Traducción de los significados del Sagrado Corán - Traducción al urdu - Muhammad Gunakry

مؤمنون

external-link copy
1 : 23

قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ ۟ۙ

یقیناً ایمان والوں نے فلاح حاصل کرلی.(1) info

(1) فَلَاح کے لغوی معنی ہیں چیرنا، کاٹنا، کاشت کار کو فَلَاح کہا جاتا ہے کہ وہ زمین کو چیر پھاڑ کر اس میں بیج بوتا ہے، مفلح (کامیاب) بھی وہ ہوتا ہے جو صعوبتوں کو قطع کرتے ہوئے مطلب تک پہنچ جاتا ہے، یا کامیابی کی راہیں اس کے لئے کھل جاتی ہیں، اس پر بند نہیں ہوتیں۔ شریعت کی نظر میں کامیاب وہ ہے جو دنیا میں رہ کر اپنے رب کو راضی کر لے اور اس کے بدلے میں آخرت میں اللہ کی رحمت و مغفرت کا مستحق قرار پا جائے۔ اس کے ساتھ دنیا کی سعادت و کامرانی بھی میسر آ جائے تو سبحان اللہ۔ ورنہ اصل کامیابی تو آخرت ہی کی کامیابی ہے۔ گو دنیا والے اس کے برعکس دنیاوی آسائشوں سے بہرہ ور کو ہی کامیاب سمجھتے ہیں۔ آیت میں ان مومنوں کو کامیابی کی نوید سنائی گئی ہے جن میں ذیل کی صفات ہوں گی۔ مثلًا اگلی آیات ملاحظہ ہوں۔

التفاسير:

external-link copy
2 : 23

الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَ ۟ۙ

جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں.(1) info

(1) خُشُوع سے مراد، قلب کی یکسوئی اور مصروفیت ہے۔ قلبی یکسوئی یہ ہے کہ نماز کی حالت میں بہ قصد خیالات اور وسوسوں کے ہجوم سے دل کو محفوظ رکھے اور اللہ کی عظمت و جلالت کا نقش اپنے دل پر بٹھا نے کی سعی کرے۔ اعضا و دل کی یکسوئی یہ ہے کہ ادھر ادھر نہ دیکھے، کھیل کود نہ کرے، بالوں اور کپڑوں کو سنوارنے میں نہ لگا رہے بلکہ خوف و خشیت اور عاجزی کی ایسی کیفیت طاری ہو، جیسے عام طور پر بادشاہ یا کسی بڑے شخص کے سامنے ہوتی ہے۔

التفاسير:

external-link copy
3 : 23

وَالَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ ۟ۙ

جو لغویات سے منھ موڑ لیتے ہیں.(1) info

(1) لَغْو ہر وہ کام اور ہر وہ بات جس کا کوئی فائدہ نہ ہو یا اس میں دینی یا دنیاوی نقصانات ہوں، ان سے پرہیز مطلب ہے ان کی طرف خیال بھی نہ کیا جائے۔ چہ جائیکہ انہیں اختیار یا ان کا ارتکاب کیا جائے۔

التفاسير:

external-link copy
4 : 23

وَالَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَ ۟ۙ

جو زکوٰة ادا کرنے والے ہیں.(1) info

(1) اس سے مراد بعض کے نزدیک زکوۃ مفروضہ ہے، (جس کی تفصیلات یعنی اس کا نصاب اور زکوۃ کی شرع مدینہ میں بتلائی گئی تاہم) اس کا حکم مکے میں ہی دے دیا گیا تھا اور بعض کے نزدیک ایسے افعال کا اختیار کرنا ہے، جس سے نفس اور اخلاق و کردار کی پاکیزگی ہو۔

التفاسير:

external-link copy
5 : 23

وَالَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَ ۟ۙ

جو اپنی شرمگاہوں کی حفاﻇت کرنے والے ہیں. info
التفاسير:

external-link copy
6 : 23

اِلَّا عَلٰۤی اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ ۟ۚ

بجز اپنی بیویوں اور ملکیت کی لونڈیوں کے یقیناً یہ ملامتیوں میں سے نہیں ہیں. info
التفاسير:

external-link copy
7 : 23

فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَآءَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْعٰدُوْنَ ۟ۚ

جو اس کے سوا کچھ اور چاہیں وہی حد سے تجاوز کرجانے والے ہیں.(1) info

(1) اس سے معلوم ہوا کہ متعہ کی اسلام میں قطعًا اجازت نہیں اور جنسی خواہش کی تسکین کے لئے صرف دو ہی جائز طریقے ہیں۔ بیوی سے مباشرت کر کے یا لونڈی سے ہم بستری کر کے۔ بلکہ اب صرف بیوی ہی اس کام کے لئے رہ گئی ہے کیونکہ اصطلاحی لونڈی کا وجود فی الحال ختم ہے جب کبھی حالات نے دوبارہ وجود پذیر کیا تو بیوی ہی کی طرح اس سے مباشرت جائز ہوگی۔

التفاسير:

external-link copy
8 : 23

وَالَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رٰعُوْنَ ۟ۙ

جو اپنی امانتوں اور وعدے کی حفاﻇت کرنے والے ہیں.(1) info

(1) امَانَات سے مراد سونپی ہوئی ڈیوٹی کی ادائیگی، راز دارانہ باتوں اور مالی امانتوں کی حفاظت اور رعایت عہد میں اللہ سے کیے ہوئے میثاق اور بندوں سے کیے عہد و پیماں دونوں شامل ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
9 : 23

وَالَّذِیْنَ هُمْ عَلٰی صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَ ۟ۘ

جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں.(1) info

(1) آخر میں پھر نمازوں کی حفاظت کو فلاح کے لئے ضروری قرار دیا، جس سے نماز کی اہمیت و فضیلت واضح ہے۔ لیکن آج مسلمان کے نزدیک دوسرے اعمال صالح کی طرح اس کی بھی کوئی اہمیت سرے سے باقی نہیں رہ گئی ہے۔ فَإِنَّا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ

التفاسير:

external-link copy
10 : 23

اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَ ۟ۙ

یہی وارث ہیں. info
التفاسير:

external-link copy
11 : 23

الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ ؕ— هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ ۟

جو فردوس کے وارث ہوں گے جہاں وه ہمیشہ رہیں گے.(1) info

(1) ان صفات مذکورہ کے حامل مومن ہی فلاح یاب ہونگے جو جنت کے وارث یعنی حق دار ہوں گے۔ جنت بھی جنت الفردوس، جو جنت کا اعلٰی حصہ ہے۔ جہاں سے جنت کی نہریں جاری ہوتی ہیں (صحیح بخاری، کتاب الجہاد، باب درجات المجاہدین، فی سبیل اللہ، وکتاب التوحید، باب وکان عرشہ علی ماء)

التفاسير:

external-link copy
12 : 23

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِیْنٍ ۟ۚ

یقیناً ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا.(1) info

(1) مٹی سے پیدا کرنے کا مطلب، ابو البشر حضرت آدم (عليه السلام) کی مٹی سے پیدائش ہے یا انسان جو خوراک بھی کھاتا ہے وہ سب مٹی سے ہی پیدا ہوتی ہیں، اس اعتبار سے اس نطفے کی اصل، جو خلقت انسانی کا باعث بنتا ہے، مٹی ہی ہے۔

التفاسير:

external-link copy
13 : 23

ثُمَّ جَعَلْنٰهُ نُطْفَةً فِیْ قَرَارٍ مَّكِیْنٍ ۪۟

پھر اسے نطفہ بنا کر محفوظ جگہ میں قرار دے دیا.(1) info

(1) محفوظ جگہ سے مراد رحم مادر ہے، جہاں نو مہینے بچہ بڑی حفاظت سے رہتا اور پرورش پاتا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
14 : 23

ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًا ۗ— ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ ؕ— فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ ۟ؕ

پھر نطفہ کو ہم نے جما ہوا خون بنا دیا، پھر اس خون کے لوتھڑے کو گوشت کا ٹکڑا کردیا۔ پھر گوشت کے ٹکڑے کو ہڈیاں بنا دیں، پھر ہڈیوں کو ہم نے گوشت پہنا دیا(1) ، پھر دوسری بناوٹ میں اس کو پیدا کردیا(2)۔ برکتوں واﻻ ہے وه اللہ جو سب سے بہترین پیدا کرنے واﻻ ہے.(3) info

(1) اس کی کچھ تفصیل سورہ حج میں گزر چکی ہے۔ یہاں پھر اسے بیان کیا گیا ہے۔ تاہم وہاں مُخلَّقَۃ کا جو ذکر تھا، یہاں اس کی وضاحت، مُضْغَۃ کو ہڈیوں میں تبدیل کرنے اور ہڈیوں کو گوشت پہنانے، سے کر دی ہے۔ مُضْغَۃ گوشت کو ہڈیوں سے تبدیل کرنے کا مقصد، انسانی ڈھانچے کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرنا ہے کیونکہ محض گوشت میں تو کوئی سختی نہیں ہوتی، پھر اگر اسے ہڈیوں کا ڈھانچہ ہی رکھا جاتا، تو انسان میں وہ حس و رعنائی نہ آتی، جو ہر انسان کے اندر موجود ہے۔ اس لئے ہڈیوں پر ایک خاص تناسب اور مقدار سے گوشت چڑھا دیا گیا کہیں کم اور کہیں زیادہ۔ تاکہ قدو قامت میں غیر موزونیت اور بھدا پن پیدا نہ ہو۔ بلکہ حسن و جمال کا ایک پیکر اور قدرت کی تخلیق کا ایک شاہ کار ہو۔ اسی چیز کو قرآن نے ایک دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا «لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ» (التین:4) ”ہم نے انسان کو احسن تقویم یعنی بہت اچھی ترکیب یا بہت اچھے ڈھانچے میں بنایا“۔
(2) اس سے مراد وہ بچہ ہے جو نو مہینے کے بعد ایک خاص شکل و صورت لے کر ماں کے پیٹ سے باہر آتا ہے اور حرکت و اضطراب کے ساتھ دیکھنے اور سننے اور ذہنی قوتیں بھی ساتھ ہوتی ہیں۔
(3) خَالِقِیْنَ یہاں ان صالحین کے معنی میں ہے۔ جو خاص خاص مقداروں میں اشیا کو جوڑ کر کوئی ایک چیز تیار کرتے ہیں۔ یعنی ان تمام صنعت گروں میں، اللہ جیسا بھی کوئی صنعت گر ہے جو اس طرح کی صنعت کاری کا نمونہ پیش کر سکے جو اللہ تعالٰی نے انسانی پیکر کی صورت میں پیش کیا ہے۔ پس سب سے زیادہ خیر و برکت والا وہ اللہ ہی ہے، جو تمام صنعت کاروں سے بڑا اور سب سے اچھا صنعت کار ہے۔

التفاسير:

external-link copy
15 : 23

ثُمَّ اِنَّكُمْ بَعْدَ ذٰلِكَ لَمَیِّتُوْنَ ۟ؕ

اس کے بعد پھر تم سب یقیناً مر جانے والے ہو. info
التفاسير:

external-link copy
16 : 23

ثُمَّ اِنَّكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ تُبْعَثُوْنَ ۟

پھر قیامت کے دن بلا شبہ تم سب اٹھائے جاؤ گے. info
التفاسير:

external-link copy
17 : 23

وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرَآىِٕقَ ۖۗ— وَمَا كُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غٰفِلِیْنَ ۟

ہم نے تمہارے اوپر سات آسمان بنائے ہیں(1) اور ہم مخلوقات سے غافل نہیں ہیں.(2) info

(1) طَرَائِقَ، طَرِيقَةٌ کی جمع ہے مراد آسمان ہیں عرب، اوپر تلے چیز کو بھی کہتے ہیں آسمان بھی اوپر تلے ہیں اس لئے انہیں طرائق کہا۔ یا طریقہ بمعنی راستہ ہے، آسمان ملائکہ کے آنے جانے یا ستاروں کی گزرگاہ ہے، اس لئے انہیں طرائق قرار ریا۔
(2) خَلَق سے مراد مخلوق ہے۔ یعنی آسمانوں کو پیدا کر کے ہم اپنی زمینی مخلوق سے غافل نہیں ہوگئے بلکہ ہم نے آسمانوں کو زمین پر گرنے سے محفوظ رکھا ہے تاکہ مخلوق ہلاک نہ ہو۔ یا یہ مطلب ہے کہ مخلوق کی مصلحتوں اور ان کی ضروریات زندگی سے غافل نہیں ہوگئے بلکہ ہم اس کے انتظام کرتے ہیں (فتح القدیر) اور بعض نے یہ مفہوم بیان کیا ہے کہ زمین سے جو کچھ نکلتا یا داخل ہوتا، اسی طرح آسمان سے جو اترتا اور چڑھتا ہے، سب اس کے علم میں ہے اور ہرچیز پر وہ نظر رکھتا ہے اور ہر جگہ وہ اپنے علم کے لحاظ سے تمہارے ساتھ ہوتا ہے۔ (ابن کثیر)

التفاسير: