح کافروں کے دلوں پر بند لگا دیتا ہے۔ info

(1) جس طرح گزشتہ صفحات میں چند انبیاء کا ذکر گزرا۔ بینات سے مراد دلائل وبراہین اور معجزات دونوں ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ رسولوں کے ذریعے سے جب تک ہم نے حجت تمام نہیں کر دی، ہم نے انہیں ہلاک نہیں کیا ۔ کیونکہ: «وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبۡعَثَ رَسُولٗا» [الإسراء: 15] ”جب تک ہم رسول نہیں بھیج دیتے ۔ عذاب نازل نہیں کرتے“۔ (2) اس کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ یوم میثاق کو جب ان سے عہد لیا گیا تھا تو یہ اللہ کے علم میں ایمان لانے والے نہ تھے، اس لیے جب ان کے پاس رسول آئے تو اللہ کے علم کے مطابق ایمان نہیں لائے ۔ کیونکہ ان کی تقدیر میں ہی ایمان نہیں تھا جسے اللہ نے اپنے علم کے مطابق لکھ دیا تھا ۔ جس کو حدیث میں «فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ» (صحيح بخاري، تفسير سورة الليل) سے تعبیر کیا گیا ہے دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جب پیغمبر ان کے پاس آئے تو وہ اس وجہ سے ان پر ایمان نہیں لائے کہ وہ اس سے قبل حق کی تکذیب کر چکے تھے ۔ گویا ابتداءً جس چیز کی وہ تکذیب کرچکے تھے، یہی گناہ ان کے عدم ایمان کا سبب بن گیا اور ایمان لانے کی توفیق ان سے سلب کر لی گئی، اسی کو اگلے جملے میں مہر لگانے سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ «وَمَا يُشۡعِرُكُمۡ أَنَّهَآ إِذَا جَآءَتۡ لَا يُؤۡمِنُونَ، وَنُقَلِّبُ أَفۡ‍ِٔدَتَهُمۡ وَأَبۡصَٰرَهُمۡ كَمَا لَمۡ يُؤۡمِنُواْ بِهِۦٓ أَوَّلَ مَرَّةٖ» [الأنعام: 109-110]. ”اور تمہیں کیا معلوم ہے یہ تو ایسے (بدبخت) ہیں کہ ان کے پاس نشانیاں بھی آجائیں تب بھی ایمان نہ لائیں اور ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو الٹ دیں گے (تو) جیسے یہ اس (قرآن) پر پہلی دفعہ ایمان نہیں لائے (ویسے پھر نہ لائیں گے)“۔

التفاسير:

external-link copy
102 : 7

وَمَا وَجَدْنَا لِاَكْثَرِهِمْ مِّنْ عَهْدٍ ۚ— وَاِنْ وَّجَدْنَاۤ اَكْثَرَهُمْ لَفٰسِقِیْنَ ۟

اور اکثر لوگوں میں ہم نے وفائے عہد نہ دیکھا(1) اور ہم نے اکثر لوگوں کو بےحکم ہی پایا۔ info

(1) اس سے بعض نے عہد الست، جو عالم ارواح میں لیا گیا تھا، بعض نے عذاب ٹالنے کے لیے پیغمبروں سے جو عہد کرتے تھے، وہ عہد اور بعض نے عام عہد مراد لیا ہے جو آپس میں ایک دوسرے سے کرتے تھے ۔ اور یہ عہد شکنی، چاہے وہ کسی بھی قسم کی ہو، فسق ہی ہے ۔

التفاسير:

external-link copy
103 : 7

ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْ بَعْدِهِمْ مُّوْسٰی بِاٰیٰتِنَاۤ اِلٰی فِرْعَوْنَ وَمَلَاۡىِٕهٖ فَظَلَمُوْا بِهَا ۚ— فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَ ۟

پھر ان کے بعد ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے دﻻئل دے کر فرعون اور اس کے امرا کے پاس بھیجا(1) ، مگر ان لوگوں نے ان کا بالکل حق ادا نہ کیا۔ سو دیکھئے ان مفسدوں کا کیا انجام ہوا؟(2) info

(1) یہاں سے حضرت موسیٰ (عليه السلام) کا ذکر شروع ہورہا ہے جو مذکورہ انبیاء کے بعد آئے جو جلیل القدر پیغمبر تھے، جنہیں فرعون مصر اور اس کی قوم کی طرف دلائل ومعجزات دے کر بھیجا گیا تھا ۔ (2) یعنی انہیں غرق کر دیا گیا، جیسا کہ آگے آئے گا۔

التفاسير:

external-link copy
104 : 7

وَقَالَ مُوْسٰی یٰفِرْعَوْنُ اِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۟ۙ

اور موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اے فرعون! میں رب العالمین کی طرف سے پیغمبر ہوں۔ info
التفاسير: